صرف مہنگی نہیں، 'بے کار' ڈگری؟ وہ اصل وجہ جس نے عوامی جامعات کا 'ٹرسٹ' توڑ دیا









 

پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی شعبے میں 2025ء کے داخلے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ صورتحال ملک کے تعلیمی نظام کے ایک بڑے بحران کی غماز ہے۔ آئیے اس کی بنیادی وجوہات اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

 

 بنیادی مسئلہ تعلیم اور روزگار کے درمیان خلیج

 

1.   تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تعلیم اور موجودہ دور کے روزگار کے تقاضوں کے درمیان ایک واضح فرق پیدا ہو گیا ہے۔

2.   طلباء اس فرق کو محسوس کر رہے ہیں اور وہ روایتی جامعات کے بجائے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔

3.   یہ صورتحال ملک کے تعلیمی پائپ لائن کی ایک اہم ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔

 

 اعلیٰ تعلیم میں داخلے میں کمی

 

1.   مالی سال 2022ء میں 2.23 ملین کے مقابلے میں مالی سال 2023ء میں داخلے کی تعداد گھٹ کر 1.94 ملین رہ گئی ہے۔

2.   اس میں 13 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

3.   مستقبل قریب میں اس کے محض 0.8فیصد تک بہتر ہونے کا امکان ہے۔

 

اگر ہم اس بات کا اندازہ لگائیں تو سکولوں کی سطح پر داخلے میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جبکہ یونیورسٹی یا کالج لیول میں یہ شرح بتدریج گرتی دکھائی دے رہی  ہے۔

1.   پرائمری اور سیکنڈری سطح پر داخلے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

2.   لیکن جامعتی سطح پر پہنچتے پہنچتے یہ شرح یکدم گر جاتی ہے۔

3.   یہ اس بات کی علامت ہے کہ طلباء کو ایک اہم موڑ پر تعلیمی نظام میں رکھنے میں ناکامی ہو رہی ہے۔

 

 بنیادی وجوہات کا جائزہ

1.   عوامی جامعات کے اخراجات نجی جامعات کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن یہ بھی اکثر طلباء کے لیے حصول سے باہر ہیں۔

2.   ایک سمسٹر کی فیسیں ایک عام خاندان کی ماہانہ آمدنی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔

3.   یہ مالی رکاوٹ بہت سے ہونہار طلباء کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیتی ہے۔

  فرسودہ نصاب

 

     i.     employers کا ایک بڑا طبقہ عوامی جامعات کے گریجویٹس کے ہنر سے مطمئن نہیں ہے۔

2.   نصاب میں جدید ڈیجیٹل ہنر، موثر رابطے کی صلاحیتیں، اور مسائل کے حل کی مہارتیں شامل نہیں ہیں۔

3.   اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈگری تو حاصل ہو جاتی ہے لیکن روزگار کے مواقع نہیں ملتے۔

 

طلباء کی ایک بڑی تعداد کن شعبوں کاانتخاب کر رہے ہیں؟

 

1.   طلباء اب زیادہ معقول، کم وقت میں مکمل ہونے والے، اور روزگار سے براہ راست منسلک تعلیمی راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔

1.   vocational training میں اضافہ

2.   مالی سال 2024ء میں 460,000 سے زائد طلباء نے vocational training کے پروگراموں میں داخلہ لیا۔

3.   ان کا مقصد براہ راست روزگار دلانے والے عملی ہنر سیکھنا ہے۔

 

 آن لائن learning کا عروج

1.   DigiSkills.pk جیسے پلیٹ فارمز نے 2018ء کے بعد سے 4.5 ملین سے زائد مفت تربیتی کورسز کرائے ہیں۔   یہ پلیٹ فارمز سہولت، affordability اور جدید موضوعات کی وجہ سے مقبول ہو رہے ہیں۔

 

 (Brain Drain) میں تیزی

 

2.   ۲۰۱۹ کے بعد سے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کے لیے جاری کردہ طالب علم ویزوں میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔

3.   نوجوان ملک سے باہر بہتر تعلیمی اور روزگار کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔پاکستان کا نواجوان ذہنی طور پر تیار ہے کہ کسی بھی وقت وہ ملک سے باہر چلا جائے گا۔ جو کہ ہمارےوطن کے لئے شدید نقصان دہ ہے۔

 

بحران کا دائرہ عمل

یہ بحران ایک ایسے چکر کو جنم دے رہا ہے جو عوامی تعلیمی اداروں کے مالیاتی اور تعلیمی استحکام کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

 

1.   داخلے میں کمی جامعات کی آمدنی اور فنڈنگ میں کمی

2.   آمدنی میں کمی معیار تعلیم اور سہولیات کا خاتمہ

3.   معیار تعلیم میں کمی گریجویٹس کی employability میں کمی داخلے میں مزید کمی

4.    اس کا نتیجہ مساوات کے اصولوں کے breakdown اور عوامی اعتماد کے خاتمے کی صورت میں نکل رہا ہے۔

اگر ہم نے جلد اس کے بارے میں نہ سوچا تو بعید نہیں کہ :

 1. "نااہل" نسل کا ابھار اور قومی ترقی کا جمود

1.   جامعات جو ملک کے لیے لیڈر، انجینئر، ڈاکٹر اور ماہرین تیار کرتی ہیں، وہ ایسے فارغ التحصیل دے رہی ہوں گی جن کے پاس جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ہنر نہیں ہوں گے۔

2.   نتیجہ معیشت جامد ہو جائے گی۔ نہ نئی ایجادات ہوں گی، نہ صنعتی ترقی، اور نہ ہی عالمی مقابلے کی صلاحیت باقی رہے گی۔ پاکستان عالمی معیشت میں پیچھے رہ جائے گا۔

 

 2. معاشی غلامی اور بین الاقوامی مقروضیت میں مزید اضافہ

1.   اگر ملک سے  ہنرمند اور ذہین لوگ بیرون ملک کام کرنے چلے جائیں گے تو ایسے لوگوں کا شدید بحران بڑھ جائے گا۔

2.   نتیجہ پاکستان مہنگے بیرونی ماہرین درآمد کرنے پر مجبور ہوگا، جس سے قیمتی زرمبادلہ باہر جائے گا اور قرضوں پر انحصار مزید بڑھے گا۔ درحقیقت، ملک فکری غلامی کی طرف بڑھے گا۔

 

 3. سماجی انہدام کی طرف تیز سفر

1.   مایوس نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو تعلیم کے بعد بھی روزگار نہیں پا سکے گی، وہ معاشرے کے لیے ایک بارود بن جائے گی۔

2.   نتیجہ جرائم، دہشت گردی، اور نسلی و مذہبی تعصب میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ سماجی ڈھانچہ چورا چورا ہو جائے گا اور عام شہری کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔

 

 4. جمہوریت اور اداروں پر مکمل بیزاری

1.   جب نوجوانوں کو لگے گا کہ نظام نے انہیں کچھ نہیں دیا، تو وہ جمہوری عمل اور اداروں سے مکمل طور پر کٹ جائیں گے۔

2.   نتیجہ انتہا پسند نظریات کو پزیرائی ملے گی۔ ملک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے، جو کسی بھی قومی ترقی کی بنیادی شرط ہے۔

 

 5. پاکستان ایک "فیلڈ" stát بن کر رہ جائے گا

1.   ترقی یافتہ ممالک پاکستان کے ذہین ترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچیں گے، اور ہماری معیشت بنیادی طور پر خام مال یا کم صلاحیت والی لیبر تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔

2.   نتیجہ پاکستان علمی اور معاشی طور پر کالونی جیسی صورت حال میں چلا جائے گا، جہاں دوسرے ممالک کے فیصلوں پر چلنا پڑے گا۔

3.   اگر جامعات کی یہی حالت رہی، تو پاکستان کا مستقبل ایک ایسی نسل کے ہاتھوں میں ہوگا جو جدید دور کے چیلنجز کے لیے تیار نہیں ہے، ایک ایسی معیشت ہوگی جو دنیا سے مقابلہ نہیں کر سکتی، اور ایک ایسا معاشرہ ہوگا جو انتشار کا شکار ہے۔

4.    یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ موجودہ اعداد و شمار اور رجحانات کا منطقی نتیجہ ہے۔ بحران کو فوری اور ٹھوس اقدامات کے ساتھ قومی ترجیح بنانا ہی واحد راستہ ہے ورنہ آنے والا وقت پاکستان کے لیے انتہائی مشکل ہوگا۔

0 Comments