مصافحے سے منافقت تک: کیا مسلم رہنما سفارت کاری کے لیے اسلام سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟
Saturday, May 17, 2025
تیز رفتار
گھوڑا
ایک روز بادشاہ اکبر اپنے
نئے عربی گھوڑے پر سوار ہو کر دربار میں آئے۔ گھوڑا واقعی خوبصورت اور طاقتور تھا۔
اکبر بہت فخر محسوس کر رہے تھے۔
"دیکھو
بیربل!" اکبر نے فخریہ انداز میں کہا۔ "میرا یہ گھوڑا اتنا تیز ہے کہ
اگر میں صبح سورج نکلنے سے پہلے سوار ہو جاؤں، تو سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی میں
اگلے شہر میں پہنچ جاؤں!"
درباریوں نے تعریف کے
ڈونگرے برسائے۔ "واہ! کیا زبردست گھوڑا ہے!" "حضور کے لیے ایسا ہی
شاندار گھوڑا زیبا بھی ہے!"
بیربل خاموشی سے گھوڑے کو
دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اکبر سے پوچھا، "بے شک زبردست گھوڑا ہے، جہاں پناہ۔ لیکن
ایک بات بتائیے، اگر یہ سورج سے پہلے ہی منزل پر پہنچ جاتا ہے، تو پھر پوری رات یہ
کہاں رہتا ہے؟"
یہ سن کر اکبر نے مذاق میں
جواب دیا، "ارے بیربل! یہ تو ہوا سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ رات کو ہوا کے ساتھ
اڑنے کی مشق کرتا ہے!"
بیربل فوراً بولا،
"جہاں پناہ، پھر تو بات بالکل واضح ہے۔ آپ کا گھوڑا جتنا تیز ہے، اس سے کہیں
زیادہ تیز تو ہوا ہے۔ کیونکہ گھوڑا صرف دوڑتا ہے، لیکن ہوا تو ہمیشہ آپ کے گھوڑے
کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہے، بغیر تھکے۔ سچ پوچھیے تو ہوا ہی آپ کا اصل ساتھی ہے، جو ہر
سفر میں آپ کے ساتھ رہتی ہے!"
یہ جواب سن کر اکبر داہنے
ہاتھ سے گھوڑے کی پیٹھ تھپتھپائی اور بائیں ہاتھ سے اپنی داڑھی سنبھالتے ہوئے
مسکرا دیے۔ "بہت خوب بیربل! تم نے سچ کہا۔ ہوا بغیر کسی انعام کے ہمیشہ ہمارا
ساتھ دیتی ہے۔ یہ تو ہماری وفادار ساتھی ہے۔"
خالی ہاتھ
شاہی دربار میں ایک غریب
اور سادہ دل کسان آیا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ جب اس کی باری آئی تو وہ
بادشاہ کے سامنے گیا اور گھبراتے ہوئے بولا، "جہاں پناہ، میں آپ کے لیے ایک
خاص تحفہ لایا ہوں... لیکن... لیکن میرا ہاتھ خالی ہے۔"
درباریوں نے حقارت بھری
نظروں سے اسے دیکھا۔ ایک وزیر نے کہا، "حضور، یہ تو دربار کا مذاق بنا رہا
ہے۔ خالی ہاتھ کو تحفہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟"
کسان شرمندہ ہو کر سر
جھکا کر کھڑا رہ گیا۔
تب بیربل آگے بڑھا۔ اس نے
کسان کے خالی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور پوچھا، "تم سچ مچ ہمارے
بادشاہ سلامت کے لیے تحفہ لائے تھے؟"
کسان نے افسردہ ہو کر
کہا، "جی حضور۔ میں اپنی سب سے اچھی فصل کا پہلا پھول لایا تھا، لیکن راستے میں
ایک غریب بیوہ اور اس کے بچوں نے مجھے روکا۔ وہ بہت بھوکے تھے۔ میں نے وہ پھول انہیں
بیچ دیا اور اس کی قیمت سے ان کے لیے روٹی خرید دی۔ اب میرے پاس صرف نیک نیتی بچی
ہے۔"
یہ سن کر بیربل نے اپنی جیب
سے ایک چمکدار، ہموار پتھر نکالا اور اسے کسان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پھر وہ بادشاہ
کی طرف مڑا اور بولا، "جہاں پناہ، یہ لوں آپ کا تحفہ۔ یہ کسان اپنی نیک نیتی
لے کر آیا تھا، اور نیک نیتی ہی سب سے بڑا تحفہ ہوتی ہے۔ میں نے اس کی نیک نیتی کو
اس خوبصورت پتھر کی شکل دے دی ہے، تاکہ آپ اسے دیکھ بھی سکیں۔ خالی ہاتھ تبھی خالی
ہوتا ہے جب دل بھی خالی ہو۔ اس کسان کا دل تو محبت اور ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔"
اکبر نے پتھر لیا اور
کسان کو قیمتی انعامات دینے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا، "بیربل نے سچ کہا۔ سچا
تحفہ دل کی خلوص ہے، نہ کہ ہاتھ کا بوجھ۔"
رات کا سورج
موسم گرما کی ایک دوپہر
تھی۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ بادشاہ اکبر نے بیربل سے کہا،
"بیربل، سورج دن میں تو ہمارا ساتھ دیتا ہے، روشنی اور گرمی دیتا ہے۔ لیکن
رات کو جب اندھیرا ہوتا ہے تو مجھے اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کیا تم رات کے وقت بھی
ہمارے لیے ایک چھوٹا سا سورج نکال سکتے ہو؟"
یہ سن کر درباریوں نے
سمجھا کہ بادشاہ مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن بیربل سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے کہا, "جی
جہاں پناہ، میں کل رات کو یہ کام کر دکھاؤں گا۔"
اگلی شام، جب سورج ڈوبنے
لگا تو بیربل ایک بڑی شمع اور ایک چمکدار چادر لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا۔ اس نے
شمع روشن کی اور اسے چادر کے پیچھے اس طرح رکھا کہ شمع کی روشنی چادر کے گرد ایک
دائرہ بنا رہی تھی۔
پھر وہ اکبر کے پاس لے گیا
اور کہا, "جہاں پناہ، حاضر ہے رات کا سورج!"
اکبر نے حیران ہو کر
پوچھا, "یہ تو ایک شمع ہے بیربل!"
بیربل نے ادب سے جواب دیا,
"جی بالکل, حضور۔ یہ ہمارا چھوٹا سا سورج ہے۔ جیسے سورج ہمیں دن میں روشنی دیتا
ہے، یہ شمع ہمیں رات میں راستہ دکھاتی ہے۔ یہ ہمیں گرماتا ہے، اور اس کی لو بھی
سورج کی مانند ہی تیز ہے۔ ہم ہر رات اپنے گھروں میں ایسے ہی چھوٹے سورج روشن کرتے
ہیں۔"
اکبر شمع کی لو کو دیکھتے
ہوئے مسکرا دیے۔ "سچ کہا تم نے بیربل۔ یہ چھوٹا سورج بھی اتنا ہی کام کا ہے۔
تم نے ایک بار پھر اپنی عقل سے ایک مشکل بات کو آسان بنا دیا۔"
بے وقوف چور
شاہی باغ کے آم مشہور
تھے۔ ایک دن چوکیداروں نے ایک آدمی کو پکڑا جو آم کے درخت سے آم توڑ رہا تھا۔ اسے
دربار میں لایا گیا۔
بادشاہ اکبر غصے میں تھے۔
"تمہاری یہ جرات کہ تم شاہی باغ میں چوری کرو؟"
چور کانپ رہا ۔ بیربل
نے اسے دیکھا اور بادشاہ سے کہا, "جہاں پناہ، اجازت دیجیے، میں اس سے کچھ
پوچھوں۔"
بیربل نے چور سے پوچھا,
"تم نے آم کیسے توڑے؟ کیا تم درخت پر چڑھے؟"
چور نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا
نہیں حضور۔ میں درخت پر نہیں چڑھا۔ میں نے نیچے کھڑے ہو کر ہی آم توڑ لیے۔ میں نے
پتے بھی نہیں ہلائے۔"
یہ جواب سن کر بیربل
بادشاہ کی طرف مڑا اور بولا, "جہاں پناہ، اس شخص کو چور کی بجائے ماہر باغبان
ہونا چاہیے!"
سب حیران رہ گئے۔ اکبر نے
پوچھا, "یہ کیسے؟"
بیربل نے وضاحت کی,
"حضور، آم کے درخت کے پتے بہت نازک ہوتے ہیں۔ اگر پتے ہل جائیں تو دوسرے آم
گر کر خراب ہو سکتے ہیں۔ اس شخص نے بغیر پتے ہلائے آم توڑے، اس کا مطلب ہے کہ اسے
درختوں کا بہت علم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پھل کو کیسے احتیاط سے توڑنا ہے۔ یہ کام تو
ایک عام باغبان بھی نہیں کر سکتا۔ اس نے چوری ضرور کی ہے، لیکن اس کا ہنر قابل تعریف
ہے۔"
چور شرمسار ہو کر سر جھکا
کر کھڑا ۔
اکبر نے فیصلہ سنایا,
"تم نے چوری کی ہے، اس کی سزا تمہیں ملنی چاہیے۔ لیکن بیربل نے تمہاری صلاحیت
کو پہچان لیا ہے۔ اس لیے تمہیں سزا کے بجائے شاہی باغ میں باغبان کی نوکری دی جاتی
ہے، تاکہ تم اپنا ہنر صحیح جگہ استعمال کر سکو۔"
چور نے شکرگزاری سے سجدہ
کیا۔ بیربل کی دانشمندی نے ایک مجرم کو موقع دے کر اسے ایک مفید شہری بنا دیا۔
آخری سوال
ایک دن ایک نوجوان لڑکا
دربار میں آیا۔ اس نے بیربل سے سوال کیا, "حضرت بیربل، ہر کوئی کہتا ہے کہ آپ
بہت عقلمند ہیں۔ براہ کرم مجھے بتائیں، آپ کی یہ عقل آتی کہاں سے ہے؟ کیا یہ آپ کو
وراثت میں ملی ہے یا آپ نے کوئی خاص کتاب پڑھی ہے؟"
یہ سوال سن کر دربار میں
موجود سبھی لوگ خاموش ہو گئے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ بیربل اس کا جواب کیسے دیتا
ہے۔
بیربل نے نوجوان کو دیکھا
اور ایک پیاری سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اس نے جواب دیا, "میرے
بچے، عقل کسی کتاب یا وراثت سے نہیں آتی۔ عقل آتی ہے سوال پوچھنے سے۔ جیسے تم نے
ابھی مجھ سے سوال پوچھا۔"
لڑکا حیران ہوا,
"صرف سوال پوچھنے سے؟"
"جی
ہاں," بیربل نے نرمی سے کہا۔ "ہر سوال تمہیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب
تم سوچتے ہو تو تمہارا دماغ کام کرتا ہے۔ تم جواب ڈھونڈتے ہو، مختلف راستے آزماتے
ہو۔ کبھی تمہیں جواب مل جاتا ہے، کبھی نہیں ملتا، لیکن ہر بار تم کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے
ہو۔ یہی سیکھنا ہی عقل ہے۔ جو آدمی سوال پوچھتا ہے، وہ کبھی بے وقوف نہیں رہ سکتا۔
کیونکہ وہ ہمیشہ سیکھنے کی راہ پر چل رہا ہوتا ہے۔"
یہ سن کر نہ صرف وہ
نوجوان لڑکا، بلکہ دربار میں موجود تمام بچوں کے چہرے روشن ہو گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے
سوال پوچھنے شروع کر دیے۔ "کیوں آسمان نیلا ہے؟" "پانی کیوں بہتا
ہے؟" "پرندے کیسے اڑتے ہیں؟"
بیربل نے اکبر کی طرف دیکھا
اور مسکرایا۔ اکبر نے سر ہلا کر اس کی عقل کو سلام کیا۔ اس ایک جواب نے تمام بچوں
کے اندر جاننے کی اتنی بڑی بھٹی روشن کر دی تھی کہ اب وہ کبھی بجھنے والی نہ تھی۔
0 Comments
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔