مصافحے سے منافقت تک: کیا مسلم رہنما سفارت کاری کے لیے اسلام سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟
Saturday, May 17, 2025
دانشمند کسان
ایک سرد صبح شاہی دربار
سجی ہوئی تھی۔ بادشاہ اکبر اپنے تخت پر براجمان تھے۔ انہوں نے تمام درباریوں کی
طرف دیکھا اور ایک سوال پوچھا: "بتاؤ، دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ کیا ہے؟"
یہ سنتے ہی دربار میں
گہما گہمی شروع ہو گئی۔ ایک وزیر نے کہا، "جہاں پناہ، سب سے قیمتی خزانہ تو ہیرے
ہیں، جو ہزاروں سال تک چمکتے رہتے ہیں۔" دوسرے نے کہا، "نہیں حضور، سونا
سب سے قیمتی ہے، اس سے سکے اور زیورات بنتے ہیں۔" تیسرے نے جواہرات کا نام لیا۔
ہر طرف قیمتی پتھروں اور دھاتوں کے نام گونج رہے تھے۔
جب سب کی باری گزر گئی تو
اکبر کی نظر بیربل پر پڑی، جو خاموشی سے مسکرا رہے تھے۔ "کیا خیال ہے تمہارا،
بیربل؟" بادشاہ نے پوچھا۔
بیربل نے اپنی جیب سے ایک
چھوٹا سا، معمولی سا بیج نکالا اور اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش
کیا۔ "جہاں پناہ، دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ یہ بیج ہے۔"
دربار میں ہلکی سی قہقہہ
بازی ہونے لگی۔ اکبر نے حیرت سے پوچھا، "یہ معمولی سا بیج؟ یہ ہیرے اور سونے
سے بھی زیادہ قیمتی کیسے ہو سکتا ہے؟"
بیربل نے وقار سے جواب دیا،
"بالکل، حضور۔ یہ بیج ظاہر میں تو چھوٹا ہے، لیکن اس کے اندر زندگی کا سارا
راز پوشیدہ ہے۔ اسے زمین میں بوئیے، یہ ایک تناور درخت بنے گا۔ یہ درخت ہزاروں ایسے
ہی بیج دے گا، پھل دے گا جو بھوکے کو کھانا دے گا، سایہ دے گا جو تھکے ہوئے مسافر
کو ٹھنڈک پہنچائے گا، اور لکڑی دے گا جو گھر بنانے کے کام آئے گی۔ ایک ہیرا صرف
خوبصورت لگتا ہے، لیکن یہ بیج پوری کی پوری زندگی کو سہارا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔"
یہ سن کر اکبر کے چہرے پر
مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے کہا، "سچ کہا تم نے بیربل۔ حقیقی خزانہ وہ ہے جو
زندگی دیتا ہے، نہ کہ وہ جو صرف دکھاوے کے لیے ہو۔ تمہاری عقل نے ایک بار پھر سب
کو سبق سکھا دیا۔"
دو ہم شکل
شہر میں ایک عجیب واقعہ پیش
آیا۔ دو آدمی ایسے آئے جو شکل و صورت، قدوقامت اور لباس تک میں ایک جیسے تھے، جیسے
ایک ہی شخص کے دو عکس ہوں۔ ان کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ان میں سے ایک اصلی
ہے اور دوسرا اس کا بھولا بھٹکا ہوا جڑواں بھائی، لیکن دونوں میں سے اصلی کون ہے، یہ
کوئی نہ پہچان سکا۔
معاملہ بادشاہ اکبر تک
پہنچا۔ انہوں نے دونوں کو دربار میں بلوا بھیجا۔ واقعی، دونوں کو دیکھ کر ایسا لگ
رہا تھا جیسے آئینے کے سامنے کھڑے ہوں۔ اکبر نے اپنے سبھی درباریوں سے پوچھا، لیکن
کوئی بھی فرق نہ بتا سکا۔
آخر کار اکبر نے بیربل کی
طرف دیکھا۔ "بیربل، تمہاری عقل کی آزمائش کا وقت آ گیا ہے۔ بتاؤ، ان دونوں میں
سے اصلی کون ہے؟"
بیربل نے دونوں کو غور سے
دیکھا۔ پھر وہ آگے بڑھا اور دونوں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک بہت ہی پیچیدہ
سوال پوچھا: "بتاؤ، اگر کسی درخت کے نیچے ایک بکری بندھی ہو اور اس کی رسی
درخت کے دوسری طرف سے ایک گدھے سے بندھی ہو، اور دونوں الگ الگ سمت
میں کھینچیں، تو درخت کے گرد رسی کے گھیراؤ کا دائرہ
کتنا ہوگا؟"
یہ سن کر ایک آدمی کا
چہرہ خالی ہو گیا، اس کی آنکھیں گھوم گئیں اور وہ خاموش کھڑا رہا۔ دوسرے آدمی کی
آنکھوں میں چمک آ گئی اور اس نے فوراً جواب دینا شروع کر دیا، "حضور، یہ تو
بہت آسان ہے، دیکھیے پہلے تو ہمیں درخت کے گھیراؤ کو ناپنا ہوگا..."
اس سے پہلے کہ وہ جواب
مکمل کرتا، بیربل نے اکبر کی طرف رخ کیا اور کہا، "جہاں پناہ، اصلی شخص یہ ہے
جو جواب دے رہا ہے۔"
اکبر نے پوچھا، "تمہیں
یقین کیسے ہوا؟"
بیربل مسکرایا،
"حضور، اصلی شخص کے پاس علم ہوتا ہے، تجربہ ہوتا ہے۔ وہ مشکل حالات میں
گھبراتا نہیں۔ جعلی شخص صرف ظاہری شکل بنا سکتا ہے، لیکن اصلی کی عقل اور علم کی
نقل نہیں کر سکتا۔ علم ہی وہ چابی ہے جو اصلی اور نقلی میں فرق کرتی ہے۔"
اکبر بیربل کی ذہانت پر
بہت خوش ہوئے اور اصلی شخص کو اس کا حق دلوا دیا۔
چاند کی کرن
ایک خوبصورت چاندنی رات
تھی۔ بادشاہ اکبر اپنے محلات کی کھڑکی سے چاند کو دیکھ رہے تھے۔ چاند کی چاندنی اس
قدر تھی کہ پورا باغ نہا گیا معلوم ہوتا تھا۔ اکبر نے ہاتھ باہر نکالا، ایسا محسوس
ہوا جیسے چاند کی نرم اور ٹھنڈی کرنیں ان کی ہتھیلی پر گر رہی ہوں۔
اگلے دن دربار میں انہوں
نے بیربل سے کہا، "بیربل، کل رات میں نے چاند کی ایک کرن اپنی ہتھیلی میں پکڑی
تھی، لیکن افسوس، وہ پھسل کر کہیں گم ہو گئی۔ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس گمشدہ چاند
کی کرن کو واپس لے کر آؤ۔"
یہ سن کر تمام درباری حیران
رہ گئے۔ یہ تو ناممکن کام تھا! بیربل نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر کہا، "جی
جہاں پناہ، میں کل اسے لے کر حاضر ہوتا ہوں۔"
اگلے دن، بیربل ایک چمکتی
ہوئی چاندی کی طشتری لے کر آیا۔ اس نے طشتری کو ریشمی کپڑے سے چمکایا ہوا تھا۔ وہ
بادشاہ کے سامنے گیا اور طشتری کو اس طرح پکڑا کہ اس پر سورج کی روشنی پڑ رہی تھی،
جس سے وہ چاند کی طرح چمک اٹھی۔
"جہاں
پناہ، آپ کی چاند کی کرن یہاں ہے۔ جب وہ آپ کے ہاتھ سے نکلی تو اس نے سیدھی اس
چاندی کی طشتری میں پناہ لے لی، کیونکہ یہ بھی چاند جیسی چمکدار ہے۔"
اکبر طشتری کی چمک دیکھ
کر ہنس پڑے۔ انہوں نے کہا، "بیربل، تم نے ناممکن کو ممکن بنا دکھایا! تم نے
چاند کی کرن نہ سہی، لیکن اس کی چمک ضرور واپس لا دی۔ تمہاری عقل واقعی قابل تعریف
ہے۔"
گونگے کی زبان
ایک دن دربار میں ایک شخص
آیا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ وہ بادشاہ کے
سامنے کھڑا ہوا اور زور زور سے ہاتھ ہلانے اور عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگا۔ وہ
گونگا تھا۔
درباریوں نے اسے سمجھنے کی
کوشش کی، لیکن کوئی بھی اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ وزیروں نے کہا، "حضور، یہ تو
پاگل لگتا ہے۔" دوسرے نے کہا, "شاید بھیک مانگ رہا ہے۔"
تب اکبر نے بیربل کو آواز
دی۔ بیربل نے اس شخص کو غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں درد اور بے چینی تھی۔ بیربل
نے ایک قلم اور کاغذ منگوایا اور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
گونگا شخص فوراً کاغذ پر
لکھنے لگا۔ اس نے لکھا: **"میرا نام رحمت ہے۔ کل رات میرے گاؤں میں آگ لگ گئی۔
میرا گھر اور کھیت سب جل کر راکھ ہو گئے ہیں۔ میری فیملی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں
ہے۔ براہ کرم مدد کیجیے۔"**
یہ پڑھ کر اکبر بہت دکھی
ہوئے۔ انہوں نے فوراً حکم دیا کہ اس شخص اور اس کے گاؤں والوں کو فوری مدد پہنچائی
جائے۔
پھر انہوں نے بیربل کی
طرف دیکھا اور کہا، "تم نے کیسے جانا کہ یہ لکھ سکتا ہے؟"
بیربل نے جواب دیا،
"جہاں پناہ، زبان نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دل اور دماغ بھی نہ ہوں۔ ہر کسی
کے پاس اپنی بات کہنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے۔ ہمیں صرف صبر سے سننا اور
سمجھنا آنا چاہیے۔"
جھوٹا انعام
بادشاہ اکبر ایک دن بہت
خوش مزاج تھے۔ انہوں نے ایک دلچسپ اعلان کیا: "سنو! آج میں ایک انعام دوں گا
اس شخص کو جو مجھے ایسی بات بتائے جس پر میں یقین نہ کر سکوں۔ یعنی وہ بات ایسی ہو
جو بالکل جھوٹی ہو۔"
یہ سن کر دربار میں ہلچل
مچ گئی۔ لوگ عجیب و غریب جھوٹ بولنے لگے۔ ایک نے کہا, "حضور، میرے گھر کی مرغی
نے ہاتھی کے بچے کو جنم دیا ہے!" دوسرے نے کہا, "نہیں حضور، میں کل
آسمان پر اڑتا ہوا آیا ہوں!"
اکبر ہنستے رہے اور ہر
جھوٹی بات پر کہتے, "ہو سکتا ہے! ہو سکتا ہے!" یعنی وہ بات ماننے سے
انکار نہیں کر رہے تھے۔
تب ایک چالاک آدمی آگے
بڑھا۔ اس نے کہا, "جہاں پناہ، میرے دادا نے آپ کے دادا کو ایک سونے کا سکہ
قرض دیا تھا۔ اب آپ وہ قرض واپس کیجیے۔"
یہ سن کر اکبر کی مسکراہٹ
غائب ہو گئی۔ یہ بات تو ممکن تھی! اگر یہ سچ ثابت ہو جاتی تو بادشاہی کا قرض چکانا
پڑتا۔ وہ حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں۔
اسی وقت بیربل آگے بڑھا۔
اس نے کہا, "جہاں پناہ، یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ اس کی بات ماننے کے قابل نہیں
ہے۔"
اکبر نے پوچھا, "تمہیں
کیسے پتا؟"
بیربل بولا, "کیونکہ
آپ کے دادا ایک عظیم بادشاہ تھے۔ انہیں کسی سے قرض لینے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی
ہوگی۔ لہٰذا یہ بات بالکل جھوٹی ہے۔ اور چونکہ یہ جھوٹی ہے، اس لیے اس شخص کو آپ
کا انعام ملنا چاہیے۔"
اکبر نے قہقہہ لگایا اور
فوراً اس شخص کو انعام دے دیا۔ بیربل نے اپنی عقل سے بادشاہ کو ایک مشکل صورت حال
سے بچا لیا تھا۔
0 Comments
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔