جن منگولوں نے اسلام کو مٹانا تھا، وہ اس کے محافظ کیسےبن گئے؟














 

تصور کیجیے ایک منظر وسیع و عریض یوریشیائی میدان، جہاں گھوڑوں کی ٹاپیں زمین کو روندتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ آسمان کو تاریک کرتی ہوئی تیروں کی بوچھاڑ۔ اور ایک ایسی فوج جو تباہی اور بربادی کی علامت بن چکی ہے۔ یہ ہیں منگول، جن کا نام سنتے ہی قرونِ وسطیٰ کی دنیا کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ چنگیز خان کی یہ اولاد، جس نے چین سے لے کر یورپ کے دروازوں تک اپنی حکمرانی کا جھنڈا گاڑ دیا تھا، ایک ایسی طاقت تھی جسے کوئی روک نہیں پا رہا تھا۔

 

مگر پھر ایک انقلابی موڑ آیا۔ وہی لوگ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ صرف جنگ و جدل اور خونریزی کے علمبردار ہیں، انہوں نے ایک نئے راستے کا انتخاب کیا۔ ان کی تلواروں پر لگی خون کی بو، تسبیح و تہلیل کی خوشبو میں بدلنے لگی۔ یہ تھا تاتاری منگولوں کے اسلام قبول کرنے کا عظیم الشان واقعہ، جو نہ صرف ان کی اپنی تاریخ بلکہ پوری اسلامی دنیا کے مستقبل پر گہرا اثر رکھتا تھا۔

 

یہ محض مذہب کی تبدیلی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک "تہذیبی انقلاب" تھا۔ یہ وہ دلچسپ داستان ہے جب فاتح، مفتوح ہوئے بغیر فتح ہو گئے۔ جب جنگی جنون نے روحانی سکون کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔

 

 طوفان سے پہلے کی خاموشی اسلام اور منگول، ابتدائی تصادم

منگولوں کا اسلام سے پہلا بڑا واسطہ تباہی اور بربادی کی صورت میں آیا۔ 1258ء میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے اس تاریخی سانحے کو جنم دیا جسے آج تک تاریخ میں دہرایا جاتا ہے۔ فتح بغداد اور خلافت عباسیہ کا خاتمہ۔

 

خلیفہ المعتصم باللہ کو قتل کر دیا گیا۔ شہر کے عظیم کتب خانے، جن میں دریائے دجلہ کی سیاہی سے بھی زیادہ قیمتی علم کے خزانے موجود تھے، دریا میں بہا دیے گئے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب تھا۔ اس وقت کوئی بھی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ یہی تباہ کن قوت، آنے والے دہائیوں میں اسلام کا سب سے بڑا محافظ اور علمبردار بن جائے گی۔

 

ہلاکو خان خود بدھ مت کا ماننے والا تھا اور اس کی فوج میں عیسائی نسطوری بھی شامل تھے۔ اسلام اس وقت ان کے لیے ایک سیاسی اور عسکری حریف کا مذہب تھا، جسے کچلنا ضروری تھا۔ مگر تاریخ کا ایک عجیب تضاد دیکھیے کہ ہلاکو خان کی اپنی فوج، اس کا اپنا خاندان، اور اس کی اولاد ہی آخرکار اسلام کی آغوش میں پناہ لینے والی تھی۔

 

 وہ اول شخص برکہ خان، اسلام کا پہلا منگول حکمران

 

اگر تاتاری منگولوں کے اسلام قبول کرنے کی کہانی کا کوئی ہیرو ہے تو وہ برکہ خان ہیں۔ وہ برکہ خان جو چنگیز خان کا پوتا اور ہلاکو خان کا چچا زاد بھائی تھا۔ اس کی کہانی اس بات کی زندہ مثال ہے کہ انسان کا دل کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتا ہے۔

برکہ خان "گولڈن ہارڈ" (Golden Horde) کا حکمران تھا، جس کا علاقہ آج کے روس اور یوکرین پر محیط تھا۔ اس کی اسلام سے دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟ روایات بتاتی ہیں کہ اس نے بخارا اور سمرقند کے مسلمان تاجروں اور علماء سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے اخلاق، ان کے عقیدے کی مضبوطی، اور ان کی علمی باتوں نے اس کے دل پر گہرا اثر ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے باقاعدہ طور پر بخارا کے ایک معروف عالم دین کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

 

برکہ خان کا قبولِ اسلام محض ایک ذاتی معاملہ نہیں تھا، بلکہ اس کے دوررس سیاسی و تہذیبی اثرات تھے:

 

1.   تہذیبی تبدیلی: برکہ خان نے اپنی سلطنت میں مساجد اور مدارس کی تعمیر کا حکم دیا۔ اسلامی سکے ڈھالے گئے۔ قوانین میں اسلامی اصولوں کو شامل کیا جانے لگا۔ اس نے ایک وحشی سمجھی جانے والی فوج کو ایک مہذب ریاست میں تبدیل کرنے کی بنیاد رکھی۔

2.   سیاسی اتحاد کا جنم: برکہ خان کا اسلام قبول کرنا اسے ہلاکو خان کا دشمن بنا دیا۔ ہلاکو خان، جس نے بغداد کو تباہ کیا تھا، وہ اب ایک مسلمان حکمران کا حریف تھا۔ برکہ خان نے مصر کی مملوک سلطنت، جو اسلام کا قلعہ تھی، کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔ یہ ایک حیران کن موڑ تھا: ایک منگول حکمران، مسلمانوں کی حفاظت کے لیے دوسرے منگول حکمران کے خلاف کھڑا ہو گیا۔

3.   ثقافتی پل: برکہ خان نے اسلام قبول کر کے منگول سلطنت اور اسلامی دنیا کے درمیان ایک ثقافتی پل تعمیر کر دیا۔ اس کے بعد سے تاتاری منگول مسلمانوں کے ساتھ صرف فاتح اور مفتوح کا رشتہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ ان کا ایک حصہ بن گئے۔

برکہ خان کی موت 1266ء میں ہوئی، لیکن اس نے ایک ایسی روایت قائم کر دی جس نے آنے والی صدیوں کو متاثر کیا۔

 

 گولڈن ہارڈ میں اسلام کا پھیلاؤ

 

برکہ خان کے بعد، گولڈن ہارڈ میں اسلام تیزی سے پھیلا۔ اس کی سب سے بڑی علامت اوز بیک خان تھا، جس نے 1313ء سے 1341ء تک حکومت کی۔ اوز بیک خان نے اسلام کو نہ صرف سرکاری مذہب بنایا، بلکہ اسے پوری سلطنت میں مضبوطی سے نافذ کیا۔

 

اس کے دور میں:

1.   سرکاری سطح پر اسلامی قوانین نافذ ہوئے۔

2.   علماء اور صوفیاء کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔

3.   شہروں میں عظیم الشان مساجد تعمیر ہوئیں، جن میں سے کئی کے کھنڈر آج بھی روس کے علاقوں میں موجود ہیں۔

4.    منگول اشرافیہ نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا، جس کا اثر عوام الناس تک پہنچا۔

 

اوز بیک خان کا دور گولڈن ہارڈ کا "سنہری دور" کہلاتا ہے، جہاں اسلام نے نہ صرف مذہب بلکہ ایک تہذیبی و ثقافتی نظام کے طور پر اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ اس سلطنت کے باشندے ہی آج کے ازبک، تاتار اور دیگر ترک اقوام کے آباء و اجداد ہیں۔

 

 ایل خانی سلطنت ہلاکو خان کی اولاد کا اسلام قبول کرنا

 

اگر گولڈن ہارڈ کے اسلام قبول کرنے  پر مغرب میں تبدیلی پیدا کی، تو ایل خانی سلطنت (جو ایران اور عراق پر قائم تھی) کے اسلام قبول کرنے پر مشرق کی تاریخ بدل دی۔ ہلاکو خان، جس نے بغداد کو ملیامیٹ کیا تھا، اس کی ہی اولاد نے آخرکار اسلام کی آغوش میں پناہ لی۔

 

اس تبدیلی کا ہیرو تھا محمود غازان خان (Mahmud Ghazan Khan)۔ غازان خان 1295ء میں تخت نشین ہوا۔ وہ ابتدا میں بدھ مت کمانے والا تھا، لیکن اس نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام محمود رکھا۔

 

غازان خان کا اسلام قبول کرنا ایک انتہائی حکمت عملی اور تاریخی فیصلہ تھا:

 

1.   ایل خانی سلطنت کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی۔ اسلام قبول کر کے غازان خان نے اپنے آپ کو مقامی آبادی کے قریب کر لیا اور اپنی حکومت کو جائز قرار دیا۔

2.   غازان خان نے وسیع پیمانے پر انتظامی اصلاحات نافذ کیں۔ اس نے زمین کی پیمائش کرائی، ٹیکس نظام کو منظم کیا، اور تجارت کو فروغ دیا۔ یہ سب کام اسلامی اصولوں کے مطابق کیے گئے۔

3.   اس نے دارالحکومت تبریز میں عظیم الشان عمارتیں بنوائیں، جن میں مساجد، مدرسے، رصدگاہیں اور ہسپتال شامل تھے۔ اس کے دور میں ایران میں اسلامی فن و ثقافت نے نئی زندگی پائی۔

 

غازان خان کے بعد، اس کا بھائی اولجیٹو بھی مسلمان ہوا۔ اولجیٹو نے شیعہ اسلام قبول کیا اور اس نے اپنے دارالحکومت سلطانیہ میں ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا، جو آج بھی ایران میں موجود ہے اور اسلامی فن تعمیر کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔اس طرح، ہلاکو خان کی اولاد نے اس تباہی کے ازالے کی کوشش کی جو ان کے بزرگوں نے اسلام کے مرکز پر کی تھی۔

 

 آخر تلوار کیوں تسبیح بنی؟

 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ایک جنگجو اور ظالم سمجھی جانے والی قوم نے اسلام جیسے پرامن مذہب کو قبول کیا؟ محض اتفاق نہیں، بلکہ اس کے پیچھے گہری وجوہات تھیں:

1.   منگول سلطنت نے چین سے یورپ تک تجارتی شاہراہوں (شاہراہ ریشم) کو محفوظ بنا دیا تھا۔ ان راستوں پر مسلمان تاجر، صوفی اور علماء کا گزرنا تھا۔ ان کے اخلاق، ان کی تجارتی دیانتداری، اور ان کی روحانی تعلیمات نے منگول اشرافیہ کو متاثر کیا۔

2.   صوفی بزرگ، خاص طور پر نقشبندی اور یسوی سلسلوں کے، منگول علاقوں میں پھیل گئے تھے۔ ان کی سادگی، محبت اور روحانیت نے منگولوں کے دلوں کو موہ لیا۔ وہ تلوار کے زور سے نہیں بلکہ محبت کے زور سے دلوں میں اتر گئے۔

3.   منگول ایک وسیع و عریض سلطنت پر حکومت کر رہے تھے جس کی اکثریت مسلمان تھی۔ انہیں انتظام چلانے کے لیے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگوں کی ضرورت تھی، جو مسلمانوں میں وافر تعداد میں موجود تھے۔ اسلام قبول کرنے سے انہوں نے مقامی بیوروکریسی کا اعتماد حاصل کر لیا۔

4.    جیسا کہ برکہ خان کے معاملے میں دیکھا، اسلام قبول کرنا ایک طاقتور سیاسی ہتھیار بھی تھا، جس نے دوسرے منگول گروہوں کے خلاف اتحاد بنانے میں مدد دی۔

 

 ایک نئی تہذیب کا عروج

 

تاتاری منگولوں کے اسلام قبول کرنے کے نتائج نہایت دوررس اور گہرے تھے:

 

1.   منگول اور ترک عناصر اسلامی عقائد و روایات میں ضم ہو گئے، جس سے ایک نئی، مضبوط اور منفرد تاتاری تہذیب نے جنم لیا۔ یہ تہذیب آج بھی روس، ازبکستان، تاتارستان اور دیگر خطوں میں زندہ ہے۔

2.   گولڈن ہارڈ کے مسلمان ہونے کے بعد، یورپ کی طرف سے اسلام کو کوئی بڑا خطرہ نہ رہا۔ بلکہ، انہی منگولوں نے بعد میں عثمانی سلطنت کے ساتھ مل کر یورپی مہم جوئیوں کا مقابلہ کیا۔

3.   مسلمان منگول حکمران علم و ادب کے سرپرست بنے۔ ان کے درباروں میں فارسی، عربی اور ترکی زبانوں میں شاعری، تاریخ نویسی اور سائنسی تحقیقات ہوتی تھیں۔ انہوں نے اسلامی علوم کو چین اور دور مشرق تک پہنچانے میں مدد دی۔

4.    گولڈن ہارڈ کے مسلمان ہونے کا روس کی تاریخ پر گہرا اثر پڑا۔ سینکڑوں سال کی حکومت نے روسی زبان، انتظامیہ اور ثقافت پر ترک-تاتاری اثرات چھوڑے۔ یہی وہ تاریخی تناؤ ہے جو آج بھی روس اور اس کے مسلمان خطوں کے تعلقات میں پایا جاتا ہے۔

 

 فتح کا حقیقی مفہوم

 

تاتاری منگولوں کے اسلام قبول کرنے کی کہانی ہمیں ایک گہرا سبق دیتی ہے: حقیقی فتح تلوار سے نہیں، بلکہ دل و دماغ سے ہوتی ہے۔ منگولوں نے بغداد کو فتح کر لیا تھا، مگر آخرکار اسلام نے منگولوں کے دلوں کو فتح کر لیا۔

 

یہ ایک ایسی داستان ہے جس میں طاقت کا زور، روحانیت کی نرمی کے آگے ہار گیا۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ کوئی قوم چاہے کتنی ہی جنگجو اور وحشی کیوں نہ سمجھی جاتی ہو، اس کے اندر تبدیلی اور روحانیت کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ 



0 Comments