بڑا ہی بدنصیب ہے وہ شخص جو ان اذکار کا معمول نہیں بناتا





 

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہدایت ہے جو رہتی دنیا تک کے لیے انسانیت کے لیے رحمت اور نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ہر سورت، ہر آیت، ہر لفظ اور ہر حرف میں انسانوں کے لیے عظیم الشان معانی اور برکات پنہاں ہیں۔ انہی میں سے سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات (آیت 285 اور 286) ہیں جن کے فضائل و برکات کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے متعدد احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ یہ آیات نہ صرف ایمان کے بنیادی ارکان کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ان کی تلاوت پر اللہ تعالیٰ نے بے پناہ اجروثواب رکھا ہے۔ اس مضمون میں ہم انہی دو آیات کی فضیلت، احادیث و تفاسیر کی روشنی میں ان کی اہمیت، ائمہ کرام کے نزدیک ان کا مقام اور ان میں نازل ہونے والے احکامات و تعلیمات پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔

 

سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات درج ذیل ہیں

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (286)

 

"رسول (ﷺ) ایمان لائے اس (کتاب) پر جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی اور مومنوں نے (بھی)، سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (اور کہا کہ) ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، اور انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور اطاعت کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور تیری ہی طرف (سب کو) پلٹ کر جانا ہے۔ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اس کے لیے وہی (ثواب) ہے جو اس نے کمایا اور اس پر وہی (عذاب) ہے جو اس نے کمایا۔ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمیں (اس پر) نہ پکڑ۔ اے ہمارے رب! اور ہم پر (وہ) بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب! اور ہم پر وہ (بوجھ) نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہم سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا مالک (اور کارساز) ہے، پس ہماری کافروں کی قوم پر مدد فرما۔"

 

نبی کریم ﷺ نے ان آیات کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث بیان فرمائی ہیں جو ان کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتی ہیں۔

 

حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات میں پڑھ لے تو وہ اس کے لیے کافی ہو جائیں گی۔"(

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ "کافی ہو جائیں گی" کے چند معانی ہیں: یا تو وہ اسے قیام اللیل کے بدلے کافی ہوں گی، یا اسے شرور و آفات سے محفوظ رکھیں گی، یا یہ دونوں آیات اسے رات بھر کی عبادت کے ثواب کے برابر ثواب دلائیں گی۔

 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جو سونے سے پہلے سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات کی تلاوت نہ کرے۔یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان آیات کی تلاوت سے محروم رہنے والا شخص ایک عظیم نعمت اور برکت سے محروم رہ جاتا ہے، اس لیے اسے "بدنصیب" قرار دیا گیا ہے۔

 

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "سورۃ البقرہ پڑھا کرو، کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا نقصان ہے، اور اسے جھٹلانے والا ناکام ہو جاتا ہے۔"پھر آپ ﷺ نے تین بار فرمایا"سورۃ البقرہ اور آل عمران قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو پرندوں کے جھنڈ ہوں جو اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گے۔

اگرچہ یہ حدیث پوری سورۃ البقرہ کے بارے میں ہے، لیکن اس کے آخر میں موجود یہ دو آیات بھی اس شفاعت میں شامل ہوں گی۔

 

امام ابن کثیر رحمہ اللہ

اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: "یہ دو آیات قرآن مجید کی عظیم آیات میں سے ہیں، جن میں ایمان کے ارکان، توحید، رسالت، آخرت پر ایمان کا بیان ہے، نیز اس میں امت محمدیہ پر اللہ کے احسان کا ذکر ہے کہ اس نے ان سے پہلی امتوں کے طرح سخت تکلیفیں اٹھانے کا بوجھ نہیں اٹھایا، نیز اس میں دعا کی تعلیم دی گئی ہے کہ بندہ اللہ سے معافی، درگزر، مغفرت اور رحمت طلب کرے۔

 

امام قرطبی رحمہ اللہ

اپنی تفسیر "الجامع لاحکام القرآن" میں لکھتے ہیں: "ان آیات میں ایمان کے تمام ارکان کا احاطہ کیا گیا ہے، نیز اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے آسانی فرمائی ہے اور ان پر سے پہلی امتوں والے بوجھ ہٹا دیے ہیں۔

 

امام غزالی رحمہ اللہ

اپنی کتاب "احیاء العلوم" میں ان آیات کو اذکار و دعوات میں شامل کیا ہے اور ان کی تلاوت کو شب بخیر کے لیے بہترین ذریعہ قرار دیا ہے۔

 

تفسیر طبری

امام طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "آیت 'لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا' اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، یہ اس کی رحمت اور عدل کی نشانی ہے۔"

 

تفسیر ابن عاشور

علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ "التحریر والتنویر" میں لکھتے ہیں: "یہ آیات درحقیقت سورۃ البقرہ کا خلاصہ ہیں، جن میں ایمان، عمل، اور دعا کے تمام پہلوؤں کو سمیٹ لیا گیا ہے۔

 

تفسیر روح المعانی

علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ان آیات میں جو دعا سکھائی گئی ہے، وہ انتہائی جامع ہے جس میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کا سوال ہے۔

 

ان آیات میں متعدد اہم احکامات اور تعلیمات پنہاں ہیں۔پہلی آیت میں ایمان کے چار بنیادی ارکان بیان کیے گئے ہیں:

1.   اللہ پر ایمان

2.   فرشتوں پر ایمان

3.   آسمانی کتابوں پر ایمان

4.    رسولوں پر ایمان

نیز یہ کہ تمام رسولوں کے درمیان تفریق نہ کی جائے، بلکہ سب پر یکساں ایمان لایا جائے۔

 

1.   مومنوں کا قول "سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا" درحقیقت اسلام کے بنیادی اصول کی عکاسی کرتا ہے کہ مومن کا کام سننا اور ماننا ہے، بحث و تکرار نہیں کرنا۔

2.   آیت "لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا" اللہ کے عدل کی واضح دلیل ہے کہ وہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

 

دوسری آیت میں ایک جامع دعا سکھائی گئی ہے جس میں درج ذیل امور شامل ہیں:

1.   بھول اور خطا میں معافی

2.   سابقہ امتوں جیسے بوجھ سے نجات

3.   طاقت سے زیادہ تکلیف سے حفاظت

4.    معافی اور بخشش

5.   رحمت

6.   نصرت و غلبہ

 

ان آیات کو سونے سے پہلے پڑھنے کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کے چند حکمت آمیز پہلو ہیں۔

 

1.   یہ آیات رات بھر انسان کو شیطان کے شر، برے خوابوں، اور دیگر آفات سے محفوظ رکھتی ہیں۔

2.   ان میں موجود ایمانی affirmations اور دعائیہ کلمات انسان کے دل و دماغ کو سکون و اطمینان بخشتے ہیں۔

3.   ان آیات کی برکت سے انسان تروتازہ اور نیا محسوس کرتے ہوئے بیدار ہوتا ہے۔

4.    تلاوت قرآن کا یہ عمل بندے کو اس کے رب کے قریب کر دیتا ہے۔

 

خلاصہ کلام یہ کہ سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات درحقیقت قرآن مجید کا ایک عظیم خزانہ ہیں جو ایمان، توکل، دعا اور اللہ کی رحمت کے ساتھ ساتھ راتوں کی عبادت کے ثواب کا ذریعہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ "وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جو سونے سے پہلے ان آیات کی تلاوت نہ کرے" درحقیقت ہمیں اس عظیم نعمت سے بہرہ ور ہونے کی ترغیب دیتا ہے جس سے محرومی واقعی بدنصیبی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان آیات کو اپنی روزمرہ کی عبادات کا حصہ بنائیں، خصوصاً سونے سے پہلے ان کی تلاوت کو لازم پکڑیں تاکہ ہم دنیا و آخرت کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرنے اور اس کی برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

0 Comments