مصافحے سے منافقت تک: کیا مسلم رہنما سفارت کاری کے لیے اسلام سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟
Saturday, May 17, 2025
پاکستان ایک ایسا ملک ہے
جہاں تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں، خاص طور پر طب کے شعبے میں۔ تاہم، حال ہی میں
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے ایک اجلاس میں یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان کے 50
سے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف تشویشناک
ہیں بلکہ ملک کے صحت کے نظام اور مستقبل کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث ہیں۔ اس آرٹیکل
میں ہم اس برین ڈرین کی بنیادی وجوہات،
پاکستان پر اس کے منفی اثرات، اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہتر حکمت عملیوں
اور حکومتی اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔
ڈاکٹروں کی بڑی تعداد میں
بیرون ملک ہجرت کی کئی پیچیدہ وجوہات ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1. پاکستان کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو اکثر
انتہائی ناموافق حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ عملے کی کمی، پرانے آلات، ناکافی
بنیادی ڈھانچہ، اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وسائل کا فقدان عام ہے۔ اس کے
علاوہ، مریضوں کا بہت زیادہ بوجھ اور ڈاکٹروں پر دباؤ بھی کام کے ماحول کو مشکل
بنا دیتا ہے۔
2. دیگر ممالک کے مقابلے میں، پاکستانی
ڈاکٹروں کی تنخواہیں اور مراعات بہت کم ہیں۔ ایک نوجوان ڈاکٹر جو کئی سال کی محنت
کے بعد تعلیم مکمل کرتا ہے، اسے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے خاطر خواہ
معاوضہ نہیں ملتا۔ بیرون ملک بہتر مالی مواقع انہیں اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
3. پاکستان میں ڈاکٹروں کے لیے تعلیمی اور
پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع محدود ہیں۔ اعلیٰ تعلیم، ریسرچ، اور جدید ٹیکنالوجی تک
رسائی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بیرون ملک ڈاکٹروں کو نئے کورسز، ریسرچ پراجیکٹس،
اور جدید علاج کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرنے کے وسیع مواقع ملتے ہیں۔
4. ملک میں سیاسی عدم استحکام، امن و امان کی
خراب صورتحال، اور بدعنوانی کا عمومی ماحول بھی تعلیم یافتہ افراد کو مایوس کرتا
ہے۔ ڈاکٹروں کو اکثر دھمکیوں، ہراساں کرنے، اور بعض اوقات تشدد کا بھی سامنا کرنا
پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
5. پاکستان
میں ڈاکٹروں پر بہت زیادہ سماجی دباؤ ہوتا ہے، اور بعض اوقات مریضوں یا ان کے
لواحقین کی طرف سے نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال ڈاکٹروں کے
حوصلے پست کرتی ہے اور انہیں ایک پرسکون اور محفوظ ماحول کی تلاش میں ملک چھوڑنے
پر مجبور کرتی ہے۔
6. بیرون ملک، خاص طور پر مغربی ممالک میں،
ڈاکٹروں کو نہ صرف بہتر مالی مواقع ملتے ہیں بلکہ انہیں اعلیٰ معیار زندگی، بہتر
تعلیمی نظام، صحت کی بہترین سہولیات، اور پرامن ماحول بھی میسر آتا ہے جو انہیں
اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے پرکشش لگتا ہے۔
ڈاکٹروں کی اس ہجرت کے
پاکستان پر کئی سنگین اور دور رس منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں:
1. ڈاکٹروں کی کمی صحت کے نظام پر شدید دباؤ
ڈالتی ہے۔ پہلے ہی سے کمزور صحت کی سہولیات مزید ابتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ خاص
طور پر دیہی علاقوں میں جہاں ڈاکٹروں کی پہلے ہی کمی ہے، یہ صورتحال مزید خراب ہو
جاتی ہے۔
2. تجربہ کار اور ماہر ڈاکٹروں کے چلے جانے سے
طبی علاج کے معیار میں کمی آتی ہے۔ نوجوان اور کم تجربہ کار ڈاکٹروں پر کام کا
بوجھ بڑھ جاتا ہے، جس سے غلطیوں کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
3. حکومت اور والدین کی جانب سے ڈاکٹروں کی
تعلیم پر کی جانے والی سرمایہ کاری رائیگاں چلی جاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر کو تیار کرنے
میں کئی سال اور لاکھوں روپے صرف ہوتے ہیں، اور جب وہ ملک چھوڑ دیتا ہے تو یہ تمام
وسائل ضائع ہو جاتے ہیں۔
4. ڈاکٹروں کی ہجرت سے ملکی معیشت پر بھی منفی
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صحت کا شعبہ ایک اہم اقتصادی ستون ہے، اور اس کی کمزوری پورے
ملک کی ترقی کو متاثر کرتی ہے۔
5. بیرون ملک ہجرت کرنے والے ڈاکٹروں کو دیکھ
کر نوجوان میڈیکل کے طلباء میں مایوسی پھیلتی ہے۔ وہ بھی بیرون ملک جانے کی منصوبہ
بندی شروع کر دیتے ہیں، جس سے یہ سلسلہ مزید تیزی پکڑتا ہے۔
6. لوگوں کا ملکی صحت کے نظام سے اعتماد اٹھ
جاتا ہے، اور جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ علاج کے لیے بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں،
جس سے قیمتی زرمبادلہ بھی ضائع ہوتا ہے۔
اس سنگین مسئلے سے نمٹنے
کے لیے حکومت کو جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ درج ذیل چند اہم حکمت
عملیوں پر غور کیا جا سکتا ہے:
1. ہسپتالوں میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا
جائے، جدید آلات فراہم کیے جائیں، اور ڈاکٹروں کے لیے ایک محفوظ اور صحت مند ورکنگ
ماحول یقینی بنایا جائے۔ عملے کی کمی کو پورا کیا جائے اور ہسپتالوں میں سیکورٹی
انتظامات کو بہتر بنایا جائے۔
2. ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں نمایاں اضافہ کیا
جائے جو ان کی تعلیم اور محنت کے مطابق ہو۔ اس کے علاوہ، انہیں ہاؤسنگ، ٹرانسپورٹ،
اور ہیلتھ انشورنس جیسی مراعات بھی فراہم کی جائیں۔
3. ڈاکٹروں کے لیے اعلیٰ تعلیم، ریسرچ، اور
سپیشلائزیشن کے مواقع بڑھائے جائیں۔ انہیں بین الاقوامی کانفرنسز اور ورکشاپس میں
شرکت کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے۔ نئے میڈیکل کالجز اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹس
قائم کیے جائیں۔
4. ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جائے
اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ
تعلیم یافتہ افراد میں ملک کے مستقبل پر اعتماد بحال ہو۔
5. ڈاکٹروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور
انہیں ہراساں کرنے یا تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ڈاکٹروں کے لیے ایک شکایت سیل قائم کیا جائے جہاں وہ اپنے مسائل پیش کر سکیں۔
6. جو ڈاکٹرز بیرون ملک کام کر رہے ہیں، انہیں
وطن واپسی کے لیے ترغیبات فراہم کی جائیں، جیسے کہ ٹیکس میں چھوٹ، اچھی تنخواہ،
اور حکومتی ہسپتالوں میں ترجیحی بنیادوں پر ملازمت۔
7. دیہی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو
اضافی مراعات، ہاؤسنگ، اور بہتر تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ وہاں خدمات
انجام دینے پر آمادہ ہوں۔
حکومت پاکستان کو اس
مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے فوری اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ درج ذیل
چند اہم نکات ہیں جن پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے:
1. ایک جامع طویل المدتی منصوبہ تیار کیا جائے
جو اگلے 10 سے 20 سالوں کے لیے ڈاکٹروں کی ہجرت کو روکنے اور انہیں ملک میں رہنے
پر قائل کرنے کے لیے ہو۔
2. صحت کے شعبے کے لیے مختص بجٹ میں نمایاں
اضافہ کیا جائے تاکہ ہسپتالوں کی حالت بہتر بنائی جا سکے اور ڈاکٹروں کو مناسب
سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
3. ڈاکٹروں کی تنظیموں اور نمائندوں سے
باقاعدگی سے مشاورت کی جائے تاکہ ان کے مسائل کو سمجھا جا سکے اور ان کے حل کے لیے
ان کی تجاویز کو شامل کیا جا سکے۔
4. نجی شعبے کو صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری
کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور ڈاکٹروں کو
زیادہ ملازمتیں میسر آ سکیں۔
5. میڈیکل ریسرچ اور ترقی پر خصوصی توجہ دی
جائے تاکہ پاکستان بھی طبی دنیا میں اپنا مقام بنا سکے اور ڈاکٹروں کو جدید علم تک
رسائی حاصل ہو۔
6. میڈیکل ایجوکیشن کے نظام میں اصلاحات لائی
جائیں تاکہ ڈاکٹروں کی تعلیم کا معیار بلند ہو اور انہیں بین الاقوامی سطح پر
تسلیم کیا جا سکے۔
ڈاکٹروں کی بڑی تعداد میں
بیرون ملک ہجرت پاکستان کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے، جس کے صحت، معیشت، اور سماج پر
گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت، صحت کے
اداروں، اور معاشرے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگر فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے
تو پاکستان کا صحت کا نظام مزید کمزور ہو جائے گا، جس کا خمیازہ پوری قوم کو
بھگتنا پڑے گا۔ ڈاکٹروں کو بہتر ماحول، مناسب معاوضہ، اور ترقی کے مواقع فراہم کر
کے ہی ہم انہیں اپنے ملک میں روک سکتے ہیں اور اپنے صحت کے نظام کو مضبوط بنا سکتے
ہیں۔ پاکستان کو اپنے "برین ڈرین" کو "برین گین" میں بدلنے کے
لیے عملی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
0 Comments
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔