مصافحے سے منافقت تک: کیا مسلم رہنما سفارت کاری کے لیے اسلام سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟
Saturday, May 17, 2025
دعا بندے کا اپنے رب سے
رشتہ ہے، وہ تعلق جو انسان کو زمین سے اٹھا کر عرش الہیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ قرآن
مجید میں فرمایا گیا: "ادْعُونِي
أَسْتَجِبْ لَكُمْ"
(مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا)۔ احادیث میں نبی کریم ﷺ
نے دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا۔ مگر افسوس! آج کا مسلمان دعا جیسے طاقتور عمل سے
غافل اور سستی کا شکار ہے۔
ہم دن رات دنیاوی
مصروفیات میں الجھے رہتے ہیں لیکن رب سے اپنا تعلق جو ہمیں تقویت دے سکتا ہے، اسی
سے دور ہو چکے ہیں۔ دعا صرف ایک حاجت کی فہرست نہیں بلکہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی
بندگی، کمزوری اور محتاجی کا اظہار ہے۔ اس مضمون میں ہم دعا سے سستی کی وجوہات، نقصانات
اور اس سے نجات کے عملی طریقے بیان کریں گے۔
دعا لغوی طور پر "پکارنے" کو
کہتے ہیں، جبکہ اصطلاحی طور پر یہ اللہ تعالیٰ سے اپنے دل کی بات کہنا، اس سے
مانگنا، اس کی قربت چاہنا اور اپنی عاجزی کو ظاہر کرنا ہے۔
دعا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "الدُّعَاءُ مُخُّ
الْعِبَادَةِ"
یعنی "دعا عبادت کا مغز ہے"۔
سوچیں! جس رب کے خزانے
لامحدود ہیں، جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، جو خود کہتا ہے کہ
مانگو میں دوں گا، اُس کے سامنے ہاتھ نہ اٹھانا کتنی بڑی محرومی ہے!
اکثر لوگ کہتے ہیں:
کمزور
ایمان "جب
دل میں اللہ پر یقین کمزور ہو جاتا ہے تو بندہ دعا کو اہم نہیں سمجھتا"۔
دنیا
داری اور غفلت "دنیا کی رنگینیاں انسان
کو اس قدر مشغول کر دیتی ہیں کہ اسے دعا یاد ہی نہیں رہتی"۔
گناہوں
کا بوجھ "مسلسل گناہ دل کو سیاہ کر دیتے ہیں،
جس کی وجہ سے دعا کا ذوق ختم ہو جاتا ہے"۔
دعا
کی قبولیت میں جلد بازی "اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ
دعا فوری قبول ہو، اور جب ایسا نہ ہو تو مایوس ہو کر چھوڑ دیتے ہیں۔"
دعا
کو آخری حل سمجھنا "کچھ لوگ صرف تدابیر پر
بھروسہ کرتے ہیں اور دعا کو آخری آپشن سمجھتے ہیں۔"
شیطانی
وسوسے "شیطان انسان کو دعا سے غافل کرنے کے
لیے وسوسے ڈالتا ہے: "کیا فائدہ؟ سنی تو نہیں جائے گی"۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: "ادْعُونِي
أَسْتَجِبْ لَكُمْ"
مجھے پکارو، میں
قبول کروں گا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب بندہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ کو شرم آتی
ہے کہ خالی واپس لوٹا دے"۔
ایک اورمقام پر آپ ﷺ نے کچھ یوں ارشاد
فرمایا "دعا مومن کا ہتھیار ہے"۔
یعنی دعا ایک ایسا عمل ہے جو دشمن کے خلاف، مشکلات کے
وقت اور روحانی ترقی کے لیے بنیادی ہتھیار ہے۔
صحابہ کرامؓ اور بزرگان
دینؒ دعا کو اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھتے تھے:
v
حضرت
عمرؓ فرماتے: "مجھے اس کی فکر نہیں کہ دعا قبول ہوتی ہے
یا نہیں، مجھے تو اس بات کی فکر ہے کہ میں دعا مانگتا ہوں یا نہیں۔"
v
حضرت
علیؓ رات کی تنہائی میں روتے، دعا کرتے، اللہ کے حضور گڑگڑاتے۔
v
امام
حسن بصریؒ فرماتے: "جب
دعا مانگو تو ایسے مانگو جیسے ڈوبا ہوا انسان آخری سانس میں مدد مانگتا ہے۔"
v اللہ
سے تعلق میں کمزوری
v دل
کا سخت ہو جانا
v روحانیت
کا زوال
v زندگی
میں بے برکتی
v ذہنی
بے سکونی
v مایوسی
اور نا امیدی کا شکار ہونا
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ بندے کی دعا
کا جواب تین طریقوں سے دیتا ہے:"
v جو مانگا، وہ فوراً دے دیا
v کسی مصیبت کو ٹال دیا
v آخرت کے لیے ذخیرہ کر دیا
لہٰذا اگر ہمیں بظاہر
جواب نہ ملے، تب بھی مایوس نہ ہوں۔ اللہ حکمت والا ہے، وہ جانتا ہے کیا، کب اور
کیسے دینا ہے۔
ایمان کو تازہ کریں "اللہ
کی صفات، نعمتوں اور قدرت کو یاد کر کے دل میں یقین کو پختہ کریں۔"
مسنون دعاؤں سے آغاز کریں "چھوٹی
چھوٹی سنت دعاؤں کو زندگی میں شامل کریں۔"
دعا کے لیے مستقل وقت مقرر کریں "صبح
و شام، نماز کے بعد یا رات کو سونے سے پہلے دعا کا وقت طے کریں۔
اللہ کی محبت پیدا کریں"اللہ
سے تعلق محبت کی بنیاد پر قائم کریں۔
نیت درست کریں "دعا
کو محض مانگنے نہیں، عبادت سمجھ کر کریں۔
دعا کو ترجیح بنائیں "ہر
کام سے پہلے اور بعد میں دعا کو اپنی ترجیح بنائیں۔
v روزانہ دعا کی ڈائری بنائیں
v صبح اور سونے سے قبل دعا کا وقت مخصوص کریں
v گھروالوں، خاص طور پر بچوں کو دعا سکھائیں
v دعا میں دل، زبان اور آنکھوں کی شرکت ہو
v دعا کو روح کی غذا سمجھیں
آج انسان موبائل، سوشل
میڈیا، ویڈیوز اور گیمز میں اس قدر مشغول ہو چکا ہے کہ وہ اپنے خالق سے رابطہ بھول
گیا ہے۔ہم سکون کی تلاش میں سکرینوں کو گھورتے ہیں، جبکہ سکون تو صرف رب کے ذکر
اور دعا میں ہے۔
"أَلَا
بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"یاد رکھو! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر
میں ہے
دعا صرف الفاظ کا مجموعہ
نہیں بلکہ بندگی کا اظہار ہے۔ دعا ہماری روح کی غذا ہے، اللہ سے رابطہ ہے، بندے کی
سب سے بڑی طاقت ہے۔اگر ہم دعا میں سستی کریں گے تو دراصل ہم اپنی ہی زندگی سے
برکت، سکون اور رہنمائی کو دور کر رہے ہیں۔
آئیے! آج سے عزم کریں کہ:
v ہم دعا کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں
گے
v اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں گے
v ہر حال میں اپنے رب کو پکاریں گے
یقین جانیے! اللہ بہت
قریب ہے... بس دل سے پکارنے کی دیر ہے۔
1 Comments
اس لیے کہ ہم پورے یقین سے اللہ سے نہیں مانگتے۔ اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی
ReplyDeleteبراہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔