آج کا دور جدیدیت اور
مغربی تہذیب کے غلبے کا دور ہے، جہاں مسلم ممالک بھی اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی
تعلقات کے نام پر مغربی اقدار کو بے دریغ اپنا رہے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب
امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں کاروباری سرمایہ کاری، ثقافتی تبدیلیوں اور مغربی
طرز زندگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ اسلام کے
احکامات اور تعلیمات کے مطابق ہے؟ کیا مسلم حکمران اور عوام اسلامی اقدار کو مغربی
مفادات پر قربان کر رہے ہیں؟ خاص طور پر جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مغربی
رہنماوں کا استقبال رقص و سرود، عورتوں کی نمائش اور غیر محرم سے مصافحہ جیسے
اقدامات سے کیا جاتا ہے، تو یہ مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
یہود و نصاریٰ مسلمانوں سے کیا چاہتے ہیں؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق،
یہود و نصاریٰ (یہودی اور عیسائی) مسلمانوں کے دشمن نہیں تو کم از کم حریف ضرور ہیں۔
قرآن و حدیث میں ان کے عزائم، چالوں اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے رویے کو واضح طور
پر بیان کیا گیا ہے۔ آج کے دور میں جب کہ مسلم ممالک مغربی طاقتوں کے ساتھ گہرے
تعلقات استوار کر رہے ہیں، یہ جاننا ضروری ہے کہ یہود و نصاریٰ کا اصل مقصد کیا
ہے؟ کیا وہ مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہیں یا پھر انہیں کمزور کرکے اپنا
غلام بنانا چاہتے ہیں؟
یہود و نصاریٰ چاہتے ہیں کہ
مسلمان اپنے دین سے پھر جائیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ
نے واضح فرمایا ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں: "یہود و نصاریٰ ہرگز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان
کے ملت (مذہب) کی پیروی نہ کر لو۔" (البقرہ: 120)
یہ آیت بتاتی ہے کہ یہود
و نصاریٰ کی خواہش یہی ہے کہ مسلمان اپنا دین چھوڑ کر یا تو یہودیت اختیار کر لیں یا
عیسائیت۔ آج کل یہی کوشش "مذہبی ہم آہنگی" یا "بین المذاہب
مکالمہ" کے نام پر کی جا رہی ہے، جس کا مقصد درحقیقت مسلمانوں کو اسلام سے
دور کرنا ہے۔
یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو اپنا پیروکار بنانا چاہتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تم ضرور یہود
و نصاریٰ کی روشوں کی پیروی کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوں
گے تو تم بھی ان کے پیچھے چلے جاؤ گے۔" (صحیح بخاری)
یہ حدیث اس بات کی طرف
اشارہ کرتی ہے کہ یہود و نصاریٰ کی خواہش ہے کہ مسلمان ان کے طریقوں کو اپنائیں،
ان کی تہذیب کو فالو کریں اور آخرکار ان کے مذہبی و ثقافتی غلام بن جائیں۔ آج ہم دیکھ
رہے ہیں کہ مسلم نوجوان مغربی کلچر، فیشن، موسیقی اور لائف اسٹائل کو اپنا رہے ہیں،
جو درحقیقت یہود و نصاریٰ کی اسی چال کا نتیجہ ہے۔
یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ
نے فرمایا: "اے ایمان
والو! اگر تم نے ان (یہود و نصاریٰ) میں سے کسی گروہ کی بات مان لی تو وہ تمہیں ایمان
کے بعد پھر کافر بنا دیں گے۔ اور تمہارے رب کی طرف سے جو لعنت اور غضب نازل ہوا
ہے، اس میں یہود و نصاریٰ بھی شامل ہیں، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں
اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں، اور اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں اور حد سے
تجاوز کرتے ہیں۔" (البقرہ: 65-66)
یہود و نصاریٰ کی ایک بڑی
چال مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کرنا ہے۔ وہ فرقہ واریت، نسلی تعصبات اور سیاسی
اختلافات کو ہوا دے کر مسلمانوں کو کمزور کرتے ہیں۔ آج مسلم ممالک کے درمیان
اختلافات، جنگوں اور دہشت گردی کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں یہود و نصاریٰ کا ہاتھ
ہے۔
یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے معاشی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ
نے یہود کی ایک خبیث صفت بیان فرمائی: "تم دیکھو گے
کہ یہود لوگوں میں سے سب سے زیادہ مال و دولت کے حریص ہیں۔" (البقرہ:
96)
آج یہود و نصاریٰ مسلم
ممالک کے تیل، گیس، معدنیات اور دیگر وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ مسلم حکمرانوں کو اربوں ڈالر کے لالچ دے کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں مغربی کمپنیوں کی بھرمار اس
بات کی واضح مثال ہے۔
یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو فوجی اور سیاسی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "قریب ہے کہ امتوں کی ایک بڑی جماعت تم پر حملہ آور ہو، جیسے
کہ ایک بھوکا شخص کھانے کی طرف جھپٹتا ہے۔" (سنن ابو داؤد)
یہ حدیث آج کے دور میں
بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے۔ یہود و نصاریٰ مسلم ممالک پر فوجی حملے کرتے ہیں (جیسے
عراق، شام، افغانستان، پاکستان اور انڈیا، ایران اور امریکہ، یمن و اسرائیل)، انہیں
سیاسی طور پر تقسیم کرتے ہیں (جیسے فلسطین، کشمیر) اور ان کے خلاف پروپیگنڈا کرکے
دنیا بھر میں انہیں دہشت گرد ثابت کرتے ہیں۔
یہود و نصاریٰ مسلم خواتین کو بے پردہ کرنا چاہتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ
نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا، لیکن یہود و نصاریٰ چاہتے ہیں کہ مسلم خواتین بے
حجاب ہو جائیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "دو قسم کے
لوگ جہنمی ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا: ایک وہ عورتیں جو برہنہ ہو کر چلیں
گی... اور دوسرے وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں گائے کی دم جیسی کوڑے ہوں گے جن سے وہ
لوگوں کو ماریں گے۔" (صحیح مسلم)
"اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی
شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو۔"
(النور: 31)
آج کل یہود و نصاریٰ
"عورتوں کی آزادی" کے نام پر مسلم
خواتین کو بے پردہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ میڈیا، فلموں اور فیشن انڈسٹری کے
ذریعے مسلم معاشروں میں بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں۔
آج کل خلیجی ممالک سمیت کئی مسلم معاشروں میں
"ترقی" کے نام پر لبرل رجحانات تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ
مغربی ممالک کا معاشی اور ثقافتی دباؤ ہے۔ لیکن مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے
کہ حقیقی ترقی اپنی ثقافتی و دینی روایات کو ترک کر کے نہیں، بلکہ انہیں مضبوطی سے
تھام کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلم امہ نے اپنی اسلامی
شناخت کو برقرار رکھا، وہ دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرتی رہی۔ لہٰذا، موجودہ دور
کے چیلنجز کے باوجود مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دینی اصولوں پر ڈٹے رہیں اور
مغربی تہذیب کے بے جا اثرات سے خود کو محفوظ رکھیں۔
مسلمانوں کو چوکنا رہنا چاہیے ۔
یہود و نصاریٰ کی تمام تر
کوششیں مسلمانوں کو دین، تہذیب، معیشت اور سیاست کے میدان میں کمزور کرنے کی ہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی چالوں کو سمجھیں اور اپنی
نسلوں کو ان کے اثرات سے بچائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور کافر چاہتے ہیں کہ تم غافل ہو جاؤ تاکہ وہ تم پر حملہ
کر سکیں۔" (النساء: 71)
کیا آج مسلم
حکمران مغرب کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو اسلامی اقدار پر ترجیح دے رہے ہیں؟
ٹرمپ کا دورہ عرب: ایک
جائزہ
جب ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب
اور دیگر عرب ممالک کے دورے پر آئے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ رقص و موسیقی
کے پروگرامز منعقد ہوئے، عورتوں نے غیر محرم مردوں کے سامنے بے پردگی کی صورت میں
شرکت کی، اور اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے گئے۔ لیکن کیا یہ سب کچھ اسلام کے احکامات
کے مطابق تھا؟
ٹرمپ جیسے رہنما، جو
مسلمانوں کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں، جنہوں نے مسلم ممالک پر پابندیاں لگائیں،
فلسطین کے خلاف فیصلے کیے، کیا ان کے ساتھ دوستی اور اتنی قربتیں اسلام کے اصولوں
کے مطابق ہیں؟
غیر محرم سے مصافحہ: شرعی حکم
نبی کریم ﷺ نے غیر محرم
عورتوں سے ہاتھ ملانے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر تمہارے سر میں لوہے کی کیل چبھوائی جائے تو یہ تمہارے لیے کسی اجنبی
عورت کو ہاتھ لگانے سے بہتر ہے۔" (السنن الکبری
للبیہقی)
لیکن آج کل مغربی رہنماؤں
کے استقبال میں خواتین کو آگے کیا جاتا ہے اور وہ بے تکلفی سے غیر محرم مردوں سے
ہاتھ ملاتی ہیں۔ یہ واضح طور پر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
رقص
و سرود پر استقبال: اسلام کی نظر میں
موسیقی اور رقص اسلام میں
مذموم ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میری امت میں سے کچھ لوگ شراب کو حلال کر لیں گے جسے وہ دوسرے
ناموں سے پکاریں گے، ان کے سروں پر گانے والیاں گائیں گی اور موسیقی بجائی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں بندر اور خنزیر بنا دے گا۔"
(ابن ماجہ)
لیکن افسوس کہ آج مسلم
ممالک میں مغربی رہنماؤں کے اعزاز میں رقص و موسیقی کے پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں،
جس میں عورتیں بھی شریک ہوتی ہیں۔ کیا یہ اسلام کے واضح احکامات کی خلاف ورزی نہیں؟
اربوں
ڈالرز کی سرمایہ کاری: کیا مقصد؟
خلیجی ممالک میں مغربی
کمپنیوں اور سیاستدانوں کو اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی جاتی ہے۔ لیکن
سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیسہ مسلمانوں کے مفاد میں استعمال ہو رہا ہے یا پھر مغربی
طاقتوں کے مفادات کو مضبوط کرنے کے لیے؟ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو
غیر مسلموں کے ساتھ دوستی میں حد سے گزرنے سے منع فرمایا ہے:
"اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک
دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقیناً انہیں میں سے
ہے۔" (المائدہ: 51)
مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ
اپنے دین کے اصولوں پر غور کریں۔ اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات ضروری ہیں،
لیکن کیا یہ اسلام کی قربانی پر حاصل کرنا چاہیے؟ کیا ہم اپنی عورتوں کی بے پردگی،
غیر محرم سے اختلاط، رقص و موسیقی جیسی حرام چیزوں کے ذریعے مغرب کو خوش کر کے جنت
میں جانے کا سوچتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر
مسلمان اپنے دین پر عمل کریں، تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی عزت دے گا۔ لیکن
اگر ہم مغرب کی تقلید میں اپنی اسلامی پہچان کھو دیں گے، تو پھر ہمارا کوئی مقام
نہیں ہوگا۔ "اور تم اللہ کی مضبوط رسی کو مل کر تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔"
(آل عمران: 103)
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام
پر مضبوطی سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
ہمیں اپنے ایمان اور اسلامی اقدار پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے
اور یہود و نصاریٰ کی چالوں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین پر ثابت قدمی عطا
فرمائے۔ آمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔