ہیکل سلیمانی، جسے انگریزی
میں "Temple of Solomon" یا "Solomon's Temple" کہا
جاتا ہے، یہودی مذہب اور تاریخ میں ایک انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ ہیکل قدیم یروشلم
میں واقع تھا اور اسے بادشاہ سلیمان نے تعمیر کیا تھا۔ ہیکل سلیمانی نہ صرف یہودیوں
کے لیے ایک مذہبی مرکز تھا بلکہ یہ ان کی قومی شناخت اور روحانی مرکز کا بھی نشان
تھا۔ اس مضمون میں ہم ہیکل سلیمانی کی تاریخ، تعمیر، اہمیت، اور اس کے زوال کے
بارے میں تفصیل سے جانیں گے۔
ہیکل سلیمانی کی تاریخ
تقریباً 3000 سال پرانی ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز بادشاہ سلیمان کے دور میں ہوا، جو
حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ہیکل کی تعمیر کا
ارادہ کیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ یہ کام ان کے بیٹے سلیمان کے
ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔
بادشاہ سلیمان نے ہیکل کی
تعمیر 966 قبل مسیح میں شروع کی اور اسے تقریباً سات سال میں مکمل کیا۔ ہیکل کی
تعمیر کے لیے لبنان کے جنگلات سے قیمتی لکڑی اور پتھر استعمال کیا گیا۔ ہیکل کی
تعمیر میں ہزاروں مزدوروں، کاریگروں، اور ماہرین نے حصہ لیا۔
ہیکل سلیمانی کی تعمیر
انتہائی شاندار اور عظیم الشان تھی۔ یہ ہیکل ایک مستطیل نما عمارت تھی جس کی لمبائی
60 ہاتھ (تقریباً 27 میٹر)، چوڑائی 20 ہاتھ (تقریباً 9 میٹر)، اور اونچائی 30 ہاتھ
(تقریباً 13.5 میٹر) تھی۔ ہیکل کی دیواریں پتھر کی بنی ہوئی تھیں اور اس کی چھت
لبنان کے دیودار کے درختوں کی لکڑی سے بنائی گئی تھی۔
ہیکل کے اندرونی حصے کو تین
حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
1 حیاط
عام: یہ ہیکل کا بیرونی حصہ تھا جہاں عام لوگ
عبادت کرتے تھے۔
2 مقدس
مقام: یہ ہیکل کا درمیانی حصہ تھا جہاں کاہن
عبادت کرتے تھے۔
3قدس
الاقداس: یہ ہیکل کا سب سے مقدس حصہ تھا جہاں صرف
اعلیٰ کاہن سال میں ایک بار داخل ہو سکتا تھا۔ اس جگہ پر تابوت سکینہ رکھا گیا
تھا، جو یہودیوں کے لیے انتہائی مقدس تھا۔
ہیکل کی دیواروں کو سونے
کے ورق سے ڈھانپا گیا تھا اور اس کے اندرونی حصے میں قیمتی پتھروں اور زیورات سے
سجاوٹ کی گئی تھی۔ ہیکل کے دروازے اور کھڑکیاں بھی سونے سے بنائی گئی تھیں۔
ہیکل سلیمانی یہودیوں کے
لیے نہ صرف ایک عبادت گاہ تھا بلکہ یہ ان کی مذہبی اور قومی شناخت کا بھی مرکز
تھا۔ ہیکل کو یہودیوں کا روحانی مرکز سمجھا جاتا تھا اور یہاں پر اللہ تعالیٰ کی
عبادت کی جاتی تھی۔ ہیکل میں تابوت سکینہ رکھا گیا تھا، جسے یہودیوں کے لیے انتہائی
مقدس سمجھا جاتا تھا۔
ہیکل سلیمانی یہودیوں کے
لیے ایک علامت تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے اور انہیں اپنا برگزیدہ قوم قرار
دیا ہے۔ ہیکل کی تعمیر نے یہودیوں کو ایک مرکز فراہم کیا جہاں وہ اپنے مذہبی
رسومات ادا کر سکتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر سکتے تھے۔
ہیکل سلیمانی کی عظمت اور
شاندار تعمیر کے باوجود، اس کا زوال ناگزیر تھا۔ 586 قبل مسیح میں بابلی بادشاہ
نبوکد نضر دوم نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکل کو تباہ کر دیا۔ ہیکل کی تباہی کے
ساتھ ہی تابوت سکینہ بھی غائب ہو گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے بابلی
فوجیوں نے لوٹ لیا تھا۔
ہیکل کی تباہی یہودیوں کے
لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے اپنا روحانی مرکز کھو دیا اور انہیں بابل میں
جلاوطن کر دیا گیا۔ یہودیوں کی جلاوطنی کا دور تقریباً 70 سال تک جاری رہا، جس کے
بعد انہیں فارس کے بادشاہ سائرس اعظم نے واپس آنے کی اجازت دی۔
دوسرا ہیکل
جلاوطنی کے بعد یہودیوں
نے یروشلم واپس آ کر دوسرے ہیکل کی تعمیر شروع کی۔ دوسرے ہیکل کی تعمیر 516 قبل مسیح
میں مکمل ہوئی۔ دوسرا ہیکل پہلے ہیکل کی نسبت کم شاندار تھا، لیکن یہ یہودیوں کے لیے
ایک بار پھر روحانی مرکز بن گیا۔
دوسرے ہیکل کو بھی مختلف
حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 70 عیسوی میں رومی فوجوں نے یروشلم پر حملہ کیا اور
دوسرے ہیکل کو تباہ کر دیا۔ دوسرے ہیکل کی تباہی کے بعد یہودیوں کی مذہبی زندگی میں
ایک بار پھر بڑا خلاء پیدا ہو گیا۔
ہیکل سلیمانی کی موجودہ حیثیت
آج ہیکل سلیمانی کی جگہ
پر یروشلم میں مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ یہ دونوں اسلامی مقدس مقامات ہیں
اور مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہیکل سلیمانی کی تباہی کے بعد سے یہودی
ہیکل کی تعمیر نو کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں، لیکن یہ مقصد ابھی تک حاصل نہیں ہو
سکا۔
ہیکل سلیمانی نہ صرف یہودیوں
کے لیے اہم ہے بلکہ اسے مسیحی اور مسلمانوں کے لیے بھی ایک مقدس مقام سمجھا جاتا
ہے۔ مسیحیوں کے نزدیک ہیکل سلیمانی ان کی مذہبی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اور ان کے
عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہیکل میں تعلیمات دی تھیں۔
مسلمانوں کے لیے ہیکل سلیمانی
کی جگہ پر واقع مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ انتہائی مقدس ہیں۔ مسجد اقصیٰ کو اسلام
کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے اور یہاں پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نے معراج کے دوران نماز ادا کی تھی۔
قرآن مجید میں ہیکل
سلیمانی کا براہ راست ذکر نہیں ہے، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت، ان کی
عظمت، اور ان کے معجزات کا تذکرہ موجود ہے۔ سورہ سبا (34) اور سورہ النمل (27) میں
حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقت، حکمت، اور ان کی سلطنت کا ذکر ہے۔ مثال کے طور
پر:
1. سورہ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت، ان کی
ملکہ سبا (بلقیس) کے ساتھ معاملات، اور ان کی عظیم سلطنت کا تذکرہ ہے۔
2. سورہ سبا میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے
لیے ہوا، جنات، اور دیگر مخلوقات کے تابع ہونے کا ذکر ہے۔
احادیث میں بیت المقدس
(ہیکل سلیمانی) کی فضیلت اور اس کی تعمیر و تخریب کے بارے میں کچھ اشارے ملتے ہیں۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی عظمت اور اس کی اہمیت کو بیان فرمایا
ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ مسجد اقصی (بیت المقدس) کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔بعض
روایات میں بتایا گیا ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اللہ کے حکم سے ہوئی تھی، لیکن
بعد میں اس کی تخریب بھی بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہوئی۔
مفسرین قرآن نے حضرت
سلیمان علیہ السلام کے دور کی عظمت اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کو اللہ کی طرف سے
ایک عظیم نعمت قرار دیا ہے۔ یہ ہیکل بنی اسرائیل کے لیے عبادت کا مرکز تھا، لیکن
بعد میں ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اسے تباہ کر دیا گیا۔
قرب قیامت کے حوالے سے ہیکل
سلیمانی (Solomon's Temple)
یا بیت المقدس کے بارے میں اسلامی تعلیمات میں کچھ پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ یہ پیشین
گوئیاں احادیث اور بعض تفسیری روایات میں بیان کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق، قیامت سے
پہلے بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے علاقے میں کچھ اہم واقعات رونما ہوں گے۔
·
احادیث
میں بتایا گیا ہے کہ دجال (Antichrist) قیامت سے پہلے ظاہر ہوگا اور وہ زمین میں فساد پھیلائے گا۔
·
بعض
روایات کے مطابق، دجال بیت المقدس کے قریب ظاہر ہوگا اور اس علاقے میں اپنا اثر و
رسوخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔
·
امام
مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کے خلاف جنگ کریں گے، اور یہ جنگ بیت المقدس
کے قریب ہوگی۔
·
احادیث
میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے
نازل ہوں گے۔
·
ان
کا نزول دمشق کے سفید مینارے کے قریب ہوگا، اور وہ دجال کو شکست دینے کے بعد بیت
المقدس میں قیام کریں گے۔
·
حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں مسلمان بیت المقدس کو فتح کریں گے اور اسے دوبارہ
عبادت کا مرکز بنائیں گے۔
·
بعض
روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ قیامت سے پہلے بیت المقدس کی تعمیر نو ہوگی، اور
یہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم مرکز بن جائے گا۔
·
یہ
تعمیر نو امام مہدی کے دور میں ہوگی، جب عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا۔
·
قرآن
مجید اور احادیث میں یاجوج و ماجوج کے خروج کا ذکر ہے، جو قیامت کی بڑی نشانیوں میں
سے ایک ہے۔
·
یاجوج
و ماجوج کا خروج بیت المقدس کے قریب ہوگا، اور وہ زمین میں فساد پھیلائیں گے۔
·
حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یاجوج و ماجوج کو تباہ کیا جائے گا۔
·
قیامت
سے پہلے بیت المقدس کی اہمیت بڑھ جائے گی، اور یہ مسلمانوں کے لیے ایک مرکزی مقام
بن جائے گا۔
·
احادیث
میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کے لیے ایک اہم عبادت گاہ ہوگا، اور اس کی
حفاظت اور اس کی طرف توجہ دینا مسلمانوں کے لیے ضروری ہوگا۔
قرب قیامت میں ہیکل سلیمانی
(بیت المقدس) کے حوالے سے کئی پیشین گوئیاں ہیں۔ دجال کا ظہور، حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کا نزول، یاجوج و ماجوج کا خروج، اور بیت المقدس کی تعمیر نو جیسے واقعات قیامت
کی بڑی نشانیوں میں سے ہیں۔ یہ تمام واقعات بیت المقدس کے اردگرد مرتکز ہوں گے،
اور اس علاقے کی اہمیت قیامت سے پہلے بڑھ جائے گی۔
ہیکل سلیمانی یہودیوں کے
لیے نہ صرف ایک عبادت گاہ تھا بلکہ یہ ان کی قومی اور روحانی شناخت کا بھی مرکز
تھا۔ اس کی تعمیر اور تباہی یہودی تاریخ کے اہم واقعات ہیں جو آج بھی یہودیوں کی
مذہبی اور ثقافتی زندگی پر اثر انداز ہیں۔ ہیکل سلیمانی کی تاریخ ہمیں یہ درس دیتی
ہے کہ مذہبی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کتنی اہم ہے اور یہ کس طرح ایک قوم کی شناخت
کو برقرار رکھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ہیکل سلیمانی کی یاد آج بھی زندہ ہے اور یہ
ہمیں اپنے ماضی سے جڑے رہنے اور اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کی قدر کرنے کی ترغیب
دیتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔