اللہ تعالیٰ نے انسان کو
اشرف المخلوقات بنایا اور اسے ایک معاشرتی زندگی گزارنے کا حکم دیا۔ گھر، خاندان،
اور رشتے ناتے انسانی معاشرے کی بنیادی اکائیاں ہیں۔ اسلام نے گھر اور خاندان کو
انتہائی اہمیت دی ہے اور اس کی حفاظت، ترتیب، اور تنظیم کے لیے واضح ہدایات دی ہیں۔
قرآن و حدیث میں ایسے گھروں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتے
ہیں۔ ان میں سے تین اہم گھر یہ ہیں:
1. جس گھر میں بیوی کی آواز مرد کی آواز سے زیادہ
ہو۔
2. جس گھر میں حرام مال اکٹھا کیا گیا ہو۔
3. جس گھر میں مہمان کا آنا پسند نہ ہو۔
ان تینوں گھروں کی تفصیل
قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کی جاتی ہے تاکہ ہر مسلمان ان سے بچنے کی کوشش کرے
اور اللہ کی رضا حاصل کر سکے۔
1) جس
گھر میں بیوی کی آواز مرد کی آواز سے زیادہ ہو
اسلامی تعلیمات میں گھر
کے ماحول کو پر سکون اور باہمی احترام پر مبنی بنانے کی تاکید کی گئی ہے۔ گھر میں
عورت کی آواز کا مرد کی آواز سے زیادہ بلند ہونا، اگرچہ کوئی گناہ نہیں، لیکن یہ
گھریلو توازن اور شرعی آداب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اسلام میں خواتین کو نرمی اور
شائستگی سے بات کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: "فَلَا
تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ" (سورہ
الاحزاب: 32)۔ اس آیت میں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ نرمی سے بات
کریں، لیکن اپنی آواز کو اس قدر بلند نہ کریں کہ وہ بے جا توجہ کا باعث بنے۔
دوسری طرف، گھر کے اندر
مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے اور باہمی احترام کے ساتھ
رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر عورت کی آواز مرد کی آواز سے زیادہ بلند ہو اور یہ
بات گھریلو جھگڑوں یا بے چینی کا سبب بنے، تو یہ گھر کے امن اور اسلامی اقدار کے
منافی ہے۔ ایسے حالات میں دونوں فریقوں کو صبر، تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہیے۔
یاد رکھیں کہ گھر کی برکت اور سکون اسی میں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے جذبات کا
احترام کریں اور شرعی حدود کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
اسلام نے مرد کو گھر کا
سربراہ بنایاہے، جبکہ عورت کو گھر کی ذمہ دار اور مرد کی معاون قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
"مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ
نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے بھی کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔"
(النساء: 34)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے
کہ مرد کو گھر کی قیادت اور ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اگر گھر میں بیوی کی آواز مرد
کی آواز سے بلند ہو، تو یہ گھر کے نظام میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ایسا گھر اللہ کی
ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کسی گھر میں عورت اپنے شوہر کی نافرمانی
کرے اور اس کی آواز اس کی آواز سے بلند ہو، تو وہ گھر اللہ کی رحمت سے محروم ہو
جاتا ہے۔" (ابن ماجہ)
یہ حدیث اس بات کی وضاحت
کرتی ہے کہ گھر میں مرد کی قیادت کو تسلیم کرنا اور اس کے فیصلوں کو ماننا ضروری
ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کی نافرمانی کرے اور اس کی آواز بلند کرے، تو یہ گھر کے
امن و سکون کو خراب کرتا ہے اور اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔
گھر کے امن و سکون کے لیے
ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنے فرائض کو پورا کریں۔ مرد کو چاہیے کہ وہ عورت
کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئے، جبکہ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت
کرے اور اس کے فیصلوں کو تسلیم کرے۔ دونوں کے درمیان باہمی احترام اور تعاون ہو،
تو گھر میں اللہ کی رحمت برستی ہے۔
2. جس گھر میں حرام مال اکٹھا کیا گیا ہو
مال و دولت انسان کی زندگی
کا اہم حصہ ہے، لیکن اسلام نے اسے حلال طریقے سے کمانے اور خرچ کرنے کی تاکید کی
ہے۔ حرام مال کمانا، چوری، رشوت، سود، دھوکہ دہی، یا کسی بھی ناجائز طریقے سے کمائی
گئی دولت اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:"اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے مت کھاؤ، سوائے اس کے کہ
تمہارا آپس میں تجارت کا معاملہ ہو۔" (النساء:
29)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے
کہ حرام مال کھانا اور اسے جمع کرنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ جو گھر حرام
مال سے بھرا ہو، وہ گھر اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "وہ جسم جس کو حرام مال سے پرورش ملا ہو،
جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔" (ترمذی)یہ حدیث اس
بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حرام مال نہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ پورے گھر
کے لیے وبال بن جاتا ہے۔ جو گھر حرام مال سے بھرا ہو، وہ گھر اللہ کی ناراضگی کا
شکار ہو جاتا ہے۔
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ
حلال روزی کمانے کی کوشش کرے اور حرام مال سے بچے۔ حرام مال کھانے سے نہ صرف انسان
کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، بلکہ اس کے گھر میں برکت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا،
ہر شخص کو اپنے مال کے حلال ہونے کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
3. جس گھر میں مہمان کا آنا پسند نہ ہو
مہمان نوازی اسلام کا ایک
اہم حکم ہے۔ مہمان کو اللہ کا مہمان سمجھا جاتا ہے، اور اس کی خدمت کرنا باعث اجر
و ثواب ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے"اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے آپ
کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور احسان کرو۔ بے شک اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔"
(البقرہ: 195)
مہمان نوازی بھی احسان کا
ایک حصہ ہے۔ جو گھر مہمان کو خوش آمدید نہ کہے اور اس کی خدمت نہ کرے، وہ گھر اللہ
کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا
ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔"(بخاری)ایک
اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس گھر میں مہمان کی آمد پر خوشی کا اظہار
نہ کیا جائے، وہ گھر اللہ کی رحمت سے محروم رہتا ہے۔"
(مسلم)
یہ احادیث اس بات کی
وضاحت کرتی ہیں کہ مہمان نوازی ایمان کا حصہ ہے۔ جو گھر مہمان کو خوش آمدید نہ
کہے، وہ گھر اللہ کی ناراضگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ
مہمان کی عزت کرے اور اس کی خدمت کرے۔ مہمان کو خوش آمدید کہنا، اس کے لیے کھانا پیش
کرنا، اور اس کی ضروریات کا خیال رکھنا باعث ثواب ہے۔ مہمان نوازی سے نہ صرف گھر میں
برکت آتی ہے، بلکہ اللہ کی رحمت بھی نازل ہوتی ہے۔
ان تین گھروں کی نشاندہی
قرآن و حدیث کی روشنی میں کی گئی ہے تاکہ ہر مسلمان ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ گھر
کے امن و سکون، برکت، اور اللہ کی رضا کے لیے ضروری ہے کہ:
1. گھر
میں مرد کی قیادت کو تسلیم کیا جائے اور بیوی اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔
2. حرام
مال سے مکمل پرہیز کیا جائے اور صرف حلال روزی کمانے کی کوشش کی جائے۔
3. مہمان
کی عزت کی جائے اور اس کی خدمت کی جائے۔
اگر ہم ان اصولوں پر عمل
کریں، تو ہمارے گھر اللہ کی رحمت اور برکت سے بھر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان
گھروں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، جو اس کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔ آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔