اینٹی فاشسٹ ریمپارٹ یا انسانیت کا قید خانہ؟ دیوارِ برلن کی اصل کہانی

0




تاریخ انسانی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جو نہ صرف جغرافیائی حدود کا تعین کرتے ہیں بلکہ انسانی جذبات، خیالات اور خوابوں کو بھی تقسیم کر دیتے ہیں۔ برلن کی دیوار ایسی ہی ایک المناک اور طاقتور علامت تھی۔ یہ محض اینٹوں اور کنکریٹ کا ایک ڈھانچہ نہیں تھی، بلکہ یہ سوویت یونین کی قیادت میں مشرقی بلاک اور مغربی جمہوری ممالک کے درمیان سرد جنگ کی سب سے واضح جسمانی manifestation تھی۔ اس نے نہ صرف ایک شہر برلن کو دو حصوں میں بانٹا، بلکہ ایک ہی قوم، ایک ہی ثقافت اور ایک ہی تاریخ کے حامل لوگوں کو 28 سال تک جدا رکھا۔ یہ دیوار "آہنی پردے" (Iron Curtain) کا حقیقی، ٹھوس اور انتہائی ظالم روپ تھی، جو دنیا کو دو متحارب نظریوں میں تقسیم کرتی نظر آتی تھی۔

 تاریخی پس منظر دیوار کیوں بنائی گئی؟

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد، مفتوحہ جرمنی کو فاتح طاقتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین کے درمیان چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی طرح دارالحکومت برلن، جو مکمل طور پر سوویت کے زیر کنٹرول مشرقی جرمنی میں واقع تھا، کو بھی چار sectors میں تقسیم کر دیا گیا۔

مغربی برلن امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے زیر انتظام ایک جمہوری، سرمایہ دارانہ "جزیرہ" بن گیا، جبکہ مشرقی برلن سوویت یونین کے زیر اثر کمیونسٹ نظریے کا گڑھ بنا۔ 1949 میں، مغربی علاقوں نے مل کر وفاقی جمہوریہ جرمنی (West Germany) قائم کیا، جبکہ سوویت علاقے نے جرمن جمہوری جمہوریہ (East Germany-GDR) کی۔

مشرقی جرمنی میں سوویت طرز کی سخت گیر کمیونسٹ حکومت قائم تھی، جہاں سیاسی مخالفین کو کچلا جاتا، معیشت ریاست کے کنٹرول میں تھی، اور عام شہریوں کی ذاتی آزادیاں انتہائی محدود تھیں۔ اس کے برعکس، مغربی جرمنی میں جمہوریت، معاشی ترقی اور ذاتی آزادیوں کا دور دورہ تھا۔

اس واضح فرق کی وجہ سے، لاکھوں مشرقی جرمن شہری، خاص طور پر نوجوان، تعلیم یافتہ اور ہنر مند پیشہ ور افراد، مغربی برلن کے راستے آزاد مغربی جرمنی فرار ہونے لگے۔ 1961 تک، تقریباً 25 لاکھ سے زائد افراد مشرقی جرمنی چھوڑ چکے تھے۔ یہ brain drain مشرقی جرمنی کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا تھا اور اس کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔

مشرقی جرمن حکومت اور اس کے سوویت اتحادیوں کے لیے یہ صورت حال ناقابل برداشت ہو چکی تھی۔ لوگوں کے فرار ہونے کے بہت سے راستوں میں سے سب سے آسان راستہ مغربی برلن تھا، کیونکہ وہاں جانے کے لیے سرحد پار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، بس شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانا ہوتا تھا۔ اس "بہاؤ" کو روکنے کے لیے، مشرقی جرمن حکومت نے ایک انتہائی اور مستقل حل کا فیصلہ کیا ایک دیوار تعمیر کی۔

 

 دیوار کی تعمیر ایک راتوں رات وجود میں آنے والی تقسیم

12-13 اگست 1961 کی درمیانی رات دنیا نے ایک حیران کن اور دکھ بھرا منظر دیکھا۔ مشرقی جرمن فوج اور پولیس کے دستوں نے خاموشی سے برلن کے مشرقی اور مغربی حصوں کو جدا کرنے والی لائن پر کانٹے دار تاروں (barbed wire) کی جالیاں بچھا دیں۔ راستوں کو بند کر دیا گیا، ٹرینیں روک دی گئیں، اور عوامی نقل و حرکت پر یکطرفہ پابندی عائد کر دی گئی۔

 

اس اچانک کارروائی کا مقصد مشرقی برلن کے باشندوں کو مغربی برلن جانے سے روکنا تھا۔ ابتدائی ہفتوں میں کانٹے دار تاروں کی اس عارضی رکاوٹ کو بتدریج ایک مستقل مضبوط کنکریٹ کی دیوار میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ عمل کئی سالوں تک جاری رہا، جس میں دیوار کو مزید بلند، مضبوط بنایا جاتا رہا۔

 

 دیوار کی ساخت "موت کے پٹے" کا جال

برلن کی دیوار محض ایک دیوار نہیں تھی، بلکہ ایک انتہائی پیچیدہ اور خطرناک سرحدی نظام تھا، جسے official طور پر "Anti-Fascist Protection Rampart" کا نام دیا گیا تھا۔ اس کا ڈیزائن ایک ہی چیز کے لیے تھا لوگوں کو روکنا۔ اس کی مکمل ساخت میں شامل تھا۔

1)  اندرونی دیوار یہ مشرقی برلن کی طرف 3.6 میٹر (12 فٹ) اونچی کنکریٹ کی دیوار تھی۔

2)   موت کے پٹے" (Death Strip) دیواروں کے درمیان ایک وسیع اور کھلا علاقہ ہوتا تھا، جسے ریت سے بھر دیا جاتا تھا تاکہ فرار ہونے والوں کے پاؤں کے نشانات آسانی سے دیکھے جا سکیں۔ اس strip میں

3)   سگنل فینس کوئی بھی چھونے پر الارم بجنے والی باڑھ۔

4)   دھاتی جالیاں کانٹے دار تاروں کے جال۔

1.   antitank obstacles فرار ہونے والی گاڑیوں کو روکنے کے لیے۔

5)   302 Watchtowers مسلح گارڈز جو ہر وقت نگاہ رکھتے تھے اور انہیں "کسی بھی حرکت پر فائر" کرنے کا حکم تھا۔

6)   بیرونی دیوار مغربی برلن کی طرف والی دیوار۔

          i.     border path گارڈز کی گشت کے لیے راستہ۔

1.   methodical clearing تمام درختوں اور عمارتوں کو گرا دیا گیا تھا تاکہ فرار ہونے والوں کے لیے کوئی چھپنے کی جگہ نہ رہے۔

7)   یہ پورا نظام 155 کلومیٹر (96 میل) لمبا تھا، جس میں سے 43 کلومیٹر برلن شہر کے اندر مشرقی اور مغربی حصوں کو جدا کرتا تھا۔

 دیوار کے پیچھےجدائی اور جبر کا دور

 

دیوار نے لاکھوں خاندانوں اور دوستوں کو یکدم جدا کر دیا۔ ایک ہی گلی کے لوگ، ایک ہی بازار میں جانے والے، ایک ہی سکول میں پڑھنے والے ایک دوسرے سے محروم ہو گئے۔ مشرقی برلن کے باشندے مغربی برلن نہیں جا سکتے تھے، جبکہ مغربی برلن کے باشندے خاص پرمٹ کے بغیر مشرقی برلن میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

مشرقی جرمنی میں زندگی نگرانی، خوف اور پروپیگنڈے کے زیر اثر تھی۔ حکومت کا خفیہ پولیس ادارہ 'شتازی'   (Stasi) ہر کسی پر نظر رکھتا تھا۔ معمولی سی شکایت یا مغرب سے ہمدردی رکھنے کے شبے پر لوگوں کو حراست میں لے لیا جاتا، ان کی ملازمت چلی جاتی، یا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ حکومت دیوار کو ایک ضروری تحفظ کے طور پر پیش کرتی تھی، لیکن عوام جانتے تھے کہ یہ انہیں قید رکھنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

 

 فرار کی کوششیں آزادی کے لیے خطرناک سفر

 

جہاں دیوار کو ناقابل عبور بنانے کی کوشش کی گئی، وہیں اس کے باوجود ہزاروں افراد نے انتہائی تخلیقی اور خطرناک طریقوں سے فرار کی کوششیں کی۔ کچھ کامیاب ہوئے، تو کچھ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فرار کے چند مشہور طریقے یہ تھے

1.   ہوائی جہاز یا گرم ہوا کے غبارے کم پرواز والے ہوائی جہازوں یا خود ساختہ غباروں کے ذریعے۔

2.   سرنگیں کھودنا سب سے مشہور سرنگوں میں سے ایک "سرنگ 57" تھی، جس کے ذریعے 57 افراد فرار ہوئے۔

3.   کاروں میں چھپ کر گاڑیوں کے انجن یا ڈیکے میں چھپ کر۔

4.    تیز رفتاری سے گاڑی چلا کر سرحدی barriers کو توڑتے ہوئے۔

5.   دریا میں تیر کر برلن میں بہنے والے دریاؤں کو پار کرنا۔

6.   دیوار پر رسیوں یا رسی کی سیڑھیوں کے ذریعے چڑھ کر۔

ان کوششوں کا انجام اکثر المناک ہوتا تھا۔ اندازے کے مطابق، 140 سے 200 افراد دیوار کو پار کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ سب سے مشہور واقعہ 1962 میں پیٹر فیچر کا ہے، جو دیوار پار کرتے ہوئے زخمی ہو گیا تھا، لیکن مشرقی اور مغربی دونوں جانب کے گارڈز اسے بچانے میں ناکام رہے، اور وہ زخموں کی وجہ سےجاں بحق ہوگیا۔

 دیوار کا گرنا آزادی کا طوفان

1980 کے عشرے کے آخر تک، سوویت یونین میں 'پیریسٹروئیکا' (اصلاحات) اور 'گلاسنوسٹ' (کھلے پن) کی پالیسیوں کے تحت تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں۔ مشرقی یورپ میں عوامی احتجاج میں اضافہ ہوا۔

9 نومبر 1989 کو، ایک مشرقی جرمن حکومتی ترجمان گونٹر شابوسکی نے ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کر دیا کہ مشرقی جرمنی کے شہریوں کے لیے مغربی جرمنی سفر کرنے کے نئے regulations فوری طور پر نافذ ہو گئے ہیں۔ جب ایک صحافی نے پوچھا کہ یہ کب سے لاگو ہوں گے تو اس نے جواب دیا "میرے علم میں فوری طور پر۔"

 

یہ غلط فہمی ایک طوفان لے آئی۔ ہزاروں کی تعداد میں مشرقی برلن کے باشندے دیوار کی طرف دوڑ پڑے، یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ انہیں مغربی طرف جانے دیا جائے۔ حیران اور بے بس سرحدی محافظوں کے پاس اعلیٰ حکام سے واضح ہدایات نہ ہونے کی وجہ سے آخرکار دروازے کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

اس رات برلن کے دونوں طرف کے لاکھوں شہریوں نے دیوار پر چڑھ کر جشن منایا۔ ایک دوسرے کو گلے لگایا، رقص کیا، اور ہتھوڑوں سے دیوار کو توڑنا شروع کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے نہ صرف جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی راہ ہموار کی بلکہ سرد جنگ کے خاتمے کی بھی علامت بنا۔

3 اکتوبر 1990 کو، جرمنی سرکاری طور پر دوبارہ متحد ہو گیا۔ برلن ایک بار پھر دارالحکومت بنا۔ آج برلن کی دیوار کے صرف چند چھوٹے ٹکڑے ہی باقی بچے ہیں، جو ایک یاد دہانی کے طور پر محفوظ کیے گئے ہیں۔

برلن کی دیوار انسانی آزادی کی خواہش اور جبری نظام کی ناکامی کی ایک طاقتور داستان ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ وقتی طور پر خیالات اور لوگوں کو روکا جا سکتا ہے، لیکن حریت کی طلب کو ہمیشہ کے لیے قید نہیں کیا جا سکتا۔

 اہم نکات (Key Points in Bullets)

     I.         تقسیم کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور برلن کو فاتح طاقتوں نے چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔

  II.         دیوار کی تعمیر مشرقی جرمنی سے ہونے والے بڑے پیمانے پر فرار کو روکنے کے لیے 13 اگست 1961 کی رات کانٹے دار تاروں سے آغاز ہوا۔

III.         سرکاری نام مشرقی جرمن حکومت اسے "اینٹی فاشسٹ پروٹیکشن ریمپارٹ" کہتی تھی۔

IV.         لمبائی یہ 155 کلومیٹر (96 میل) لمبی تھی۔

  V.         ساختی complexity یہ محض ایک دیوار نہیں، بلکہ موت کے پٹے، watchtowers، سگنل فینس اور دیگر رکاوٹوں پر مشتمل ایک deadly system تھی۔

VI.         انسانی تخمیناً 140 سے 200 افراد فرار کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔ ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔

VII.         خاندانی تقسیم لاکھوں خاندان 28 سال تک جدا رہے۔

VIII.         گرنے کا دن 9 نومبر 1989 کو ایک غلط فہمی کے نتیجے میں دیوار کھول دی گئی۔

IX.         جرمن اتحاد دیوار کے گرنے کے بعد 3 اکتوبر 1990 کو جرمنی دوبارہ متحد ہو گیا۔

  X.         علامتی importance یہ سرد جنگ کی سب سے بڑی علامت تھی، جس کا گرنا کمیونزم کے زوال کی نشانی بنا۔

 یاد رکھنے کی باتیں (Points to Remember)

     I.         برلن کی دیوار محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق، آزادی اور جبر کے خلاف جدوجہد کی ایک عالمی علامت ہے۔

  II.         یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ تقسیم اور علیحدگی کے نظریات طویل عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے۔ انسانی رابطہ اور آزادی فطری تقاضے ہیں۔

III.         یہ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ پروپیگنڈہ اور جبر کی طاقت حقیقت کو ہمیشہ کے لیے چھپا نہیں سکتی۔

IV.         دیوار کے باقیات آج بھی امن، آزادی اور یکجہتی کی importance کو اجاگر کرنے کے لیے ایک memorial کے طور پر موجود ہیں۔

  V.         یہ تاریخ کا ایک سبق ہے کہ کس طرح انتہائی measures بھی عوام کی خواہشات کو دبانے میں ناکام ہو جاتے ہیں جب تبدیلی کا وقت آتا ہے۔

Tags

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !