google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 کیا اللہ مجھ سے راضی ہے؟ اپنی زندگی میں ان علامات کو پہچانیں - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 4 جولائی، 2025

کیا اللہ مجھ سے راضی ہے؟ اپنی زندگی میں ان علامات کو پہچانیں



ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور سب سے بڑی کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ جس سے اللہ راضی ہو گیا، وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے برعکس، اللہ کی ناراضگی ایک مومن کے لیے سب سے بڑا خسارہ اور عذاب ہے۔ اگرچہ ہم قطعی طور پر یہ نہیں جان سکتے کہ اللہ ہم سے راضی ہے یا ناراض، لیکن قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین کے اقوال کی روشنی میں کچھ ایسی علامات اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں جو ایک مومن کے لیے لمحہ فکریہ اور خود احتسابی کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ نشانیاں حتمی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک انتباہ (Warning) ہیں کہ انسان اپنے اعمال کا جائزہ لے اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع کرے۔آئیے ان  نشانیوں کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کر سکتی ہیں کہ کہیں ہمارا رب ہم سے ناراض تو نہیں۔


 دل کا سخت ہو جانا

دل کا سخت ہو جانا یا قساوتِ قلبی اللہ کی ناراضگی کی سب سے پہلی اور واضح علامتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل نصیحت، قرآن کی آیات، موت کی یاد اور نیکی کی باتوں سے متاثر ہونا چھوڑ دے۔ اس کی آنکھوں سے اللہ کے خوف یا محبت میں آنسو بہنا بند ہو جائیں اور اس کا دل پتھر کی طرح یا اس سے بھی زیادہ سخت ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: "پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے، پس وہ پتھروں کی طرح ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔" (سورۃ البقرۃ، آیت 74)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور وہ دل ہے جو سخت ہو۔" (جامع الترمذی) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ کثرت سے ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ گناہوں کی کثرت بھی دل پر سیاہ نقطے لگاتی جاتی ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ اور سخت ہو جاتا ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ دل نرم کیسے ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: "حلال لقمہ کھانے سے۔" اس سے معلوم ہوا کہ حرام اور مشکوک رزق دل کی سختی کا بڑا سبب ہے۔یہ بھی منقول ہے کہ گناہوں کی کثرت دل کو زنگ آلود کر دیتی ہے، جس سے نصیحت کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج کثرت سے اللہ کا ذکر، قرآن مجید کی تلاوت (ترجمے اور تفسیر کے ساتھ)، موت کو یاد کرنا، قبرستان جانا، اور یتیموں اور مسکینوں پر رحم کرنا ہے۔


 عبادت میں دل نہ لگنا

دوسری بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان عبادات تو کرتا ہے، نماز بھی پڑھتا ہے، روزہ بھی رکھتا ہے، لیکن اسے ان عبادات میں لذت اور سکون محسوس نہیں ہوتا۔ نماز ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے، دل اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور انسان محض رسم پوری کر رہا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے "اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔" (سورۃ النساء، آیت 142)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بے شک آدمی نماز پڑھتا ہے اور اس کے لیے اس کی نماز سے صرف دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں (حصہ) لکھا جاتا ہے۔" (سنن ابی داؤد)۔ یعنی جتنا خشوع و خضوع ہوگا، اتنا ہی اجر ملے گا۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نماز میں کم از کم اتنی توجہ ضروری ہے جو نماز کے فرض ہونے کو پورا کر دے، لیکن تمام ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ نماز کی روح "خشوع" ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ عبادت کی اصل لذت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب بندہ دنیا و مافیہا سے کٹ کر صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں اور دعاؤں کا ترجمہ سیکھیں، یہ سوچ کر نماز پڑھیں کہ شاید یہ آپ کی زندگی کی آخری نماز ہو، اور نماز سے پہلے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگیں۔


 گناہوں میں مزہ آنا

جب انسان کا دل بگڑ جاتا ہے تو اسے نیکیوں میں وحشت اور گناہوں میں لذت اور سکون محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کا نفس اسے مزید گناہوں پر اکساتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے اس کی برائی کو اس کے لیے مزین کر دیا ہے اور اسے اس کی گمراہی میں چھوڑ دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"تو کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھتا ہو (ہدایت یافتہ شخص جیسا ہو سکتا ہے)؟ پس بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔" (سورۃ فاطر، آیت 8)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم دیکھو کہ اللہ کسی بندے کو اس کی نافرمانیوں کے باوجود وہ سب کچھ دے رہا ہے جو وہ دنیا میں چاہتا ہے، تو یہ 'استدراج' (ڈھیل) ہے۔" پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی، تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہو گئے جو انہیں دی گئی تھیں، تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔" (سورۃ الانعام، آیت 44)۔ (مسند احمد)

امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنے استاد وکیع سے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو استاد نے فرمایا: "گناہوں کو چھوڑ دو، کیونکہ علم اللہ کا نور ہے اور اللہ کا نور کسی گناہ گار کو عطا نہیں کیا جاتا۔" گناہوں سے لذت لینا روحانی بیماری کی انتہا ہے۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، گناہ کے ماحول اور اسباب سے دور رہیں، اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کے دل سے گناہوں کی محبت نکال کر اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی محبت ڈال دے۔


 نیکی میں سستی ہونا

یہ بھی ایک اہم علامت ہے کہ انسان نیکی کے کاموں، مثلاً نماز، تلاوت، صدقہ و خیرات، اور دوسروں کی مدد کرنے میں سستی اور کاہلی محسوس کرے۔ اس کا دل نیکی کی طرف راغب نہیں ہوتا اور اگر وہ کوئی نیکی کرتا بھی ہے تو بوجھ سمجھ کر کرتا ہے۔

یہ منافقین کی صفت ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے:"اور وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر سستی کے ساتھ، اور خرچ نہیں کرتے مگر ناگواری کے ساتھ۔" (سورۃ التوبۃ، آیت 54)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مضبوط مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے، اور دونوں میں بھلائی ہے۔" (صحیح مسلم)۔ نیکی میں سستی روحانی کمزوری کی علامت ہے۔

چاروں ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ اعمالِ صالحہ ایمان کا حصہ ہیں اور ان میں کمی ایمان میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ ان کے نزدیک ایک سچے مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے نیک اعمال کا عادی بنائیں، نیک کاموں کے فضائل پڑھیں اور سنیں، اور اللہ سے عمل کی توفیق اور استقامت کی دعا کریں۔


 گناہوں پر شرمندگی نہ ہونا

توبہ کا پہلا قدم گناہ پر ندامت اور شرمندگی ہے۔ جب انسان سے گناہ سرزد ہو اور اسے اس پر کوئی افسوس، پچھتاوا یا شرمندگی نہ ہو، بلکہ وہ ڈھٹائی سے اس کا ذکر کرے یا اسے معمولی سمجھے، تو یہ انتہائی خطرناک روحانی حالت ہے۔ یہ دل کے مردہ ہونے کی علامت ہے۔


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ لگ گیا ہے۔" (سورۃ المطففین، آیت 14)۔ جب دل پر زنگ لگ جائے تو اسے اچھائی برائی کی تمیز نہیں رہتی۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے "النَّدَمُ تَوْبَةٌ" یعنی "شرمندگی ہی توبہ ہے۔" (سنن ابن ماجہ)۔ جس شخص کو گناہ پر شرمندگی ہی نہیں، وہ توبہ کیسے کرے گا؟

بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ گناہ کو چھوٹا سمجھنا خود اس گناہ سے بڑا گناہ ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ مومن اپنے گناہ کو ایسے دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور ڈرتا ہو کہ وہ اس پر گر پڑے گا، جبکہ فاجر اپنے گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھی اور اس نے اڑا دی۔ آخرت، حساب کتاب اور اللہ کے سامنے پیشی کو کثرت سے یاد کریں۔ یہ سوچیں کہ جس اللہ کی آپ نافرمانی کر رہے ہیں وہ آپ کو ہر وقت دیکھ رہا ہے اور وہ کتنا عظیم ہے۔


 دعا کا اثر نہ ہونا

انسان دعا کرتا ہے، گڑگڑاتا ہے، لیکن اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی دعائیں قبول نہیں ہو رہیں اور ان کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہو رہا۔ اگرچہ دعاؤں کی قبولیت کے مختلف طریقے ہیں (کبھی دعا فوراً قبول ہوتی ہے، کبھی اس کے بدلے کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے، اور کبھی آخرت کے لیے ذخیرہ کر لی جاتی ہے)، لیکن اگر انسان حرام کاموں میں ملوث ہو تو یہ چیز دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔


اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ "مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔" (سورۃ غافر، آیت 60)۔ لیکن قبولیت کی کچھ شرائط ہیں۔


رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال بکھرے ہوئے اور جسم غبار آلود ہے، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر "یا رب، یا رب" پکارتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اور اس کی پرورش حرام پر ہوئی ہو، تو "فَأَنَّىٰ يُسْتَجَابُ لِذَٰلِكَ؟" "ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟" (صحیح مسلم)


تمام ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ رزقِ حلال دعا کی قبولیت کے لیے بنیادی شرط ہے۔ امام ابو حنیفہ تجارت میں بھی مشکوک معاملات سے بہت پرہیز کرتے تھے تاکہ ان کے اعمال اور دعائیں قبول ہوں۔سب سے پہلے اپنے رزق کو حرام اور مشکوک چیزوں سے پاک کریں۔ گناہوں سے توبہ کریں کیونکہ گناہ بھی دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

 

 تنہائی میں بھی گناہ کرنا

یہ نفاق اور کمزور ایمان کی واضح علامت ہے کہ انسان لوگوں کے سامنے تو نیک اور پرہیزگار نظر آئے، لیکن جب وہ تنہا ہو تو اللہ کی حدود کو پامال کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں لوگوں کا خوف اللہ کے خوف سے زیادہ ہے۔


اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ (اسے) دیکھ رہا ہے؟" (سورۃ العلق، آیت 14)

یہ ایک انتہائی خوفناک حدیث ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میں اپنی امت کے کچھ لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ ان کو بکھرے ہوئے غبار کی طرح بنا دے گا۔" ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ان کا حال ہم سے بیان فرمائیے تاکہ ہم لاعلمی میں ان میں سے نہ ہو جائیں۔" آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ تمہارے ہی بھائی ہوں گے اور تمہاری ہی قوم سے ہوں گے، وہ رات کو اسی طرح عبادت کریں گے جیسے تم کرتے ہو، لیکن جب وہ تنہا ہوتے تو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کرتے تھے۔" (سنن ابن ماجہ، صحیح)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ مردانگی یہ ہے کہ انسان کی تنہائی اور محفل ایک جیسی ہو، یعنی وہ ظاہر اور باطن میں یکساں ہو۔

 "احسان" کے تصور کو اپنے دل میں بٹھائیں۔ احسان یہ ہے کہ "تم اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔" (صحیح بخاری)

 

 اللہ کے ذکر سے غفلت

آخری اور جامع نشانی اللہ کے ذکر سے غفلت ہے۔ جس کی زبان اور دل اللہ کے ذکر سے خالی ہو، وہ ہر قسم کی روحانی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ذکر سے غفلت شیطان کو انسان پر مسلط ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔


اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے":اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ زندگی ہوگی، اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔" (سورۃ طہ، آیت 124)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا، زندہ اور مردہ کی سی ہے۔" (صحیح بخاری)


تمام ائمہ و محدثین صبح و شام کے اذکار، نماز کے بعد کے اذکار اور چلتے پھرتے ذکر کرنے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کے نزدیک ذکرِ الٰہی دلوں کا زنگ دور کرنے اور انہیں منور کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ صبح و شام کے مسنون اذکار کو اپنی زندگی کا معمول بنائیں۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اپنی زبان کو استغفار، درود شریف، اور تسبیحات (سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر) سے تر رکھیں۔

یہ آٹھ نشانیاں دراصل ہمارے لیے ایک آئینہ ہیں جس میں ہم اپنے روحانی حال کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ان کا مقصد کسی کو مایوس کرنا نہیں، بلکہ خود احتسابی پر ابھارنا ہے۔ اگر ہم میں سے کسی میں یہ علامات پائی جاتی ہیں تو یہ اللہ کی طرف سے ایک مہلت اور ایک اشارہ ہے کہ ابھی بھی وقت ہے۔ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے۔ سچی توبہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ ہمیں فوراً اللہ کی بارگاہ میں رجوع کرنا چاہیے، اپنے گناہوں پر نادم ہو کر معافی مانگنی چاہیے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کی راہ پر چلنے، اپنی ناراضگی کے اسباب سے بچنے اور خاتمہ بالایمان نصیب فرمائے۔ آمین۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو