google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 مذاق میں کسی کا دل دکھانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 11 جولائی، 2025

مذاق میں کسی کا دل دکھانا

 


انسانی معاشرے میں خوش طبعی اور مذاق ایک فطری عمل ہے، جو تعلقات کو خوشگوار بناتا ہے۔ لیکن جب مذاق کی حدیں پار ہو جائیں اور کسی کے دل کو تکلیف پہنچے، تو یہ عمل اخلاقی اور شرعی دونوں اعتبار سے ناپسندیدہ ہو جاتا ہے۔ اسلام نے ہر قسم کے ظلم، تکبر اور دوسروں کو تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے، چاہے وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں۔ اس مضمون میں ہم قرآن و حدیث، فقہ احناف اور دیگر ائمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں مذاق میں دل آزاری کے احکامات، معاشرتی رویوں کے بدلتے رجحانات، اور موجودہ دور میں اس سے بچاؤ کے طریقوں پر تفصیل سے بات کریں گے۔ 

 

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، طعنہ دینے یا برے القابات سے پکارنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:   "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ" الحجرات: 11

 "اے ایمان والو! نہ تو کوئی قوم کسی قوم کا مذاق اڑائے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے پر طعن کرو، اور نہ برے القابات سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فسق کا نام بُرا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں، تو وہی ظالم ہیں۔

اس آیت میں تین اہم پہلو واضح کیے گئے ہیں

1. مذاق اڑانا (سخریہ کرنا) – کسی کو نیچا دکھانا یا اس کی تضحیک کرنا۔ 

2. طعنہ دینا (لمز کرنا) – کسی کی عیب جوئی کرنا یا اسے شرمندہ کرنا۔ 

3. برے ناموں سے پکارنا (تنابز بالالقاب) – کسی کو اس کے ناپسندیدہ نام یا القاب سے پکارنا۔  یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مذاق میں بھی اگر کسی کو تکلیف پہنچے، تو یہ گناہ کا باعث ہے۔ 

 

نبی کریم ﷺ نے بھی مذاق میں زیادتی سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ خود بھی خوش طبعی فرماتے تھے، لیکن کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی بات بیان کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ مذاق کے لیے جھوٹ بولنا بھی حرام ہے۔ 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا سامان نہ لے، خواہ مذاق میں ہو یا سنجیدگی سے۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ مذاق میں بھی کسی کی چیز چھیننا یا اسے تکلیف دینا جائز نہیں۔ 

 حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو لعنت کرے۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آدمی اپنے والدین کو کیسے لعنت کرتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور وہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ مذاق میں بھی اگر کسی کے والدین یا اس کی عزت پر حملہ کیا جائے، تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔ 

 

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر مذاق میں کسی کو تکلیف پہنچے یا اس کی عزت مجروح ہو، تو یہ ناجائز ہے۔ فقہ حنفی میں کسی کی تضحیک کرنا یا اسے شرمندہ کرنا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ 

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذاق اچھا ہے، لیکن اس میں کسی کی غیبت، چغل خوری یا طعنہ زنی شامل نہ ہو۔  ان دونوں ائمہ کے نزدیک بھی مذاق میں کسی کو ذلیل کرنا یا اس کی دل آزاری کرنا حرام ہے۔ 

 

موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور عام معاشرتی گفتگو میں مذاق کے نام پر لوگوں کو ذلیل کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ کچھ اہم پہلو یہ ہیں

·     آج کل لوگ سوشل میڈیا پر دوسروں کی تصاویر یا ویڈیوز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جس سے کئی نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ 

·     کچھ لوگ دوستوں کے ساتھ مذاق میں گالی گلوچ کرتے ہیں، جس سے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ 

·     مذاق میں دل دکھانا اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔ جب معاشرے میں دین کی تعلیمات کم ہو جاتی ہیں، تو لوگ حدیں پار کرنے لگتے ہیں۔ 

 

·     قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کریں – اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کو سمجھیں۔ 

·     دوسروں کے جذبات کا خیال رکھیں – ہر بات سوچ سمجھ کر کہیں۔ 

·     سوشل میڈیا پر محتاط رہیں – کسی کی تضحیک یا تنقید نہ کریں۔ 

·     توبہ اور معافی کی عادت اپنائیں – اگر کسی کو تکلیف پہنچ جائے، تو فوراً معافی مانگیں۔ 

·     اخلاقی تربیت حاصل کریں – دینی کتابوں اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔ 

 

مذاق فطری چیز ہے، لیکن اگر اس میں کسی کی دل آزاری ہو، تو یہ اسلام میں ناجائز ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہائے کرام نے اس پر سختی سے روک لگائی ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں اپنے رویوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا، تاکہ ہمارے معاشرے میں محبت اور احترام قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو