آج
کے دور میں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مساجد ویران ہو رہی ہیں، جبکہ
درباروں اور مزاروں پر ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال سوچنے پر مجبور کرتی ہے
کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا لوگوں کا اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات سے کم ہو رہا
ہے؟ کیا شیاطین اور جھوٹے بابا اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ کیا دورِ حاضر میں
لوگ گمراہی کا شکار ہو رہے ہیں؟ اور کیا دین کے ٹھیکداروں نے امت کو فائدہ پہنچایا
ہے یا نقصان؟ ان سوالات کے جوابات قرآن و حدیث، ائمہ اربعہ کی فقہی آراء اور قیامت
کی نشانیوں کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1. مساجد کی اہمیت اور ان کا ویران ہونا
مساجد
اللہ کے گھر ہیں، جو ایمان والوں کے لیے عبادت، ذکر و اذکار اور علم دین حاصل کرنے
کا مرکز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مساجد کی تعمیر اور ان کی آبادی کو ایمان
کی نشانی قرار دیا ہے: "اللہ کی مساجد کو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ
پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔" (التوبہ: 18)
نبی
کریم ﷺ نے مساجد کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا "جب تم کسی کو مسجد سے زیادہ بازاروں میں اور اللہ کے ذکر سے زیادہ دنیا کی
باتوں میں لگا ہوا دیکھو تو اس پر افسوس کرو، کیونکہ اللہ اسے بخشے گا یا عذاب دے
گا۔" (ترمذی)
مساجد
کا ویران ہونا درحقیقت معاشرے میں دینی اقدار کے زوال کی علامت ہے۔
1. دینی تعلیمات سے دوری: جدید تعلیم اور مادہ پرستی نے لوگوں کو دین سے دور کر دیا
ہے۔ بہت سے مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات سے ناواقف ہیں، جس کی وجہ سے وہ مساجد کی
بجائے دنیاوی مقامات کو ترجیح دیتے ہیں۔
2. نماز کی پابندی نہ کرنا: مساجد میں جمعہ اور دیگر نمازوں کے وقت خالی ہال دیکھے جا
سکتے ہیں۔ لوگ نماز کو معمولی سمجھتے ہیں اور اسے نظرانداز کر دیتے ہیں، حالانکہ
نماز دین کا ستون ہے۔
3. دنیاوی مشغولیت: مال و دولت، کاروبار اور تفریحات نے لوگوں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ وہ
عبادت اور مساجد کی طرف توجہ نہیں دے پاتے۔
2. درباروں اور مزاروں کا آباد ہونا
شرک اور بدعات کا فروغ درباروں اور مزاروں کا رجحان بڑھنا دراصل شرک اور بدعات کے پھیلاؤ کی علامت
ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا "اور ان کے اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے
مگر یہ کہ شرک کرتے ہوئے۔"
(یوسف: 106)
نبی
ﷺ نے بدعات سے سختی سے منع فرمایا "جس نے ہمارے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا
جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔"
(بخاری)
درباروں کی آبادی کی وجوہات
1. جھوٹے معجزوں کا پرچار: کچھ لوگ خود کو ولی یا صاحبِ کرامت ظاہر کر کے عوام کو
گمراہ کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بیماریوں کو ٹھیک کر سکتے ہیں یا تقدیر
بدل سکتے ہیں، حالانکہ یہ سب دھوکہ ہے۔
2. لوگوں کی جہالت: دین کی صحیح تعلیمات
سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگ غلط عقائد اپنا لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بزرگوں کی
قبروں پر حاضری دینے سے ان کی مرادیں پوری ہوں گی۔
3. دنیاوی فائدے کی خواہش: کچھ لوگ اولیاء کے نام پر پیسہ کمانے والے اس کاروبار کو
فروغ دے رہے ہیں۔ وہ مزاروں پر چڑھاوے، نذریں اور چندے کی شکل میں لوگوں سے رقم
وصول کرتے ہیں۔
3. کیا لوگوں کا اعتماد اللہ کی ذات سے کم ہو
رہا ہے؟
قرآن
مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔" (الطلاق: 3) لیکن آج کل لوگ اللہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے جادو، ٹونے
ٹوٹکوں اور جھوٹے باباؤں کی طرف بھاگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ "بزرگ"
ان کے مسائل حل کر دیں گے، حالانکہ حقیقی مدد صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے۔
حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میری امت کے بعض لوگ مشرکین کی عبادت
گاہوں میں جا کر ان کی پرستش نہ کرنے لگیں۔" (بخاری) یہ
حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ قیامت کی نشانیوں میں سے
ہے۔
4. کیا شیاطین اور جھوٹے بابا اپنے مقاصد میں
کامیاب ہو رہے ہیں؟
اللہ
تعالیٰ نے قرآن میں شیطان کے وعدے کو بیان کیا "اور بیشک میں تیرے بندوں میں سے مقرر حصہ لوں
گا اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا۔" (النساء: 118-119) شیطان
کا مقصد انسانوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکانا ہے، اور آج وہ جھوٹے پیروں، فقیروں اور
باباؤں کے ذریعے اپنا کام کر رہا ہے۔
1. لوگوں کو گمراہ کرنا: وہ قرآن و حدیث کی بجائے اپنی من گھڑت تعلیمات پھیلا رہے
ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ کی قبر پر جا کر مانگو تو مراد پوری ہو جائے گی،
حالانکہ یہ سراسر شرک ہے۔
2. مال کمانے کا ذریعہ: وہ جھوٹے معجزوں کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف بنا کر پیسے
لوٹ رہے ہیں۔ وہ تعویذ، گنڈے اور ٹوٹکے بیچ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
5. دورِ حاضر میں لوگوں کا گمراہی کا شکار ہونا
1. دینی تعلیم کی کمی: مدارس اور مساجد میں اصلاحی تعلیمات کم ہو رہی ہیں۔ لوگوں
کو صحیح اسلامی تعلیمات نہیں دی جا رہیں، جس کی وجہ سے وہ غلط عقائد کی طرف مائل
ہو رہے ہیں۔
2. میڈیا کا غلط پرچار: ٹی وی اور سوشل میڈیا پر غلط عقائد کو فروغ دیا جا رہا
ہے۔ ڈراموں، فلموں اور ٹاک شوز میں جھوٹے معجزوں اور کرامات کو پیش کیا جاتا ہے،
جس سے عوام متاثر ہوتے ہیں۔
3. علماء کی کمزوری: کچھ علماء حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ حکمرانوں یا بااثر لوگوں کے خوف
یا لالچ میں دین کی صحیح تعلیمات نہیں بتاتے۔
6. کیا دین کے ٹھیکداروں نے امت کو فائدہ پہنچایا
یا نقصان؟
قرآن
مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی طرف بلائے۔" (آل عمران: 104)
لیکن
آج کل کچھ علماء:
1. حق بات چھپاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو شرک اور بدعات کے بارے میں نہیں بتاتے، کیونکہ
انہیں خوف ہوتا ہے کہ ان کی مقبولیت کم ہو جائے گی۔
2. حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے دین کو بدل دیتے ہیں۔ وہ حکومتوں کے مفاد میں فتویٰ
دیتے ہیں، جس سے دین میں تحریف ہوتی ہے۔
نبی
ﷺ نے فرمایا "یہود 71 فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ 72 فرقوں میں
بٹ گئے، اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ نجات پائے
گا۔" (ابو داؤد) آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان سیکڑوں فرقوں میں بٹ چکے ہیں،
اور ہر فرقہ دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے۔
7. تعلیماتِ اسلامی اور اتحاد کی ضرورت
اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے "اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔" (آل عمران: 103) مسلمانوں کو چاہیے کہ
وہ قرآن و سنت پر جمع ہو جائیں اور اختلافات کو ختم کریں۔ جب کہ دور حاضر میں دین کے ٹھیکدار لوگوں کو یہ فر ما رہے
ہیں کہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے سے گمراہ ہو جاؤ گے،
ائمہ اربعہ کا موقف
1. امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ: قرآن و سنت پر عمل کرنے پر زور دیا۔
2. امام مالک رحمہ اللہ: بدعات سے دور رہنے کی تلقین کی۔
3. امام شافعی رحمہ اللہ: اجماعِ امت کو اہمیت دی۔
4. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: حدیث کی پابندی کو لازم قرار دیا۔ ان ائمہ کے طریقے صحیح ہیں، لیکن آج لوگ ان کے راستے کو
چھوڑ کر نئے نئے فرقے بنا رہے ہیں۔
8. قیامت کی نشانیاں اور موجودہ حالات
1. مساجد کی زیبائش اور دل کی خرابی:
"اس امت پر ایک زمانہ آئے گا جب مسجدیں عمارت
میں تو خوبصورت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔" (بیہقی) آج مساجد سنہری گنبدوں اور میناروں سے سجی ہیں، لیکن نمازی
کم ہیں۔
2. جھوٹے مدعیانِ نبوت کا ظہور:
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک 30 دجال نہ آ جائیں۔"
(مسلم) آج
بھی کئی جھوٹے "مہدی" اور "مصلح" اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
مساجد
کے ویران ہونے اور درباروں کے آباد ہونے کی اصل وجہ دین سے دوری، شرک و بدعات کا
فروغ اور علماء کی کمزوری ہے۔ امت کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کی طرف لوٹے، اتحاد
قائم کرے اور گمراہ کن عقائد سے بچے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح راستہ دکھائے اور ہمیں
اپنی رحمت سے نوازے۔ آمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔