ظلمت
و گمراہی میں توبۃالنصوح کے مواقع اور امام مہدی کی آمد
(حصہ پنجم)
امام
مہدی کا تصور مسلمانوں کے درمیان ایک اہم عقیدہ ہے، جس کے مطابق قیامت سے قبل اللہ
تعالیٰ کی طرف سے ایک نجات دہندہ امام مہدی کی صورت میں بھیجا جائے گا، جو دنیا
میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرے گا اور گمراہی کے اندھیروں کو مٹائے گا۔ اس
عقیدے کی اہمیت اور مسلمانوں میں اس کے وسیع اثرات کی وجہ سے تاریخ میں مختلف
ادوار میں متعدد افراد نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔اور کئی لوگوں نے ان کے اس
دعوے کی تصدیق بھی کی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
1- عبداللہ بن سبا نے دعوی کی تھا کہ علی بن ابی
طالب مہدی منتظر ہیں اور اس کا خیال تھا کہ وہ دنیا میں واپس آئیں گے۔
2- مختار بن عبید ثقفی نے دعوی کیا کہ محمد بن
الحنفیہ جو سن 81 ہجری میں وفات پاگئے تھے۔ وہ مہد ی منتظر ہیں۔ محمد بن الحنفیہ
کا نام محمد بن علی بن ابی طالب ہے۔ انھیں ابن الحنفیہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان
کی والدہ خولہ بنت جعفر کا تعلق بنو حنیفہ کے قبیلے سے تھا۔
3- فرقہ کیسانیہ کے لوگ جو کہ حضرت علی کے آزاد
کردہ غلام کیسان کے پیروکار ہیں اور یہ بھی شیعوں کا ایک فرقہ ہے۔ ان کا عقیدہ ہے
کہ محمد بن الحنفیہ تمام علوم کا احاطہ کئے ہوئے تھے اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ دین
ایک شخص کی اطاعت کا نام ہے۔ انھوں نے ارکارن شرعیہ کی تاول کرتے ہوئے کہا ہے کہ
ان سے مراد رجال ہیں اور اس طرح انھوں نے ارکانِ شرعیہ کو معطل قرار دے دیا۔ اس
فرقے کا عقیدہ ہے کہ عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب ہاشمی
قریشی ہی مہدی ہیں۔
4- محمد بن عبداللہ بن حسن بن ابی طالب جن کا
لقب نفسِ زکیہ تھا اور جو سن 145 ہجری میں فوت ہوئے۔ یہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے
اور نمازیں پڑھنے والے عبادت گزار شخص تھے۔ ان کے عہد میں کچھ لوگ فتنے میں مبتلا
ہوگئے اور سمجھنے لگے کہ وہی امام مہدی ہیں۔ انھوں نے تحریک شروع کی اور کئی لوگ
ان کے پیروکار ہوگئے۔ انھوں نے حالات کی بہتری کے لئے کوشش کی۔ ان کے دور کے عباسی
خلفاء نے دس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل لشکر کے ساتھ لڑائی کی اور اس تحریک کو ختم کر
دیا۔ نفس زکیہ نے عباسی خلیفہ کے خلاف خروج کیاتھا کیونکہ اس کے دور میں ظلم
واستبداد بہت پھیل گیا تھا۔
5- مہدیت کا دعوی کرنے والوں میں ایک نام
عبیداللہ بن میمون القداح کا بھی ہے۔ اس نے سن 325 ہجری میں وفات پائی، اس کا دادا
یہودی تھا۔ عبیداللہ فرقہ قرامطہ کا بانی ہے جنھوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور
سن 317 ہجری میں حجراسود چراکر لے گئے۔ یہ لوگ کفرو الحاد میں یہودو نصاری سے بھی
دوقدم بڑھ کر تھے۔اس کی اولاد کو شہرت و اقتدار نصیب ہوا۔ انھوں نے مصر، حجاز اور
شام پر کنٹرول حاصل کر لیا اور وہاں اپنی حکومتیں قائم کیں۔ انھوں نے غلط بیانی
کرتے ہوئے خود کو اہل بیت سے منسوب کیا اور دعوی کیا کہ وہ سیدہ فاطمہ زہراء کی نسل
میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فاطمہ کہلائے۔ انھوں نے اپنے عہد اقتدار میں شافعی
مسلک کے تمام قاضیوں معزول کر دیا اور ہر جگہ قبروں اور مزاروں کو رواج دیا۔ ان کے
کرتوتوں کے باعث امت پر بے شمار مصیبتیں نازل ہوئیں۔ قرامطہ بظاہر مسلمان ہونے کا
دم بھرتے تھے لیکن حقیقت میں وہ ملحد تھے۔ یہ لوگ تمام مذاہب سے خارج تھے۔ ان کا
مذہب آگ کے پجاری مجوسیوں اور ستاروں کے پجاری صابیوں کے مذاہب سے مرکب ہے۔فاطمیوں
کا دور حکومت 280 برس سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ عبیداللہ القداح نے مہدی ہونے کا
دعوی کیا اور "مہدیہ " نامی شہر کی بنیاد رکھی۔"
6- مہدی ہونے کا دعوی کرنے والے محمد بن
عبداللہ بربری بھی ہے جو ابن تومرت کے نام سے معروف ہے۔ یہ شخص سن 514 ہجری میں
ظاہر ہوا اور اس نے دعوی کیا کہ وہ حضرت علی بن ابی طالب کی نسل سے ہے۔ اس اپنا
نسب حسن بن علی کے ساتھ جوڑلیا۔ اس آدمی نے ظلم واستبداد کے ذریعے حکومت بھی حاصل
کرلی۔ یہ بہت حیلے باز اور دھوکے باز انسان تھا جو لوگوں کو حیلے بازیوں کے ساتھ
دھوکا دیتا اور ان کے سامنے اظہار کرتا کہ اس کی بہت سی کرامات ہیں۔ اس کی ایک
حیلہ بازی یہ بھی تھی کہ اس نے ایک دفعہ کچھ لوگوں کو قبروں میں داخل کر دیا اور
کچھ لوگوں کو لے کر آیا تاکہ انھیں نشانی دکھائے۔ اس نے آواز دی کہ اے قبر والو! میری
بات کا جواب دو۔ انھوں نے کہا: آپ مہدی ہیں، معصوم عن الخطا ہیں اور آپ کی فلاں
خوبی ہے، آپ کی فلاں خوبی ہے، پھر اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں اس کے فراڈ کا راز فاش
نہ ہو جائے، اس لئے اس نے قبروں میں لیٹے ہوئے لوگوں پر قبریں دھنسا دیں اور وہ مر
گئے۔
7- ایک اور شخص محمد احمد بن عبداللہ سوڈانی
متوفی 1302 ہجری موافق 1885 عیسوی بھی ہے۔ یہ ایک صوفی تھا جس نے سوڈان پر غلبہ حاصل
کر لیا۔ وہ زہد و عبادت میں مشہور ہوا اور اس نے اڑتیس برس کی عمر میں مہدی ہونے
کا دعوی کیا۔ قبائل کے سردار اوربزرگ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ
جو شخص اس کی مہدیت کا انکار کرے گا وہ اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کا مرتکب ہوگا۔
وہ اس طرح کے اور بھی بے کار دعوے کیا کرتا تھا۔ اگرچہ انگریز عیسائیوں کے خالاف
جنگوں میں اس کے کچھ کارنامے بھی ہیں۔ تاہم امر واقع یہ ہے کہ وہ احادیث میں مذکور
مہدی موعود نہیں تھا بلکہ وہ بھی مہدیت کے دیگر دعویداروں کی مانند ایک جھوٹا دعویدار
تھا۔
8- روافض (شیعہ) کا عقیدہ ہے کہ وہ مہدی کے
منتظر ہیں۔ وہ ان کا بارہواں امام ہے۔ ان کے نزدیک اس کا نام محمد بن حسن عسکری
ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ وہ حسن بن علی کی اولاد سے نہیں بلکہ حسین بن علی کی اولاد
سے ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ امام ایک ہزار برس سے زیادہ عرصہ قبل سن دو سو ساٹھ
ہجری میں سامراء کے ایک غار میں داخل ہواتھا۔ جب وہ اس غار میں داخل ہوا تو اس کی
عمر پانچ برس تھی۔ وہ اس وقت سے اس غار میں زندہ ہے، اسے موت نہیں آئی اور وہ آخری
زمانے میں اسی غار سے باہر نکلے گا۔یہ امام ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ وہ لوگوں کے
حالات سے آگاہ ہے مگر ان کی نگاہوں سے غائب ہے اور اسے دیکھا ۔ جا سکتا۔ یاد رہے! ان کے یہ عقائد سراسر بے وقوفی
اور جہالت پر مبنی ہیں، کسی دلیل وبرہان اور عقل و استدلال سے اس کی تائید نہیں
ہوتی۔ پھر یہ عقیدہ انسانوں کے بارے میں اللہ کی سنت کے بھی خلاف ہے، اللہ رب
العزت کے انبیاء و رسل جو اس کی مخلوق میں سے افضل ترین انسان ہیں، انھیں تو اللہ
رب العزت فوت کر دے اور شیعوں کے مہدی کو ہزار برس سے زیادہ عرصے سے زندہ رکھے ، یہ کیسے ممکن ہے؟
اور اگر وہ زندہ ہے تو اس طویل مدت تک اس کے غائب ہونے اور چھپنے کی ضرورت کیا ہے؟
وہ باہر نکل کر لوگوں کے درمیان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام کیوں
نہیں دیتا۔ حالانکہ امت کو آج کے حالات میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ امام ابن کثیرؒ
فرماتے ہیں "اہل سنت کا مہدی بلادِ مشرق سے ظاہر ہوگا نہ کہ سامراء کے غار سے
جیسا کہ جاہل شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ آج بھی اس غار میں موجود ہے۔ وہ آخری زمانے
میں اس کے خروج کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ محض حماقت اور شیطان کی طرف سے شدید
گمراہی اور دھوکہ دہی ہے۔
اہم باتیں:
1- مہدی لوگوں کو اپنی ذات
کی طرف دعوت نہیں دے گا، نہ ہی اپنی بیعت کے لئے لوگوں کو پکارے گا۔ بلکہ لوگ اس
کی بیعت کریں گے اور وہ اسے ناپسند کرتا ہوگا۔
2- مہدی کا نام نبی کریم
ﷺ کے نام کے مطابق ، یعنی اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔
3- اس کا نسب سیدنا حسن
بن علی تک پہنچتا ہوگا۔
4- وہ چوڑی پیشانی والا
اور انچی ناک والا ہوگا۔
5- وہ جن حالات میں ظاہر
ہوگا ، وہ کچھ اس طرح سے ہوں گے۔
a. ایک خلیفہ کی وفات کے
بعد اختلاف واقع ہوگا۔
b. زمین میں اس وقت ظلم
وجور سے بھر چکی ہوگی۔
c. تین خلفاء کے بیٹے
آپس میں جنگ کریں گے۔
d. مہدی ایک نیک اور
متقی شخص ہوگا۔ وہ علم شریعت اور حکمت و دانش سے لبریز ہوگا۔
6- اس کا ظہور مکہ مکرمہ
میں ہوگا اور حجراسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کی بیعت کی جائے گی۔
this article is informative
جواب دیںحذف کریںAllah humary gunnah maaf farmay
جواب دیںحذف کریں