اذان
اسلام کے بنیادی شعائر میں سے ایک ہے جو مسلمانوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینے کے
لیے دی جاتی ہے۔ یہ عمل نبی کریم ﷺ کے زمانے سے شروع ہوا اور صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین نے بھی اسے اسی ترتیب سے ادا کیا جسے نبی ﷺ نے سکھایا۔ لیکن کچھ
علاقوں میں اذان سے پہلے درود پڑھنے کا عمل شروع ہوا، جو بعد کے ادوار میں مخصوص
مکاتب فکر کے پیروکاروں میں رواج پا گیا۔
اذان
سے پہلے درود پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ موذن اذان دینے سے قبل نبی کریم ﷺ پر درود و
سلام بھیجے۔ یہ عمل بعض مسلم معاشروں میں رائج ہے، جہاں اذان سے کچھ لمحے قبل لاؤڈ
اسپیکر یا مسجد میں درود و سلام بلند کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر اذان کا باقاعدہ
آغاز کیا جاتا ہے۔
تاریخی
طور پر یہ عمل نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں نہیں پایا جاتا تھا۔ اس کا
باقاعدہ آغاز بعد کے ادوار میں ہوا، جب اسلامی فتوحات اور مسلمانوں کے مختلف
علاقوں میں پھیلنے کے ساتھ مختلف روایات اور رسوم دین میں شامل ہونے لگیں۔ اس کے
کوئی واضح شواہد ہمیں صحابہ کرام، تابعین یا تبع تابعین کے دور سے نہیں ملتے۔
اذان
سے پہلے درود پڑھنے کا عمل زیادہ تر بریلوی مکتبہ فکر میں پایا جاتا ہے۔ بریلوی
علماء کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ایک مستحب عمل ہے اور اس کا
فائدہ حاصل کرنے کے لئے اسے اذان سے پہلے پڑھنا جائز ہے۔
صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیمات میں اذان سے پہلے درود پڑھنے کا کوئی ذکر نہیں
ملتا۔ اذان کا جو طریقہ اور ترتیب نبی کریم ﷺ نے مقرر کی تھی، وہی صحابہ کرام کے
ذریعے بعد میں منتقل ہوا۔ اذان کے بعد درود پڑھنے کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے،
جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"جب تم اذان سنو تو
مؤذن جو کہے تم بھی وہی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو۔" اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کے بعد درود
پڑھنا مستحب ہے، لیکن اذان سے پہلے درود پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
برصغیر
پاک و ہند میں اذان سے پہلے درود پڑھنے کا رواج پچھلی چند صدیوں میں زیادہ بڑھا
ہے۔ یہاں بریلوی مکتبہ فکر کے پیروکاروں میں یہ عمل زیادہ رائج ہے، اور اسے ایک
محبت و عقیدت کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ اس عمل کے فروغ میں عوامی اور علماء کے درمیان
محبتِ رسول ﷺ کے جذبات کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ رجحان عوامی سطح
پر مضبوط ہوتا چلا گیا۔
اسلام
میں اصل عبادات اور اعمال وہی ہیں جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ اذان
سے پہلے درود پڑھنے کا کوئی واضح ثبوت قرآن یا صحیح احادیث سے نہیں ملتا۔ فقہاء کا
اس بارے میں کہنا ہے کہ عبادات میں کسی نئی رسم یا اضافے کو "بدعت" کہا
جاتا ہے۔
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا:"جس نے ہمارے اس دین میں
کوئی نیا عمل ایجاد کیا جو اس سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔" علماء کے
مطابق چونکہ یہ عمل نبی ﷺ اور صحابہ سے ثابت نہیں، اس لیے اسے بدعت شمار کیا جا
سکتا ہے۔
1. مسلک بریلوی:
بریلوی
مکتبہ فکر کے علماء کا کہنا ہے کہ اذان سے پہلے درود پڑھنا مستحب ہے کیونکہ درود و
سلام کی اہمیت اسلام میں بہت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اذان سے پہلے درود پڑھنا
ایک جائز عمل ہے اور اس سے محبتِ رسول ﷺ کا اظہار ہوتا ہے۔
2. مسلک دیوبندی:
دیوبندی
علماء کا موقف یہ ہے کہ اذان سے پہلے درود پڑھنا بدعت ہے کیونکہ یہ عمل نبی کریم ﷺ
اور صحابہ سے ثابت نہیں۔ ان کے مطابق اذان کا جو طریقہ مقرر ہے، اس میں کوئی اضافہ
یا تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
3. مسلک اہل حدیث:
اہل
حدیث علماء اس عمل کو بدعت شمار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دین میں کسی نئے عمل
کو شامل کرنا جس کا ثبوت قرآن و سنت میں نہ ہو، وہ مردود ہے۔
4. مسلک اہل تشیع:
مسلک
اہل تشیع میں اذان کے چند اضافی کلمات شامل کیے جاتے ہیں جنہیں اہل سنت کے مقابلے
میں مختلف سمجھا جاتا ہے۔ اہل تشیع کی اذان میں "اشہد ان علیاً ولی
اللہ" (میں گواہی دیتا ہوں کہ علی اللہ کے ولی ہیں) اور بعض مواقع پر "حی
علی خیر العمل" (نیک عمل کی طرف آؤ) کے کلمات شامل ہوتے ہیں۔ ان اضافی کلمات
کا مقصد حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور اہل بیت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
اہل
تشیع کے نزدیک اذان ایک مقدس عمل ہے اور اس میں حضرت علیؑ کی ولایت کا ذکر دین کے
بنیادی عقائد کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ اضافی کلمات اہل تشیع کے دینی عقائد کے
عکاس ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ کلمات رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف نہیں،
بلکہ اہل بیت کی محبت اور عقیدت کا اظہار ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت علیؑ کی ولایت دین
کا حصہ ہے، اور اس کا ذکر اذان میں شامل کرنے سے دین کی اصل روح برقرار رہتی ہے۔
اہل
تشیع کے نزدیک اذان میں "اشہد ان علیاً ولی اللہ" کا اضافہ اہل بیت کی
محبت اور عقیدت کا اظہار ہے، لیکن وہ اسے اذان کا لازمی حصہ نہیں سمجھتے۔ یہ اضافی
کلمات مستحب سمجھے جاتے ہیں اور اسے لازمی نہیں کہا جاتا، بلکہ یہ عقیدت کا اظہار
ہے۔
اہل
سنت والجماعت کے نزدیک اذان کا جو طریقہ نبی کریم ﷺ نے سکھایا ہے، اس میں ان اضافی
کلمات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اہل سنت کے علماء اور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ
اذان میں ان کلمات کا اضافہ نبی ﷺ کے طریقے سے انحراف ہے، اور انہیں اذان کا حصہ
نہیں سمجھا جاتا۔
اہل
سنت کے علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اذان کا جو طریقہ نبی کریم ﷺ نے مقرر فرمایا
تھا، اس میں کوئی تبدیلی یا اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے نزدیک اذان کے کلمات وہی
ہونے چاہئیں جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ اس حوالے سے ایک مشہور حدیث
ہے:"نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے اس دین
میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔" اس حدیث کی روشنی میں اہل سنت والجماعت کے
علماء اذان میں کسی بھی نئے کلمات کا اضافہ بدعت شمار کرتے ہیں اور اسے دین میں
ناپسندیدہ عمل قرار دیتے ہیں۔
مسلک
اہل تشیع کی اذان میں اضافی کلمات کا شامل کرنا ان کے مخصوص عقائد اور حضرت علیؑ کی
ولایت پر ایمان کی بنیاد پر ہے۔ تاہم، اہل سنت کے نزدیک یہ عمل نبی کریم ﷺ کی تعلیمات
اور اذان کے اصل طریقے سے مختلف ہے اور اسے بدعت شمار کیا جاتا ہے۔ دونوں مکاتب
فکر کے ماننے والے اس معاملے میں اپنے عقائد کی روشنی میں عمل کرتے ہیں، اور اس
موضوع پر اختلاف صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔
جہاں
تک درود و سلام کا تعلق ہے، اسلام میں نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ایک مستحب اور
اہم عمل ہے، لیکن اذان کے مخصوص عمل میں اضافے کی اجازت نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں
ہے، لہذا اس حوالے سے بدعت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔اسلام میں بدعات سے بچنے کے
لئے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں عمل کیا جائے اور وہی طریقے اپنائے جائیں
جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ ہر نئے عمل یا رسم کو دین میں شامل
کرنا بدعت شمار ہو سکتا ہے، جس سے بچنے کی تعلیم قرآن اور صحیح احادیث میں دی گئی
ہے۔
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا:"سب سے بدترین امور نئے
امور ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
اذان
سے پہلے درود پڑھنے کا عمل نہ تو قرآن سے ثابت ہے، نہ ہی نبی کریم ﷺ کی سنت سے۔ اس
کا آغاز بعد کے ادوار میں ہوا اور بعض مکاتب فکر نے اسے اپنایا۔ اسلام میں بدعت سے
بچنے کی تعلیم دی گئی ہے، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم صرف ان اعمال کو اپنائیں
جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ سے ثابت ہیں۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا،
Ye to humaray sath wali masjid main bhi hota hai...5 waqat azan k time pehly salat wa darood parha kar phr azan dete hai
جواب دیںحذف کریں