google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 28 درباروں پر چڑھاوے چڑھانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

بدھ، 13 نومبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 28 درباروں پر چڑھاوے چڑھانا



درگاہوں پر چڑھاوے چڑھانا ایک ایسا عمل ہے جس میں لوگ قبروں یا بزرگانِ دین کے مزارات پر مالی نذرانے، کھانا، چادر یا دیگر اشیاء پیش کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ یہ عمل اُن کے دینی یا دنیوی معاملات میں برکت یا حل کا ذریعہ بنے گا۔

 

اسلام سے قبل، عرب میں دورِ جاہلیت کے زمانے میں مشرکین مکہ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بتوں، درختوں اور مختلف مقدس مقامات پر قربانیاں پیش کیا کرتے تھے۔ ان کے اس عمل کی بنیاد ایک توہم پرستی اور خدا کے بجائے مخلوق سے حاجت طلبی تھی۔

 

قرآن میں اللہ رب العزت نے سختی سے ارشاد فرمایا "تم اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں کی پوجا کرتے ہو، جبکہ ان کا نہ تمہیں کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی نقصان۔"

 

اسلامی تعلیمات کے مخالف اس عمل کا آغاز دورِ جاہلیت میں ہی ہوچکا تھا، لیکن بعد ازاں مختلف ادوار میں مخصوص فرقوں اور مسلکوں کے ذریعہ اس کو مسلمانوں میں عام کیا گیا۔ اس عمل کی ابتدا کا صحیح مقام و زمانہ جاننا تو مشکل ہے، تاہم تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں تصوف کے ذریعے درگاہوں اور مزارات کے تقدس کا تصور زیادہ مقبول ہوا۔

 

یہ عقیدہ زیادہ تر ان فرقوں میں پروان چڑھا، جن میں اولیاء اللہ اور بزرگوں کو ایک خاص مقام دیا جاتا ہے اور ان سے فیض یا مدد طلب کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔ البتہ اہلِ سنت والجماعت اور اہلِ تشیع میں بعض فرقے اس میں ملوث ہیں، تاہم اس کی جوازیت اور حدود میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

 

درگاہوں پر چڑھاوے چڑھانا آج کے دور میں بعض لوگوں کے لئے ایک نفع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ زائرین کی بڑی تعداد، خصوصاً جنوبی ایشیاء میں، ایسے مزارات پر حاضری دیتی ہے اور نذرانے چڑھاتی ہے۔ اس سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

 

جنوبی ایشیائی ممالک (پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش) میں درگاہوں پر چڑھاوے چڑھانے کا رجحان وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔ مختلف مذہبی میلوں، عرسوں اور دیگر مواقع پر بڑی تعداد میں لوگ یہ عمل کرتے ہیں۔ اس رجحان میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کی بڑی وجہ اس کے ساتھ جڑی عوامی عقیدت اور توہمات ہیں۔

 

اسلام نے کسی بھی قسم کی حاجات اور حاجت روائی کے لئے صرف اور صرف اللہ سے مانگنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن اور احادیث میں کسی اور کے سامنے جھکنے یا نذرانہ چڑھانے کی سختی سے ممانعت ہے۔

 

جیسے کہ قرآن مجید میں حکم فرمایا گیا  "اور (اے نبی) کہہ دو کہ میرے رب سے دعا کرو، وہی ہے جو تمہاری دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔"

 ارشاد نبوی ﷺ : جب تم مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے مدد چاہو۔"

 

ائمہ کرام نے اس بدعت کو ناجائز اور ممنوع قرار دیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیمؒ جیسے بزرگوں نے اس عمل کو اسلامی عقائد کے خلاف اور شرک کی طرف جانے والا قدم قرار دیا۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک، اولیاء اللہ کے مزارات پر چڑھاوے چڑھانا اور اس سے برکت کی امید رکھنا اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔

  

1. ہندوازم میں اس بدعت کا تصور:

ہندوازم میں "چڑھاوے" یا "نذرانے" کی ایک طویل تاریخ ہے، جہاں لوگ مختلف معبودوں، دیوتاؤں اور مندروں میں قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ ہندؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ نذرانے معبودوں کی رضا حاصل کرنے، گناہوں کو مٹانے اور خوشحالی کی دعا کرنے کے لئے دیے جاتے ہیں۔ مختلف دیوتاؤں کے سامنے نذرانے چڑھانے کا تصور بہت گہرا ہے، جیسے گائے کا دودھ، پھول، مٹھائیاں، پھل وغیرہ دیے جاتے ہیں۔

 مذہبی نذر و نیاز: نذر و نیاز کے ذریعے ہندؤں کا ماننا ہے کہ یہ عمل خدا یا دیوتا کی رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

 

2. بدھ مت میں اس بدعت کا تصور:

بدھ مت میں بھی نذرانے پیش کرنے کا تصور موجود ہے، مگر اس کا مقصد زیادہ تر عبادات اور روایات کے ذریعے برکت اور روحانی ترقی کی جانب ہے۔ بدھ مت کے پیروکار بیشتر اپنے مذہبی پیشواؤں، منادر یا بدھ کی مورتوں کے سامنے دودھ، پھول یا دیگر چیزیں پیش کرتے ہیں۔ یہاں بھی مقصد، کم از کم ایک سطح پر، تقدس کا حصول اور روحانی فائدہ ہی ہوتا ہے۔

 رہبانیت: بدھ مت میں بھی کچھ فرقے مذہبی پیشواؤں کو چڑھاوے دیتے ہیں، مگر یہ عمل نیک عمل کی تکمیل کے لیے نہیں بلکہ روحانی فوائد کے لئے ہوتا ہے۔

 

3. زرتشت (پارسیک مذہب) میں اس بدعت کا تصور:

زرتشت مذہب میں بھی قربانی اور چڑھاوے چڑھانے کا تصور پایا جاتا ہے۔ زرتشتی اپنے دیوتا "اہورا مزدا" کی رضا کے لئے مختلف قربانیاں دیتے ہیں، جن میں آگ کی پوجا اور گلابوں جیسے پھولوں کی قربانی شامل ہوتی ہے۔ یہاں بھی چڑھاوے کا مقصد دیوتا کی رضا، گناہوں کا کفارہ اور روحانی صفائی ہے۔

 آگ کی پوجا: زرتشت کے پیروکار آگ کو پاکیزگی کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور اس کے سامنے نذرانے پیش کرتے ہیں۔


4. اہلِ یہود میں اس بدعت کا تصور:

اہلِ یہود کے مذہب میں بھی قربانیوں کا ایک طویل تاریخ ہے، خاص طور پر ہیکلِ سلیمانی میں۔ وہ خدا کے سامنے قربانی پیش کرتے تھے تاکہ گناہوں کا کفارہ ہو اور اللہ کی رضا حاصل ہو۔ یہودیوں کی عبادت میں، مکہ مکرمہ کی طرح، مخصوص ایام میں قربانیاں دینے کا عمل اب بھی موجود ہے۔

 قربانیوں کا اہمیت: قربانیوں کا تصور بنیادی طور پر خدا کی رضا اور گناہوں کی معافی کے لیے تھا، خاص طور پر عید الاضحی کے دن قربانیاں دی جاتی تھیں۔

 

5. عیسائیوں میں اس بدعت کا تصور:

عیسائیوں میں قربانی کا عمل یسوع علیہ السلام کی قربانی کے بعد تبدیل ہوچکا ہے۔ تاہم، کچھ عیسائی فرقے اب بھی اپنی عبادات کے دوران مصلحوں یا سانڈوں کی قربانی دیتے ہیں، خاص طور پر روایات میں۔ بعض عیسائی عقیدے میں، مقدس مقامات پر چڑھاوے پیش کرنا یا نذرانے دینا ایک علامتی عمل سمجھا جاتا ہے۔

 عیدوں کی قربانیاں: عیسائی دنیا میں، خاص طور پر عید کے موقع پر، چڑھاوے پیش کرنے کا عمل بعض ثقافتوں میں موجود ہے۔


 ان مذاہب میں چڑھاوے چڑھانے کا مقصد اور اصول:

تمام مذکورہ مذاہب میں چڑھاوے چڑھانے کا مقصد تقربِ الٰہی، روحانیت میں اضافہ، گناہوں کی معافی اور فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ تاہم، ان کے درمیان اختلافات یہ ہیں کہ کچھ مذاہب میں چڑھاوے کے ذریعے خدا سے براہِ راست تعلق قائم کرنے کا تصور نہیں ہوتا بلکہ یہ تقدس کی ایک علامت یا عمل ہوتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب میں یہ عمل کسی نہ کسی مخلوق یا الہٰی وجود سے حاجت طلبی کے مترادف ہوتا ہے۔

 

 اسلام کا ان مذاہب سے اختلاف:

اسلام میں تمام انبیاء و رسولوں کی تعلیمات اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کے سوا کسی سے حاجت نہیں طلب کرنی چاہیے اور کسی بھی مخلوق کو نذرانہ چڑھانا یا اُس سے مدد طلب کرنا بالکل ناجائز ہے۔

 قرآن مجید: "اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا، اللہ اس کے بدلے ایک قوم کو لے آئے گا، جو اللہ کی رضا کی خاطر اس سے محبت کرے گی اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔"

 ارشاد نبوی ﷺ  "تمہاری عبادت صرف اللہ کے لئے ہونی چاہیے، اور کسی مخلوق کے ساتھ اس میں شریک نہ کرو۔"

 لہٰذا، اسلام میں کسی بھی قسم کے چڑھاوے چڑھانے کو ناجائز سمجھا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بزرگ کی قبر پر ہو یا کسی دوسرے روحانی یا مذہبی مقام پر۔

 اس بدعت سے کیسے بچیں؟

 توحید کی مضبوطی: اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان اور اسی سے ہر چیز مانگنا۔

 علم کا حصول: قرآن و حدیث کی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا۔

 شرک سے بچاؤ: شرک سے بچنے کے لئے نیک اور صحیح العقیدہ لوگوں کے ساتھ رہنا اور شرک سے اجتناب کرنا۔

 مساجد میں عبادت: اپنی حاجات کے لئے اللہ کے گھر یعنی مساجد کا رخ کرنا اور وہاں دعا کرنا۔

 

تمام مذکورہ مذاہب میں چڑھاوے چڑھانے کا تصور موجود ہے، لیکن اسلام میں اس کی شدید مخالفت کی گئی ہے، کیونکہ یہ عمل توحید کے خلاف ہے اور شرک کی طرف لے جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو اس بدعت سے بچنا ضروری ہے اور اپنی عبادات اور نذرانے صرف اللہ کے لئے مختص رکھنے چاہئیں۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو