google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 42 لوگوں میں بے حیائی پھیلانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

بدھ، 18 دسمبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 42 لوگوں میں بے حیائی پھیلانا



 

دینِ اسلام کی پاکیزگی اور اس کے اصولوں کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن بدقسمتی سے مختلف ادوار میں بدعتی عناصر نے اس پاکیزہ دین پر مختلف طریقوں سے حملے کیے ہیں۔ ان میں سے ایک انتہائی سنگین اور خطرناک حملہ معاشرے میں بے حیائی اور اخلاقی گراوٹ کو فروغ دینا ہے۔ بے حیائی کو پھیلانا صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ دین کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد اسلامی اقدار اور تہذیب کو کمزور کرنا ہے۔ جب معاشرے میں بے حیائی عام ہو جاتی ہے، تو ایمان کی کمزوری اور روحانی گراوٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں افراد کا دین سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے اور وہ دین کے بنیادی اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ بدعتی عناصر کی یہ کوشش دین کے روشن چہرے کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔

 

معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں فحاشی پر مبنی مواد کی تشہیر، میڈیا کے ذریعے غیر اسلامی طرزِ زندگی کو عام کرنا، اور مذہبی تعلیمات کا مذاق اڑانا شامل ہے۔ یہ تمام عوامل نوجوان نسل کو اپنی شناخت سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حملوں کے ذریعے بدعتی عناصر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دین اسلام کے اصول قدیم اور فرسودہ ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلامی تعلیمات ہر دور میں انسانیت کے لیے بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ بے حیائی کو پھیلانے والے افراد اور گروہ نہ صرف اپنے اعمال کے ذریعے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں، جو ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے کا سبب بنے گا۔

 

ایسے حالات میں امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔ ہمیں اپنے گھروں، اسکولوں، اور معاشرتی حلقوں میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں بے حیائی کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ بے حیائی کے فروغ کے خلاف مضبوط موقف اپنانا اور معاشرتی اصلاح کی تحریکوں کو تقویت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ علماء، والدین، اور تعلیمی ادارے سب کو مل کر اس فتنے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بے حیائی کے خلاف جدوجہد صرف ظاہری اقدامات تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ دلوں کی اصلاح اور اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ یہی دین کی حفاظت کا حقیقی راستہ ہے۔

 

بے حیائی سے مراد وہ تمام اعمال، رویے، اور نظریات ہیں جو اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہیں اور انسان کو گناہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں بے حیائی کو فواحش کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور اس سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی نہ جاؤ، جو ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔"احادیث میں بھی بے حیائی کے کاموں کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔"بے حیائی پھیلانے میں فحش کلامی، غیر اخلاقی لباس، میڈیا پر غیر مناسب مواد کی تشہیر، اور اسلامی اقدار کے خلاف کام شامل ہیں۔

 

بے حیائی کے فروغ کی ابتدا قدیم دور سے ہوئی، جب انسان نے اللہ کی تعلیمات کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کو ترجیح دی۔ دورِ جاہلیت میں عرب معاشرہ بے حیائی کے کئی مظاہر کا شکار تھا، جیسے عورتوں کے حقوق کی پامالی، فحاشی، اور بدکاری۔ قرآن نے اس کی سخت مذمت کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "بے شک وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔"

 

یہ کہنا درست نہیں کہ کسی ایک خاص مسلک نے بے حیائی کو فروغ دیا ہے۔ تاہم، کچھ نظریاتی گروہوں اور عناصر نے بے حیائی کو عام کرنے میں کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو دین کے احکامات کو جدیدیت کے نام پر نظر انداز کرتے ہیں۔ علماء کے مطابق، انفرادی اعمال اور رویے دین کے مسلکی اختلافات سے زیادہ اہم ہیں۔

 

دورِ جاہلیت میں بے حیائی عام تھی، خصوصاً عرب قبائل میں۔ عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا، فحاشی عام تھی، اور غیر اخلاقی رسوم رائج تھیں۔ اسلام نے ان تمام برائیوں کو ختم کرکے ایک پاکیزہ اور باوقار معاشرہ قائم کیا۔

 

پاکستان میں مزارات اور درباروں کے حوالے سے بے حیائی یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کے فروغ کے الزامات عموماً انفرادی واقعات یا مخصوص لوگوں کے رویوں پر مبنی ہوتے ہیں، نہ کہ کسی خاص مزار کی پالیسی یا مقصد کے تحت۔ تاہم، ایسے دعوے اکثر مبہم ہوتے ہیں اور ان کی تصدیق یا ثبوت ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی مزار کو براہ راست ایسے الزامات سے منسوب کرنا مناسب نہیں جب تک کہ ٹھوس شواہد نہ ہوں۔

1.    ثقافتی تقریبات میں موسیقی اور رقص:کچھ مشہور عرس تقریبات، جیسے حضرت شاہ حسین (مادھو لال حسین) کے عرس پر، ثقافتی رقص اور موسیقی کے مظاہروں کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ایسی سرگرمیوں کو بعض لوگ مذہبی تعلیمات کے خلاف تصور کرتے ہیں، جبکہ دیگر اسے ثقافتی اظہار سمجھتے ہیں۔

2.    خواتین کے لباس یا رویوں پر اعتراضات:کچھ مزارات پر زائرین کے لباس یا رویوں پر اعتراض کیا جاتا ہے، جو بعض حلقے غیر اخلاقی سمجھتے ہیں۔یہ مسئلہ اکثر مزارات کے بجائے افراد کی ذاتی حرکات سے جڑا ہوتا ہے۔

3.    دکانوں اور بازاروں میں غیر مناسب سرگرمیاں:مزارات کے آس پاس لگنے والے میلوں یا بازاروں میں غیر ضروری میل جول یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کی شکایات بھی سامنے آتی ہیں۔

 

کچھ مشہور مزارات کے نام:

1.    حضرت شاہ حسین (مادھو لال حسین)، لاہور

2.    حضرت لال شہباز قلندر، سیہون شریف

3.    حضرت شاہ شمس تبریز، ملتان

4.    حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، پاکپتن

5.    حضرت داتا گنج بخش، لاہور

غور کرنے کی بات:

1.    ان مزارات پر ہونے والی سرگرمیاں اکثر زائرین کے رویوں اور ثقافتی ترجیحات کی عکاس ہوتی ہیں، نہ کہ ان مزارات کے منتظمین کی جانب سے کسی شعوری فروغ کا حصہ۔

2.    مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے حکومتی اور مقامی انتظامیہ کو مزید مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں

 

جنوبی ایشیا میں بے حیائی کے فروغ کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مغربی ثقافت کا اثر، سوشل میڈیا کا غلط استعمال، اور اسلامی تعلیمات سے دوری شامل ہیں۔ ان ممالک میں فحش مواد کی تشہیر اور غیر اخلاقی پروگرامز نے نوجوان نسل پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔

 

دیگر مذاہب میں بھی بے حیائی کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ عیسائیت میں اخلاقی اقدار کی تعلیم دی گئی ہے، اور بائبل میں فحاشی کی مذمت کی گئی ہے۔ ہندو دھرم میں بھی بعض اخلاقی اصول موجود ہیں، لیکن بعض رسوم اور روایات بے حیائی کی اجازت دیتی ہیں۔

زرتشت مذہب میں اخلاقیات پر زور دیا گیا ہے، اور بے حیائی کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ بدھ ازم میں بھی پاکیزگی اور اخلاقیات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، لیکن عملی طور پر بعض روایات میں بے حیائی کو نظر انداز کیا گیا۔

 

اسلام میں بے حیائی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن اور احادیث میں بارہا اس کے خلاف واضح ہدایات موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔"

 

ائمہ کرام نے بے حیائی کے خاتمے کے لیے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل سب نے بے حیائی کے خلاف واضح احکامات دیے ہیں۔

 

ہر مسلک کے علماء نے بے حیائی کے خاتمے پر زور دیا ہے۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اور اہل تشیع سب کا اتفاق ہے کہ بے حیائی کے فروغ کے خلاف جہاد کرنا ضروری ہے۔ احمدیہ مسلک میں بھی اخلاقیات پر زور دیا جاتا ہے، لیکن ان کے نظریات دیگر مسالک سے مختلف ہیں۔

 

اس گناہ سے کیسے بچیں؟

بے حیائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ:

1.    قرآن اور سنت کی تعلیمات کو اپنایا جائے۔

2.    اسلامی لباس اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جائے۔

3.    میڈیا کے غیر اخلاقی مواد سے اجتناب کیا جائے۔

4.    بچوں کو دینی تعلیم دی جائے۔

5.    علماء کے ساتھ رابطہ رکھ کر اپنی اصلاح کی جائے۔یہی وہ طریقے ہیں جو ہمیں بے حیائی سے بچا سکتے ہیں اور اسلامی معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو