دین
اسلام کی پاکیزگی اور سچائی کو برقرار رکھنے کے لیے قرآن و سنت کے صحیح فہم کو
اپنانا ضروری ہے۔ تاہم، دین پر بدعتی حملوں میں سے ایک اہم اور خطرناک حملہ
"من گھڑت حدیثیں پھیلانا" ہے۔ یہ عمل نہ صرف دین کی اصل تعلیمات کو مسخ
کرتا ہے بلکہ مسلمانوں کے عقائد اور اعمال کو بھی گمراہی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ من
گھڑت احادیث وہ روایات ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، لیکن ان کی
کوئی اصل نہیں ہوتی اور ان کا مقصد عموماً کسی مخصوص نظریے کو فروغ دینا یا عوام
کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ جھوٹی روایات اکثر دینی مسائل کے حل کے لیے پیش کی جاتی
ہیں یا کسی مخصوص شخصیت، فرقے یا گروہ کے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال ہوتی
ہیں۔ نتیجتاً، عوام الناس کے لیے حق اور باطل میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور
وہ قرآن و سنت کی حقیقی روح سے دور ہو جاتے ہیں۔
من
گھڑت حدیثوں کا پھیلاؤ دین کی پاکیزگی پر ایک بڑا حملہ ہے، کیونکہ یہ نہ صرف دین
کی سچائی کو مشکوک بناتا ہے بلکہ امت مسلمہ کو فکری انتشار اور عملی گمراہی میں
مبتلا کر دیتا ہے۔ ان احادیث کے ذریعے بعض افراد یا گروہ اپنے خودساختہ نظریات کو
تقویت دیتے ہیں اور عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ دین کا حصہ ہیں۔ اس عمل سے نہ
صرف لوگوں کا اعتماد دین پر کمزور ہوتا ہے بلکہ وہ ایسی عبادات اور اعمال کو
اپنانے لگتے ہیں جن کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ بدعتی عمل قرآن کے اس
حکم کے خلاف ہے جس میں جھوٹ گھڑنے والوں کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے: "اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر
جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے؟" ۔ ان حالات میں علماء کرام پر یہ ذمہ داری
عائد ہوتی ہے کہ وہ من گھڑت حدیثوں کی نشاندہی کریں، صحیح اور مستند احادیث کو عام
کریں، اور عوام کو دین کے حقیقی فہم کی طرف راغب کریں۔ دین اسلام کی اصل روح کو
محفوظ رکھنے کے لیے من گھڑت احادیث کے خلاف شعور بیدار کرنا اور ان کے اثرات سے
بچنے کے لیے قرآن و سنت کے علم کو فروغ دینا ضروری ہے۔
من
گھڑت حدیثیں وہ جھوٹی روایات ہیں جو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں، حالانکہ
ان کا کوئی حقیقی تعلق آپ ﷺ کے اقوال، اعمال یا تعلیمات سے نہیں ہوتا۔ ایسی احادیث
کو "موضوع احادیث" بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مقصد اکثر دین میں نئی رسومات
یا عقائد کا اضافہ کرنا، کسی مخصوص گروہ یا شخصیت کو فائدہ پہنچانا، یا عوام الناس
کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹ گھڑنے والوں کے لیے سخت
وعید بیان کی ہے: "اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر
جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے" ۔
من
گھڑت احادیث کا معاملہ کسی مخصوص مسلک سے وابستہ نہیں بلکہ یہ مختلف ادوار میں
مختلف گروہوں کے ذریعے پھیلائی گئی ہیں۔ تاہم، بعض فرقوں میں ایسی روایات زیادہ
عام ہو جاتی ہیں جو ان کے مخصوص نظریات یا عقائد کو تقویت دیتی ہیں۔ مسلک بریلوی،
اہل تشیع، اور صوفی عقائد کے حامل بعض افراد کے ہاں ایسی جھوٹی روایات پائی جاتی
ہیں جو اولیاء کرام کے معجزات، قبروں پر عبادت، اور دیگر رسومات کو جائز ثابت کرنے
کے لیے بیان کی جاتی ہیں۔ اسی طرح، بعض دیگر مسالک بھی اپنے نظریات کو درست ثابت
کرنے کے لیے ایسی احادیث کا سہارا لیتے ہیں جن کی سند مشکوک ہوتی ہے۔
من
گھڑت احادیث کا آغاز اسلام کے ابتدائی دور کے بعد ہوا، خاص طور پر جب خلافت میں
سیاسی اختلافات پیدا ہوئے۔ اموی اور عباسی ادوار میں بعض گروہوں نے اپنے نظریات کو
تقویت دینے کے لیے جھوٹی احادیث ایجاد کیں۔ سیاسی معاملات، فرقہ واریت، اور فقہی
اختلافات اس بدعت کے فروغ کے بڑے اسباب بنے۔ امام بخاری اور دیگر محدثین نے اس
فتنے کے خلاف بھرپور کام کیا اور صحیح اور موضوع احادیث کو الگ کرنے کا عظیم کام
انجام دیا۔
دورِ
جاہلیت میں جھوٹ اور غلط باتوں کو دین میں شامل کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا کیونکہ
اس وقت دین اسلام موجود نہیں تھا۔ تاہم، جاہلیت کے زمانے میں مشرکانہ رسومات اور
جھوٹے عقائد عام تھے۔ اسلام نے آکر ان تمام جھوٹے عقائد اور رسومات کا خاتمہ کیا
اور دین کو خالص اور پاکیزہ بنیادوں پر قائم کیا۔ من گھڑت احادیث کا ظہور اسلام کے
بعد ان افراد کے ذریعے ہوا جو دوبارہ جاہلیت کی جھوٹی رسومات کو دین میں شامل کرنے
کی کوشش کر رہے تھے۔
جنوبی
ایشیا میں من گھڑت احادیث کا رجحان کئی صدیوں سے جاری ہے۔ یہ بدعت خاص طور پر عوام
میں مقبول رسوم و رواج کو مذہبی رنگ دینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ درباروں،
عرس، اور مزارات پر جھوٹی احادیث کے ذریعے نذرانے، چادریں چڑھانے، اور دیگر غیر
اسلامی اعمال کو فروغ دیا جاتا ہے۔ عوام کی دینی تعلیمات سے لاعلمی اور علماء کی
خاموشی اس بدعت کے پھیلاؤ کے اسباب میں شامل ہیں۔
درباروں
اور عرس کے موقعوں پر اکثر جھوٹی احادیث بیان کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو مالی
نذرانے دینے، مخصوص رسومات ادا کرنے، یا اولیاء کرام سے مدد مانگنے کی ترغیب دی جا
سکے۔ ان جھوٹے اقوال کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ اعمال دین کا
حصہ ہیں، حالانکہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔
دیگر
مذاہب میں بھی جھوٹے اقوال اور روایات کو مذہب کا حصہ بنانے کا رجحان پایا جاتا
ہے۔ عیسائیت میں بعض اضافے بائبل میں شامل کیے گئے، جن کا اصل تعلیمات سے کوئی
تعلق نہیں تھا۔ اسی طرح ہندو مت میں مذہبی کتابوں کے علاوہ کئی کہانیاں اور روایات
مذہب کا حصہ بنا دی گئیں۔ یہ عمل ہر مذہب کی خالص تعلیمات کو متاثر کرتا ہے۔
زرتشت
مذہب میں بھی جھوٹی روایات کے ذریعے آتش پرستی اور دیگر رسومات کو مذہب کا حصہ
بنایا گیا۔ زرتشت کے ابتدائی تعلیمات میں خالص توحید کا تصور پایا جاتا تھا، لیکن
بعد میں اس میں اضافے اور بدعات نے اس کی اصل روح کو متاثر کیا۔
اسلام
میں جھوٹی احادیث گھڑنے اور انہیں پھیلانے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: "جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے، وہ
اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" ۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جھوٹی احادیث
گھڑنا اور پھیلانا کتنا بڑا گناہ ہے۔
ائمہ
کرام نے جھوٹی احادیث کے پھیلاؤ کو دین کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ امام بخاری،
امام مسلم، اور دیگر محدثین نے اپنی زندگیاں اس بدعت کے خلاف جہاد میں وقف کر دیں
اور صحیح احادیث کو جمع کیا۔ ائمہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جھوٹی احادیث کو
پھیلانے والے گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہیں اور ان کے لیے سخت سزا تجویز کی۔
ہر
مسلک میں ایسے افراد موجود ہیں جو اپنی تعلیمات کو مضبوط کرنے کے لیے مشکوک احادیث
کا سہارا لیتے ہیں۔ مسلک بریلوی میں اولیاء کی کرامات کے حوالے سے جھوٹی احادیث کا
ذکر عام ہے۔ مسلک اہل تشیع میں بھی مخصوص نظریات کی حمایت میں جھوٹی روایات بیان
کی جاتی ہیں۔ دیوبندی اور اہل حدیث میں نسبتاً کم لیکن بعض معاملات میں یہ مسئلہ
پایا جاتا ہے۔ مسلک احمدیہ بھی اپنے عقائد کے حق میں موضوع روایات کا استعمال کرتا
ہے۔
اس
گناہ سے کیسے بچیں؟
1.
قرآن
و سنت کا گہرا مطالعہ کریں اور صحیح احادیث کے مستند مجموعے جیسے صحیح بخاری اور
صحیح مسلم کو ترجیح دیں۔
2.
کسی
بھی حدیث کو قبول کرنے سے پہلے اس کی سند اور راویوں کی تحقیق کریں۔
3.
اہل
علم اور ماہر محدثین سے رجوع کریں۔
4.
عوام
میں شعور بیدار کریں اور جھوٹی احادیث کے خطرات کے بارے میں آگاہی دیں۔
5.
اپنی
نیت کو خالص رکھیں اور صرف اللہ کی رضا کے لیے دین پر عمل کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔