google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 40 نذرانے کو دین کا لازمی حصہ سمجھنا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

بدھ، 18 دسمبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 40 نذرانے کو دین کا لازمی حصہ سمجھنا



 

دین اسلام اپنی پاکیزگی، سادگی اور مکمل ضابطۂ حیات کی وجہ سے منفرد ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اصل روح کو متاثر کرنے والے کئی عوامل پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک بدعت، یعنی دین میں نئے طریقوں اور عقائد کا اضافہ، ہے۔ بدعت کا مطلب دین کی بنیادوں میں اپنی مرضی سے ایسی تبدیلیاں کرنا یا نئی رسومات کا اضافہ ہے جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ "نذرانے کو دین کا لازمی حصہ سمجھنا" ایک ایسی ہی بدعت ہے جو معاشرے میں غیر شعوری طور پر رائج ہوچکی ہے۔ بعض افراد نے نذرانے، جو کہ اصل میں اللہ کی رضا کے لیے دی جانے والی قربانی یا خیرات ہیں، کو دین کے لازمی اور بنیادی تقاضوں میں شامل کر لیا ہے۔ اس رجحان کے تحت، لوگوں پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک وہ مخصوص مواقع پر مخصوص لوگوں کو نذرانے نہیں دیں گے، ان کا دین مکمل نہیں ہوگا یا ان کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔ یہ رویہ دین کی روح کو متاثر کرتا ہے اور ایمان کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے، کیونکہ اس سے لوگوں کے دلوں میں توحید کی جگہ رسومات اور شخصیت پرستی کو فروغ ملتا ہے۔

 

یہ تصور کہ نذرانے دین کا لازمی جزو ہیں، معاشرے میں جڑ پکڑ کر ایک ایسی روایت بن چکا ہے جو نہ صرف قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ لوگوں کے مالی اور روحانی استحصال کا ذریعہ بھی ہے۔ بعض افراد اور گروہ اس بدعت کو فروغ دیتے ہیں تاکہ عوام کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ وہ لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ نذرانے نہ دینے سے ان کی عبادات ناقص رہ جائیں گی یا ان پر اللہ کی ناراضی نازل ہوگی، حالانکہ دین اسلام میں عبادات کی قبولیت نیت اور اخلاص پر منحصر ہے، نہ کہ کسی مادی نذرانے پر۔ اس بدعت کے فروغ سے دین کی سادگی اور پاکیزگی پر حملہ کیا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کی توجہ دین کے حقیقی اصولوں سے ہٹ جاتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے تو دین میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں کہ نذرانہ دینا لازمی ہو، بلکہ اصل تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال خالص اللہ کے لیے کرے اور بغیر کسی دنیاوی لالچ یا دباؤ کے اپنی زندگی گزارے۔ لہٰذا، نذرانے کو دین کا لازمی حصہ سمجھنا ایک بدعت ہے جو دین کی اصل تعلیمات کو مسخ کرنے کے مترادف ہے اور اس کے خاتمے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔

 

نذرانے کو دین کا لازمی حصہ سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کو دین کے بنیادی عقائد اور عبادات کا ایسا حصہ تسلیم کیا جائے جو ایمان یا نجات کے لیے ضروری ہو۔ قرآن و سنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، لیکن کئی لوگ اس کو دین کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں، اور یوں اس عمل کی حیثیت کو غیر ضروری طور پر بڑھا دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:کیا ان کے شریک ہیں جنہوں نے دین میں وہ باتیں ایجاد کیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، وہ مردود ہے۔

 

دور حاضر میں نذرانے کے فروغ کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مذہبی رہنماؤں کی مالی منفعت، معاشرتی دباؤ، اور عوام کی دینی کم علمی شامل ہیں۔ نذرانے کو بعض افراد نے اپنی ذاتی معاشی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ان کے پیروکاروں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ نذرانے پیش کرنے سے برکت ملتی ہے یا گناہوں کی معافی ممکن ہو جاتی ہے، حالانکہ اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔

 

تاریخی طور پر نذرانے کی رسم کا آغاز مختلف علاقوں میں سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے کیا گیا۔ یہ بدعت خاص طور پر ایسے ادوار میں ابھری جب دینی تعلیمات کی جگہ رسم و رواج نے لے لی۔ بعض علاقوں میں یہ رسم صوفیاء اور درگاہوں سے منسلک ہو گئی، جہاں عقیدت مندوں کو مخصوص مالی یا مادی نذرانے پیش کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔

 

دورِ جاہلیت میں مشرکین کعبہ کے ارد گرد بتوں کے لیے نذریں مانتے اور پیش کرتے تھے، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے:اور انہوں نے اللہ کے لیے کھیتی اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا۔

 

جنوبی ایشیا میں نذرانے کی بدعت زیادہ تر بریلوی مسلک سے وابستہ افراد کے درمیان پائی جاتی ہے، خاص طور پر درگاہوں اور مزارات پر۔ وہاں عقیدت مند نذرانے پیش کرتے ہیں اور اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ بعض دیگر مسالک میں بھی یہ بدعت موجود ہے، لیکن بریلوی مسلک میں یہ زیادہ عام ہے۔

 

پاکستان میں نذرانے کو دین کا حصہ سمجھنے کی وجہ سے غریب طبقہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ وہ اپنی معاشی حالت کے باوجود نذرانے پیش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ انہیں سماجی قبولیت حاصل ہو یا وہ اپنے دینی فرائض مکمل سمجھیں۔ اس عمل سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ دین کی اصل روح بھی متاثر ہو رہی ہے۔

دیگر مذاہب میں بھی نذرانے کی مختلف صورتیں موجود ہیں، جیسے ہندو مت میں مندروں کے لیے چڑھاوے اور عیسائیت میں چرچ کو مالی عطیات۔ ان تمام رسوم میں مشترک بات یہ ہے کہ ان کا مقصد مذہبی اداروں کو مالی معاونت فراہم کرنا ہے، لیکن یہ رسوم بھی وقت کے ساتھ بدعات کا حصہ بن گئی ہیں۔

 

اسلام واضح طور پر بدعات سے منع کرتا ہے اور دین میں کسی نئی بات کی شمولیت کو گمراہی قرار دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:دین میں نئی باتوں سے بچو، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

 

  1. مسلک دیوبند: دیوبند علماء نذرانے کو بدعت سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں۔
  2. مسلک اہل حدیث: اہل حدیث نذرانے کو غیر اسلامی عمل قرار دیتے ہیں اور قرآن و سنت کی بنیاد پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
  3. مسلک بریلوی: بریلوی مسلک کے کچھ علما نذرانے کو جائز سمجھتے ہیں، خاص طور پر درگاہوں سے متعلق۔
  4. مسلک اہل تشیع: اہل تشیع میں بھی نذرانے کی روایت موجود ہے، لیکن اس کی بنیاد مخصوص تاریخی پس منظر پر ہے۔
  5. مسلک احمدی: احمدی اس عمل کو مختلف رنگ میں پیش کرتے ہیں، لیکن اس کی دینی بنیادوں پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔

 

ائمہ کرام کا متفقہ موقف یہ ہے کہ جو عمل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، وہ بدعت ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:جس نے کسی بدعت کو اچھا سمجھا، اس نے گویا نئی شریعت ایجاد کی۔

 

اس گناہ سے کیسے بچیں؟

1.    قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔

2.    علمائے کرام سے صحیح رہنمائی حاصل کریں۔

3.    بدعتی عمل کی حمایت یا اس میں شرکت سے اجتناب کریں۔

4.    اپنے مالی وسائل کو صدقات و خیرات کے صحیح مقاصد کے لیے استعمال کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی پاکیزگی کو قائم رکھنے اور بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو