شادی
بیاہ کی رسومات میں فضول خرچی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہماری معاشرتی اور اقتصادی
زندگی پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ شادی جیسے پاکیزہ بندھن کو خوشیوں اور سادگی سے
منانے کے بجائے اسے غیر ضروری شان و شوکت کا مظاہرہ بنادیا گیا ہے۔ مہنگے لباس،
قیمتی زیورات، بڑے بڑے بینکوئٹ ہالز، اور لذتوں سے بھرے کھانوں پر لاکھوں روپے خرچ
کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ معاشرتی دباؤ اور اپنی حیثیت دکھانے کی کوشش
میں کیا جاتا ہے، جو نہ صرف دلہا دلہن کے خاندانوں پر مالی بوجھ ڈالتی ہے بلکہ
پورے سماج میں ایک غلط مثال قائم کرتی ہے۔ فضول خرچی کے یہ مظاہر ہمارے دین کی
تعلیمات کے بھی خلاف ہیں، جو سادگی اور اعتدال کا درس دیتے ہیں۔ قرآن پاک اور
احادیث نبویہ ﷺ میں اسراف سے بچنے کی بارہا تاکید کی گئی ہے، لیکن افسوس کہ ہم نے
ان ہدایات کو نظرانداز کردیا ہے۔
اسراف
کی یہ روش نہ صرف غربت میں اضافے کا باعث بنتی ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی اقدار کو
بھی متاثر کرتی ہے۔ جب شادی بیاہ کو صرف ایک رسم کے بجائے معاشرتی نمود و نمائش کا
ذریعہ بنایا جاتا ہے، تو غریب طبقہ اس دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے، اور ان کے دل میں
احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، اکثر خاندان قرض لے کر یا اپنی جمع پونجی
خرچ کرکے شادیاں کرتے ہیں، جس سے ان کی مالی حالت مزید خراب ہوجاتی ہے۔ شادی بیاہ
کے مواقع پر فضول خرچی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین اسلام کی سادہ طرزِ
زندگی کو اپنائیں اور سماجی دباؤ سے آزاد ہوکر شادیاں کریں۔ ہمیں اپنی ترجیحات پر
غور کرنا چاہیے اور ان مواقع کو خوشیوں اور دعاؤں سے بھرپور بنانے کے لیے غیر
ضروری اخراجات کے بجائے خدمت خلق اور ضرورت مندوں کی مدد کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
شادی
بیاہ کی تقریبات میں شرک آمیز رسومات سے مراد وہ اعمال اور روایات ہیں جو اسلامی
عقائد کے خلاف ہوں اور جن میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت یا کسی مخلوق کو اللہ
کی صفات میں شریک کرنے کا تصور شامل ہو۔ ان میں تعویذ گنڈے، جھاڑ پھونک، بتوں یا
دیگر غیر اللہ کے نام پر چڑھاوے چڑھانا، اور غیر اسلامی عقائد و رسومات کو اپنانا
شامل ہیں۔ قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا:“اور
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔” رسول اللہ ﷺ نے
بھی شرک کو سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے:“سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ
کسی کو شریک ٹھہراؤ۔”
دورِ
جاہلیت میں شرک عام تھا، اور لوگ اپنے مراسمِ شادی میں دیوی دیوتاؤں کی عبادت
کرتے، ان کے نام پر قربانی کرتے اور شگون لیتے تھے۔ شادی بیاہ کے موقع پر مختلف
رسمیں اس اعتقاد کے ساتھ کی جاتی تھیں کہ یہ جوڑا خوشحال زندگی گزارے گا یا ان کے
لیے نحوست کو دور کرے گا۔ قرآن نے ان باطل عقائد کو ختم کرنے کے لیے بارہا تنبیہ
کی۔“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی طرف
اور رسول کی طرف رجوع کرو تو وہ کہتے ہیں، ہمارے لیے وہی کافی ہے جو ہم نے اپنے
باپ دادا کو کرتے پایا۔”
شرک
آمیز رسومات کا آغاز مشرکانہ معاشروں سے ہوا، جہاں لوگوں نے اللہ کے احکامات سے
روگردانی کی اور اپنے خود ساختہ عقائد کو اہمیت دی۔ جنوبی ایشیا میں یہ بدعت ہندو
مذہب اور دیگر مشرکانہ رسوم و رواج سے متاثر ہو کر مسلم معاشروں میں در آئی۔ مغل
دور کے بعد یہ رسومات مسلمان شادیوں میں بھی عام ہو گئیں، جیسے جہیز کی رسم، سات
پھیرے، اور پوجا پاٹ۔
وقت
کے ساتھ ساتھ ان غیر اسلامی رسومات میں اضافہ ہوا، اور ان کا مقصد شادی کو معاشرتی
حیثیت اور رتبے کا مظاہرہ بنانا بن گیا۔ حالیہ شادیوں میں درج ذیل رسومات دیکھی جا
سکتی ہیں:
- نکاح
سے پہلے جھاڑ پھونک کے ذریعے مستقبل کا حال معلوم کرنا۔
- غیر
اللہ کے نام کی منتیں مانگنا۔
- شادی
کے دوران ناچ گانے اور اسراف سے بھرپور تقریبات۔
- جہیز
اور دیگر غیر ضروری رسم و رواج۔
رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا:“سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم
خرچ ہو۔”
جنوبی
ایشیائی ممالک میں یہ بدعت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہندو مذہب کی رسومات، جیسے
کنیا دان، سات پھیرے، اور دیگر رسومات مسلم شادیوں میں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ ان
رسومات میں بڑی مالیت خرچ کی جاتی ہے، جس سے اسلام کے سادہ طرزِ حیات کے اصول کی
خلاف ورزی ہوتی ہے۔
دیگر
مذاہب، جیسے ہندو، عیسائی اور بدھ مت، میں شادی بیاہ کی تقریبات میں مختلف دیوی
دیوتاؤں کی پوجا اور رسوم کی جاتی ہیں۔ ان مذاہب میں یہ رسومات روحانی مقاصد کے
لیے کی جاتی ہیں، جن میں شرک کا واضح عنصر شامل ہوتا ہے۔
اسلام
نے شادی کو سادہ اور برکت والا بنانے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن میں فضول خرچی سے سختی
سے منع کیا گیا:“بیشک فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی
ہیں۔” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:“اللہ اس شخص کو پسند فرماتا ہے جو میانہ
روی اختیار کرے اور اسراف سے بچے۔”
ائمہ
کرام نے شادی بیاہ کی تقریبات میں غیر اسلامی رسومات کو ناجائز اور حرام قرار دیا
ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور دیگر فقہا کے مطابق ایسی رسومات جن میں شرک یا بدعت شامل
ہو، ان سے بچنا فرض ہے۔ علماء نے عوام کو بارہا ان رسومات سے دور رہنے کی تلقین کی
ہے۔
اس
گناہ سے کیسے بچیں؟
1.
اسلامی
تعلیمات کا مطالعہ کریں اور شادی کو سادہ اور برکت والا بنائیں۔
2.
نکاح
اور ولیمہ کو شرعی دائرے میں رکھیں۔
3.
فضول
خرچی اور غیر ضروری رسومات سے بچیں۔
4.
علماء
کرام سے رہنمائی حاصل کریں اور اپنی تقریبات میں شرعی حدود کا خیال رکھیں۔جیسا کہ
اللہ رب العزت نے فرمایا“اور تم اپنی جانوں کو شرک سے بچاؤ۔”
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔