google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 38 جھوٹی کرامات کا پرچار - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 16 دسمبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 38 جھوٹی کرامات کا پرچار



جھوٹی کرامات کا پرچار ایک ایسا عمل ہے جس میں جھوٹے یا فرضی واقعات کو معجزات اور کرامات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو دھوکہ دیا جائے یا کسی مخصوص شخصیت، گروہ، یا مسلک کو غیر حقیقی طور پر بلند کیا جا سکے۔ قرآن پاک میں جھوٹ بولنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں“جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ چلو۔” اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا“سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے۔” جھوٹی کرامات کا پرچار نہ صرف دھوکہ دہی ہے بلکہ یہ دین کی تعلیمات میں اضافے اور بدعت کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔

 

جھوٹی کرامات عموماً ان مسالک یا گروہوں سے منسلک ہوتی ہیں جو عوامی عقیدت حاصل کرنے کے لیے مبالغہ آرائی یا غیر حقیقی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ خاص طور پر بعض صوفی حلقوں میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے پیر یا بزرگوں کی جھوٹی کرامات بیان کرکے ان کے مقام کو بلند کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اہلِ حدیث اور دیوبند مسالک جھوٹی کرامات کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے دین میں تحریف سمجھتے ہیں۔ بریلوی مسلک میں بھی بعض گروہ مبالغہ آرائی کے مرتکب ہوئے ہیں، جبکہ اہلِ تشیع میں بعض واقعات آئمہ معصومین کی کرامات کے حوالے سے مبالغہ پر مبنی نظر آتے ہیں۔

 

جھوٹی کرامات کا آغاز اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں نہیں ہوا بلکہ بعد کے ادوار میں عوام کو متاثر کرنے کے لیے یہ رجحان سامنے آیا۔ خاص طور پر جب اسلام غیر مسلم علاقوں میں پھیلا اور مختلف ثقافتوں سے میل جول ہوا، تب بعض افراد نے کرامات اور معجزات کو عوامی مقبولیت کا ذریعہ بنایا۔ یہ بدعت اکثر صوفیانہ تحریکوں کے ساتھ منسلک ہوئی جو عوام کو متاثر کرنے کے لیے مبالغہ آمیز دعوے کرتے تھے۔

 

بریلوی مکتبہ فکر میں بعض افراد پیر عبدالقادر جیلانیؒ کی نسبت سے مختلف کراماتی کہانیاں بیان کرتے ہیں، جن میں سے کچھ مستند ہیں لیکن دیگر کو مبالغہ یا جھوٹ پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔ پیر عبدالقادر جیلانیؒ کا شمار اولیاء کرام میں ہوتا ہے، اور ان کی حقیقی کرامات اور علم و تقویٰ کے بارے میں اسلامی تاریخ میں معتبر شواہد موجود ہیں۔ تاہم، کچھ حلقے عوام میں اپنی مقبولیت یا عقیدت پیدا کرنے کے لیے ان سے منسوب جھوٹے واقعات بیان کرتے ہیں۔

 جھوٹے قصے اور ان کا پرچار:ان جھوٹے قصوں میں ایسی باتیں شامل ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور عقلی بنیادوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مثال کے طور پر، کچھ کہانیوں میں پیر عبدالقادر جیلانیؒ کو غیب جاننے والا یا کسی غیر شرعی عمل میں ملوث دکھایا جاتا ہے، جو اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔

 

بریلوی علماء کی رائے:بریلوی مکتبہ فکر کے کئی جید علماء جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے سخت مخالف ہیں۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ نے اپنی تحریروں میں قرآن و سنت کے خلاف بات کرنے اور جھوٹے واقعات گھڑنے والوں کی مذمت کی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے، بعض غیر ذمہ دار افراد ان جھوٹے قصوں کو بازاروں میں کتابچوں، ویڈیوز، اور عوامی جلسوں کے ذریعے عام کرتے ہیں، جس سے عوام کے عقائد کمزور اور دین سے دوری پیدا ہوتی ہے۔

 

اصلاح کی ضرورت:ان جھوٹے قصوں کا رد کرنا اور عوام کو پیر عبدالقادر جیلانیؒ کی اصل تعلیمات اور کرامات سے روشناس کروانا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے:

 تحقیق کی ترغیب دیں: عوام کو مستند اسلامی کتب اور علماء کی رہنمائی کی طرف راغب کریں۔.

قرآن و حدیث کی روشنی: پیر عبدالقادر جیلانیؒ کی کرامات کو قرآن و حدیث کے اصولوں کے مطابق بیان کریں۔.

جھوٹے واقعات کی مذمت: ان جھوٹے واقعات کا سدباب کریں جو دین میں بدعات اور گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔

اسلام میں اللہ کے سوا کسی کو غیب دان یا حاجت روا ماننا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے عوام کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ اولیاء کرام اللہ کے نیک بندے تھے، لیکن ان سے منسوب جھوٹے واقعات اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں۔

 

دورِ جاہلیت میں بھی جھوٹے معجزات اور دیومالائی کہانیاں عام تھیں۔ مشرکین مکہ اپنے بتوں اور دیوتاؤں کے معجزات بیان کرتے تھے تاکہ لوگوں کو ان کی عبادت کی طرف راغب کیا جا سکے۔ قرآن مجید نے ان خیالات کو سختی سے رد کیا اور واضح کیا کہ معجزہ صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے"

جنوبی ایشیاء میں جھوٹی کرامات کا رجحان خاص طور پر صوفیانہ سلسلوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہاں جھوٹی کراماتی کہانیاں، تصوراتی تصاویر، اور کتابچے عام عوام کے عقائد کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ اس رجحان نے معاشرتی خرابیوں کو جنم دیا، جیسے عوام کا عقیدے کے نام پر استحصال اور دین سے دوری۔ مثال کے طور پر، مزاروں پر جھوٹے معجزات کی تشہیر کرکے مالی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل عوام کے لیے گمراہی کا سبب بنتا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

 

دیگر مذاہب میں بھی جھوٹے معجزات اور کرامات کا تصور پایا جاتا ہے۔ عیسائیت میں بعض افراد نے خود کو معجزہ دکھانے والا ظاہر کیا تاکہ عوام کو اپنی طرف مائل کریں، جیسا کہ “معجزاتی پانی” یا “شفائی اجتماعات” کا رجحان۔ ہندو مت میں دیوی دیوتاؤں کی کرامات کے قصے اور بدھ مت میں بعض روحانی اساتذہ کے بارے میں مبالغہ آرائی دیکھی جاتی ہے۔ ان تمام مثالوں میں جھوٹے معجزات کا مقصد عوام کو دھوکہ دینا یا کسی مذہبی رہنما کی غیر حقیقی عظمت کو ظاہر کرنا رہا ہے۔

 

اسلام میں جھوٹ بولنا اور بدعت کو فروغ دینا سختی سے ممنوع ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں“اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔” حدیث میں بھی جھوٹ کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔" جھوٹی کرامات دین میں تحریف کے زمرے میں آتی ہیں اور شرعی طور پر حرام ہیں۔

 

  • دیوبند: دیوبند علما جھوٹی کرامات کو سختی سے رد کرتے ہیں اور اسے گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔
  • اہل حدیث: یہ مسلک صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر معجزات کو تسلیم کرتا ہے اور جھوٹے دعووں کی مذمت کرتا ہے۔
  • بریلوی: بعض حلقے جھوٹی کرامات کا سہارا لیتے ہیں، تاہم علما کی اکثریت اس کی مذمت کرتی ہے۔
  • اہل تشیع: آئمہ معصومین کی کرامات کو بیان کیا جاتا ہے، مگر مبالغہ آرائی کی مذمت کی گئی ہے۔
  • احمدی: اس گروہ میں بھی جھوٹی کرامات کا استعمال دیکھا گیا ہے تاکہ اپنے عقائد کو فروغ دیا جا سکے۔
  • ندوی: ندوی علما دین کی اصل تعلیمات کو پیش کرنے پر زور دیتے ہیں اور بدعات کے خلاف ہیں۔

 

ائمہ کرام کے نزدیک جھوٹی کرامات کا پرچار کبیرہ گناہ ہے کیونکہ یہ دین میں جھوٹ اور بدعت کے مترادف ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: “کرامت کے نام پر جھوٹ بولنا دین کو بگاڑنے کی کوشش ہے۔” امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل نے بھی بدعت اور جھوٹ کی مذمت کی ہے اور عوام کو ایسے اعمال سے بچنے کی تاکید کی ہے۔

اس گناہ سے بچنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

 

1.    علم کی جستجو: قرآن و حدیث کی صحیح تعلیمات کو سمجھیں۔

2.    تحقیق کریں: کسی بھی کرامت یا معجزے کی خبر کو قبول کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کریں۔

3.    مستند علما سے رجوع: دین کے معاملات میں ماہر اور دیانتدار علما سے رہنمائی حاصل کریں۔

4.    تقویٰ کا فروغ: اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور سچائی کو اپنائیں۔

5.    بدعات کا رد: جھوٹے دعوے کرنے والوں کی حمایت نہ کریں اور ان کے خلاف آواز بلند کریں۔

ان اقدامات سے نہ صرف معاشرے کو جھوٹی کرامات کے اثرات سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ دین کے حقیقی پیغام کو بھی عام کیا جا سکتا ہے۔

 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو