google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 37 مخصوص رنگوں یا کپڑوں کو متبرک سمجھنا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

بدھ، 11 دسمبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 37 مخصوص رنگوں یا کپڑوں کو متبرک سمجھنا



مخصوص رنگوں یا کپڑوں کو متبرک سمجھنا ایک ایسی بدعت ہے جس میں لوگ بعض رنگوں یا لباس کو خاص تقدس اور برکت کا حامل تصور کرتے ہیں، اور انہیں مذہبی یا روحانی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ تصور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، کیونکہ اسلام میں کسی مخصوص رنگ یا لباس کو مقدس یا بابرکت سمجھنے کی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔قرآن و سنت میں ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں جو کسی خاص رنگ یا لباس کو متبرک قرار دے۔بلکہ، دین میں ایسی نئی چیزوں کا اضافہ جو قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، وہ مردود ہے۔"

 

تاریخی طور پر، مخصوص رنگوں یا کپڑوں کو متبرک سمجھنے کا تصور مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں پایا جاتا ہے۔مثلاً، ہندو مت میں زعفرانی رنگ کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اور بدھ مت میں زرد رنگ کی چادر کو روحانی اہمیت دی جاتی ہے۔اسلام سے قبل عرب معاشرے میں بھی بعض رنگوں اور لباس کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔اسلام نے ان جاہلی تصورات کو ختم کیا اور توحید کی تعلیم دی، جس میں کسی بھی مادی چیز کو مقدس یا بابرکت سمجھنے کی ممانعت ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اور اس چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہیں۔"

 

بدقسمتی سے، برصغیر پاک و ہند میں بعض صوفی سلسلوں اور مقامی روایات کے زیر اثر مخصوص رنگوں اور لباس کو متبرک سمجھنے کا رواج پایا جاتا ہے۔مثلاً، بعض لوگ سبز رنگ کو اولیاء کرام سے منسوب کرتے ہوئے اسے مقدس سمجھتے ہیں، یا مخصوص چادروں کو درگاہوں پر چڑھاتے ہیں۔یہ تمام اعمال اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں اور بدعت کے زمرے میں آتے ہیں۔ائمہ کرام اور علماء نے ہمیشہ ایسی بدعات کی مذمت کی ہے اور مسلمانوں کو خالص توحید اور سنت کی پیروی کی تلقین کی ہے۔لہٰذا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دین میں کسی بھی نئی چیز کا اضافہ کرنے سے گریز کریں اور صرف قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔

 

مخصوص رنگوں یا کپڑوں کو متبرک سمجھنا ایک ایسی بدعت ہے جس میں لوگ بعض رنگوں یا کپڑوں کو خاص طور پر مقدس اور بابرکت سمجھتے ہیں، اور انہیں مذہبی یا روحانی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس تصور کی کوئی بنیاد قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ اسلام میں توحید اور شرک سے پاک عقیدہ رکھا گیا ہے، اور کسی چیز کو بلا دلیل مقدس سمجھنا بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ قرآن میں واضح ارشاد ہے:"حکم صرف اللہ کا ہے۔"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز نکالی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ رد کر دی جائے گی۔"

 

یہ بدعت مختلف ادوار اور مقامات پر انسانی تصورات، ثقافتی اثرات، اور شرک کے عناصر کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ تاریخ میں ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں مختلف معاشروں نے اپنی مذہبی شخصیات، اولیاء یا دیگر مقدس مقامات سے منسوب کپڑوں یا رنگوں کو خاص اہمیت دی۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔ البتہ، یہ بدعت بعد کے ادوار میں زیادہ پھیلنے لگی جب مختلف علاقوں میں اسلام کے ساتھ مقامی ثقافتیں اور روایات مل گئیں۔

 

دور جاہلیت میں بھی ایسی رسوم موجود تھیں جہاں لوگ مخصوص اشیاء، رنگوں، یا کپڑوں کو برکت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مشرکینِ مکہ اپنے بتوں اور مذہبی رسومات کے لیے خاص رنگ اور لباس استعمال کرتے تھے۔ قرآن نے ان کے ایسے عقائد کو رد کیا اور توحید کی طرف بلایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:“وہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے تھے، ان کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔"

 

جنوبی ایشیا میں اس بدعت کے فروغ کی بڑی وجوہات میں مقامی ثقافت، ہندووانہ اثرات، اور روحانیت کے غلط تصورات شامل ہیں۔ برصغیر میں مختلف صوفی سلسلوں نے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے بعض رسوم اور روایات کو اپنایا جو مقامی مذاہب سے متاثر تھیں۔ خاص رنگوں اور لباس کو روحانی برکت کا ذریعہ سمجھنا انہی اثرات کا نتیجہ ہے۔

 

پاکستان میں بعض لوگ مخصوص رنگوں کے کپڑوں اور اشیاء کو بیچ کر اس بدعت سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مختلف مذہبی اجتماعات اور میلوں میں خاص قسم کے لباس، جھنڈے، اور دیگر اشیاء بیچی جاتی ہیں جو بابرکت سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں عوام کی لاعلمی اور جذباتی وابستگی کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 

دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی مخصوص رنگوں یا کپڑوں کو مقدس سمجھنے کا تصور موجود ہے۔ ہندو مت میں زعفرانی رنگ کو مقدس سمجھا جاتا ہے، بدھ مت میں زرد رنگ کی چادر کو روحانی اہمیت دی جاتی ہے، اور عیسائیت میں بعض مذہبی لباس اور رنگ مقدس سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تمام تصورات انسان کی روحانی ضروریات اور ثقافتی اثرات کے امتزاج کا نتیجہ ہیں۔

اسلام نے ایسی بدعات کی سختی سے مذمت کی ہے۔ قرآن اور حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ دین میں اضافے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اور اس چیز کے پیچھے نہ جاؤ جس کا تمہیں علم نہیں۔"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے۔"

 

ائمہ کرام نے ہر قسم کی بدعت کو دین کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک دین میں ایسی چیزیں شامل کرنا جو قرآن و سنت سے ثابت نہ ہوں، شرک کی طرف لے جانے والا عمل ہے۔

·       اہل حدیث: اہل حدیث مسلک کے مطابق ایسی بدعات کو یکسر مسترد کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ توحید کے منافی ہیں۔

·       دیوبند: دیوبندی علماء بدعات کے خلاف ہیں اور توحید کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

·       بریلوی: بریلوی مسلک میں کچھ رسوم کو مقامی روایات کے تحت قبول کیا جاتا ہے، تاہم دین کی بنیادی تعلیمات میں ایسی بدعات کی مخالفت موجود ہے۔

·       اہل تشیع: شیعہ مسلک میں مخصوص رسوم کی اہمیت زیادہ ہے، لیکن یہ عقائد بھی بنیادی طور پر قرآن و سنت پر مبنی ہونے چاہئیں۔

·       ندوی: ندوی مسلک بھی بدعات سے اجتناب پر زور دیتا ہے۔

·       قادیانی: قادیانی عقائد اسلام سے مختلف ہیں اور ان میں بھی کئی بدعات موجود ہیں۔

 

ان بدعات سے بچنے کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ علمائے کرام اور مستند دینی ذرائع سے رہنمائی لینی چاہیے۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو