اسلامی
تعلیمات کے مطابق نکاح ایک پاکیزہ اور سادہ عمل ہے، جس کی بنیاد میاں بیوی کی رضا،
ولی کی موجودگی، اور گواہوں پر ہے۔ "پیر کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنا"
ایک ایسی غیر شرعی رسم ہے جو دین میں بلا وجہ رکاوٹیں ڈالتی ہے۔ یہ بدعت اسلامی
تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ شریعت میں نکاح کو آسان بنانے اور بلاوجہ شرائط سے
بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا: "اور نکاح کر دو اپنے غیر شادی شدہ لوگوں کا اور اپنے نیک غلاموں
اور لونڈیوں کا”۔یہ
آیت نکاح کے عمل میں آسانی اور سادگی کو واضح کرتی ہے، جبکہ پیر کی اجازت جیسی
شرائط اس سادگی کے برعکس ہیں۔
پیر
کی اجازت کو نکاح کے لیے ضروری سمجھنا ایک ایسی رسم ہے جو نہ صرف اسلامی احکامات
کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ یہ رسم نکاح کے عمل کو مشکل
بناتی ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات نوجوان دیر سے شادی کرتے ہیں یا نکاح کی راہ میں
غیر ضروری رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ دین اسلام نے نکاح کو آسان بنایا ہے تاکہ فحاشی
اور بدکاری سے بچا جا سکے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا”
نکاح میری سنت ہے، جو میری سنت سے منہ
موڑے وہ مجھ سے نہیں”۔اس بدعت سے دین کی پاکیزگی اور نکاح کی سنت
کے اصل مقصد کو نقصان پہنچتا ہے، اور افراد غیر ضروری طور پر پیر کے فیصلوں پر
انحصار کرتے ہیں۔
پیر
کی اجازت کو نکاح کے لیے لازمی سمجھنے کی رسم کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام
میں شعور بیدار کیا جائے اور قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کو عام کیا جائے۔ اس بدعت
کو ترک کرنے کے لیے علمائے کرام اور معاشرتی رہنما کردار ادا کریں اور لوگوں کو
اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح کی اہمیت اور اس کے آسان تقاضوں سے آگاہ کریں۔ نبی
کریم ﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا”
بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو”۔یہ حدیث اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ نکاح کو
غیر ضروری شرائط سے پاک رکھا جائے، تاکہ دین کی پاکیزگی اور معاشرتی اصلاح کا مقصد
پورا ہو۔
"پیر
کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنا" ایک ایسی روایت یا رسم ہے جو بعض افراد کے
عقائد میں پائی جاتی ہے، جہاں شادی کے لیے کسی مذہبی رہنما یا پیر کی اجازت ضروری
سمجھی جاتی ہے۔ اس میں لوگوں کا یقین ہوتا ہے کہ پیر کی رضا کے بغیر نکاح نامکمل
یا غیر بابرکت ہوگا۔ قرآن و سنت میں اس قسم کی شرط کا کوئی ذکر نہیں ملتا، اور یہ
شریعت کے خلاف ہے کیونکہ نکاح کے لیے صرف دو عاقل بالغ افراد کی رضا اور اسلامی
تقاضوں کی تکمیل ضروری ہے۔
اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے: پس
نکاح کرو اُن عورتوں سے جو تمہارے لیے پسندیدہ ہوں۔اس آیت
میں نکاح کے لیے کسی پیر کی اجازت یا شرط کا ذکر نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نکاح
میری سنت ہے۔نبی ﷺ نے نکاح کو سادہ اور آسان عمل قرار
دیا، جس میں غیر ضروری شرائط شامل کرنا ممنوع ہے۔
اس
بدعت کا آغاز زیادہ تر تصوف کے بعض غلط تصورات سے ہوا، جہاں پیر کو روحانی رہنمائی
کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی فیصلہ کن حیثیت دی گئی۔ کچھ صوفی سلسلوں میں
پیر کو اس حد تک اختیار دیا گیا کہ ان کے بغیر اہم معاملات، جیسے نکاح، کو مکمل
مانا ہی نہیں جاتا تھا۔ یہ تصور اسلامی تعلیمات کے بجائے ثقافتی اثرات اور غیر
اسلامی عقائد سے آیا۔
دورِ
جاہلیت میں نکاح کے کئی غلط رسوم و رواج تھے، مگر پیر یا کسی مذہبی رہنما کی اجازت
کی شرط کا ذکر نہیں ملتا۔ اس دور میں ولی کی رضامندی کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی،
اور نکاح کو معاشرتی تعلقات کے استحکام کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ اللہ رب
العزت قرآن میں فرماتے ہیں "اور اپنی
لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ پاکیزگی اختیار کرنا چاہیں"۔یہ
آیت جاہلیت کے نکاح میں شامل غلط رسوم و رواج کی تردید کرتی ہے۔
برصغیر
میں تصوف اور روحانیت کے اثرات کے ساتھ، پیر و مرید کے تعلق کو غیر معمولی اہمیت
دی گئی۔ یہاں نکاح کو پیر کی رضا کے ساتھ مشروط کرنے کا رجحان بڑھا، جو زیادہ تر
ثقافتی اثرات کا نتیجہ تھا۔برصغیر میں یہ بدعت مذہبی تعلیمات کے بجائے خاندانی اور
روحانی روایت کے اثرات کی وجہ سے پھیلی۔
اسلام
میں نکاح کو ایک پاکیزہ اور آسان عمل قرار دیا گیا ہے، اور اس میں ایسی کسی شرط کی
کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نکاح کا مقصد خاندان کی تشکیل اور معاشرتی تعلقات کی پاکیزگی
ہے۔" اور نکاح کر دو اپنے میں سے ان لوگوں کا جو
غیر شادی شدہ ہیں"۔یہ حکم واضح کرتا ہے کہ نکاح کے لیے غیر ضروری
شرائط شامل کرنا غیر اسلامی ہے۔
ائمہ
کرام نے ہر اس شرط کو بدعت قرار دیا ہے جو قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو۔
·
امام ابو حنیفہ: نکاح
کی شرائط میں ولی اور گواہ کی موجودگی ضروری ہے، مگر پیر کی اجازت کی شرط غیر شرعی
ہے۔
·
امام شافعی: ایسی رسوم و رواج
کو سختی سے رد کرتے ہیں جو نکاح کو مشکل بنائیں۔
·
امام احمد بن حنبل: نکاح میں آسانی کو
ترجیح دیتے ہیں اور بدعات کی مخالفت کرتے ہیں۔
·
امام مالک: شریعت سے ہٹ کر
کسی بھی شرط کو نکاح کے لیے باطل قرار دیتے ہیں۔
·
اہل حدیث: نکاح کو قرآن و
سنت کے مطابق ادا کرنے پر زور دیتے ہیں اور پیر کی اجازت کو بدعت سمجھتے ہیں۔
·
بریلوی: عمومی طور پر پیر
کو اہمیت دیتے ہیں، مگر نکاح کے لیے پیر کی اجازت کی شرائط کو غیر ضروری قرار دیتے
ہیں۔
·
دیوبندی: شریعت کی پابندی
پر زور دیتے ہیں اور نکاح کو سادہ عمل سمجھتے ہیں۔
·
اہل تشیع: نکاح میں ولی اور
فریقین کی رضامندی کو اہم سمجھتے ہیں اور پیر کی اجازت کو غیر متعلق قرار دیتے
ہیں۔
اس
بدعت سے ہم کیسے بچ سکتے ہیں؟
1. قرآن و سنت کی تعلیمات کو
سمجھیں: نکاح کے معاملے
میں دین کی اصل ہدایات پر عمل کریں۔
2. بدعات سے اجتناب کریں: نکاح میں ایسی کسی شرط کو شامل نہ
کریں جو قرآن و سنت میں نہیں ہے۔
3. علمائے کرام سے رہنمائی لیں: معتبر علما سے
مشورہ کریں اور اسلامی اصولوں کو اپنائیں۔
4. لوگوں کو آگاہ کریں: اپنے خاندان اور
کمیونٹی میں اس بدعت کے خلاف شعور بیدار کریں۔
5. سنت کے مطابق نکاح کریں: نبی کریم ﷺ کے سادہ نکاح کے طریقے کو
اپنائیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔