دین
اسلام کی پاکیزگی اور اس کے بنیادی اصولوں کی حفاظت ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے،
کیونکہ یہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری اور مکمل ہدایت کے طور پر عطا کیا گیا
ہے۔ بدعات ان اضافوں کو کہا جاتا ہے جو دین میں شامل کر دی جائیں لیکن ان کی بنیاد
قرآن و سنت میں نہ ہو۔ دین کی پاکیزگی پر حملوں میں ایک نمایاں بدعت "سلام
پھیرنے کے بعد اللہ ہو کا ورد کرنا" ہے۔ نماز ایک مخصوص عبادت ہے جس کے تمام
ارکان اور اذکار نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کیے جاتے ہیں۔ نماز
کے اختتام پر سلام پھیرنا اس کا آخری رکن ہے، اور اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اذکار
اور دعاؤں کے لیے رہنمائی فراہم کی ہے۔ "اللہ ہو" کا ورد کرنا ایک ایسا
اضافہ ہے جس کی نہ تو قرآن میں تصدیق ملتی ہے اور نہ ہی سنت رسول ﷺ میں اس کا کوئی
ثبوت موجود ہے۔
یہ
بدعت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ لوگ اپنی خواہشات یا اپنے مخصوص روحانی رجحانات
کے تحت دین میں نئی روایات شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف دین کی اصل
شکل کو مسخ کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی گمراہی کی طرف لے جاتا ہے جو ان بدعات کو
دین کا حصہ سمجھتے ہیں۔ سلام کے بعد اللہ ہو کا ورد کرنے کا کوئی ثابت شدہ حوالہ
موجود نہیں، اور یہ عمل اصل تعلیمات کے ساتھ تضاد رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے سلام کے
بعد مخصوص اذکار جیسے سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کو 33 بار پڑھنے کی
تعلیم دی ہے۔ ایسے میں ان اذکار کو چھوڑ کر غیر مستند عمل کو اپنانا دین میں اضافہ
کرنے کے مترادف ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے بدعت قرار دیا ہے اور ہر بدعت کو گمراہی
کہا ہے۔
یہ
بدعت دین کی روحانی پاکیزگی پر ایک حملہ ہے، کیونکہ یہ لوگوں کو قرآن و سنت کے
بجائے ذاتی تخیلات اور غیر مستند روایات کی پیروی کی طرف لے جاتی ہے۔ دین اسلام کو
ہر طرح کی بدعت سے محفوظ رکھنا امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ علماء اور اہل
علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرائیں اور
بدعات سے بچنے کی تلقین کریں۔ سلام کے بعد اللہ ہو کا ورد کرنے جیسی بدعات دین میں
انتشار اور اختلاف کا باعث بنتی ہیں اور اس کے نتیجے میں دین کی وہ خوبصورتی اور
یکسانیت متاثر ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی عبادات
کو نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہر اس عمل سے گریز
کرنا چاہیے جو دین میں اضافہ یا کمی کا باعث بنے۔
سلام
پھیرنے کے بعد "اللہ ہو" کا ورد کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے اختتام
پر، جب امام اور مقتدی دونوں سلام پھیر کر نماز مکمل کرتے ہیں، تو وہ اجتماعی یا
انفرادی طور پر "اللہ ہو" کے الفاظ کو بار بار دہرانا شروع کرتے ہیں۔ یہ
عمل عمومی طور پر ذکرِ الٰہی یا تصوف کی تعلیمات کے تحت انجام دیا جاتا ہے، لیکن
اس کا کوئی واضح حوالہ قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ نماز کے بعد اذکار اور
دعائیں سنت نبویﷺ کے مطابق مقرر ہیں، جن میں سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور
دیگر دعائیں شامل ہیں۔ تاہم، "اللہ ہو" کا مخصوص انداز میں ورد کرنا
اسلامی تعلیمات کے بجائے ذاتی یا گروہی رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔
"سلام پھیرنے کے بعد اللہ
ہو کا ورد" عموماً وہ مسالک یا صوفی سلسلے کرتے ہیں جو تصوف کو اپنی عبادات
اور روحانی طرز زندگی کا اہم جزو مانتے ہیں۔ ان میں قادری، چشتی، نقشبندی اور
سہروردی جیسے صوفی سلسلے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان مسالک کے ماننے والے ذکر و اذکار کو
روحانی ترقی اور دل کی صفائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ان سلسلوں کے تمام
پیروکار اس عمل کو نہیں اپناتے، لیکن بعض حلقے اسے اپنا روحانی معمول بناتے ہیں۔
"اللہ ہو" کے ورد کا
آغاز تصوف کے ابتدائی ادوار میں ہوا، جب صوفیاء کرام نے ذکر کی مختلف اقسام متعارف
کروائیں۔ یہ عمل زیادہ تر خلافت عباسیہ کے دور میں مشرق وسطیٰ میں تصوف کے فروغ کے
ساتھ پروان چڑھا۔ ان صوفیاء نے اللہ کی یاد کو مختلف انداز میں جاری رکھنے کے لیے
مخصوص اذکار اور ورد اپنائے۔ لیکن "سلام کے بعد اللہ ہو کا ورد" کا خاص
رواج جنوبی ایشیا میں صوفیاء کے ذریعے متعارف ہوا۔ چشتی اور قادری سلسلوں نے اس
عمل کو اپنی محافل اور عبادات میں شامل کیا۔
دورِ
جاہلیت میں "اللہ ہو" جیسے ذکر یا ورد کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔
مشرکین مکہ اپنے بتوں کے نام کے ورد اور دیگر مشرکانہ عبادات میں مصروف رہتے تھے۔
اسلام نے آکر عبادات کو توحید کی بنیاد پر قائم کیا اور ذکرِ الٰہی کو ایک متعین
اور پاکیزہ انداز میں رواج دیا۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں ذکر و اذکار
کے جو طریقے اپنائے گئے، وہ سب قرآن اور سنت کے مطابق تھے۔ اس لیے یہ کہنا درست
ہوگا کہ دورِ جاہلیت میں اس قسم کے عمل کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
جنوبی
ایشیا میں، خاص طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں، یہ عمل صوفی سلسلوں اور
ان کے پیروکاروں کے درمیان مقبول ہے۔ صوفیاء کرام کے مزارات اور خانقاہوں میں
"اللہ ہو" کے ورد کو اجتماعی ذکر کی ایک شکل کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔
یہ گروہ اس عمل کو روحانی فوائد کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور عوام کو اس میں شرکت
کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ روایت خاص طور پر میلاد، عرس اور دیگر صوفی تقریبات کے
دوران عام ہے، جہاں "اللہ ہو" کا ورد محافل کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔
دیگر
مذاہب میں بھی عبادات اور ذکر کے مختلف طریقے موجود ہیں، لیکن ان میں "اللہ
ہو" جیسے مخصوص الفاظ کا ورد نہیں پایا جاتا۔ مثال کے طور پر، عیسائیت میں
چرچ میں دعائیں اور حمد و ثنا گائی جاتی ہیں، جبکہ ہندومت میں منتر اور بھجن گائے
جاتے ہیں۔ بدھ مت میں مخصوص دعائیہ الفاظ کی تکرار (چینٹنگ) ہوتی ہے، جو ان کے
روحانی معمولات کا حصہ ہے۔ ان تمام مذاہب میں مشترکہ بات یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد
کے مطابق مخصوص الفاظ یا جملے دہراتے ہیں، لیکن "اللہ ہو" کا تصور
خالصتاً اسلامی دائرے میں پیدا ہوا ہے اور وہ بھی بدعت کے طور پر۔
پاکستان
میں بریلوی مسلک کے تحت کئی صوفی سلسلے اس عمل کو فروغ دیتے ہیں۔ بریلوی مسلک کا
جھکاؤ صوفیانہ تعلیمات اور عملی تصوف کی طرف زیادہ ہے، جس کی وجہ سے ذکر و اذکار
کے اضافی طریقے ان کے حلقوں میں عام ہیں۔ خانقاہوں، درگاہوں اور عوامی اجتماعات
میں "اللہ ہو" کا ورد ایک عام روایت ہے، جسے یہ روحانیت کا ذریعہ اور دل
کی صفائی کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں۔
اسلام
میں بدعت کی سخت ممانعت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں سے
نہیں ہے، تو وہ رد کر دی جائے گی۔"نماز کے بعد اذکار کی جو
شکلیں قرآن و سنت سے ثابت ہیں، ان سے ہٹ کر کسی نئے عمل کو دین کا حصہ بنانا
ناجائز اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ "اللہ ہو" کا ورد کرنا نہ تو قرآن
میں موجود ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر ہے، اس لیے یہ عمل بدعت کے دائرے
میں آتا ہے۔
ائمہ
کرام نے بدعت کے حوالے سے واضح احکامات دیے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"جو چیز اس وقت دین نہ تھی جب رسول اللہ ﷺ
تھے، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی۔"امام
شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:"ہر وہ عمل جو سنت کے مخالف ہو، وہ بدعت ہے۔"ائمہ
کرام کا اتفاق ہے کہ دین میں کسی نئے عمل کو شامل کرنا یا اس کی حیثیت کو عبادت کا
درجہ دینا گمراہی ہے۔ سلام کے بعد "اللہ ہو" کا ورد ایک ایسا عمل ہے جس
کا نہ تو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور نہ صحابہ کرام نے اسے اپنایا، لہٰذا یہ بدعت
کے زمرے میں آتا ہے۔
اس
بدعت سے کیسے بچیں؟
1.
قرآن و سنت کی پیروی کریں: دین میں ہر عمل کے
لیے قرآن اور صحیح حدیث کو بنیاد بنائیں۔ نماز کے بعد اذکار اور دعائیں سنت کے
مطابق کریں۔
2.
علم حاصل کریں: علماء
اور مستند اسلامی کتب سے علم حاصل کریں تاکہ بدعات سے محفوظ رہ سکیں۔
3.
بدعت کے اثرات سے آگاہی: بدعت کے روحانی
اور عملی نقصانات کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کریں۔
4.
اہل علم سے رجوع کریں: اگر کسی عمل کے
بارے میں شک ہو تو علماء سے رجوع کریں اور ان سے رہنمائی لیں۔
5.
اجتماعی بدعات سے دوری: ایسی محافل اور
اجتماعات سے گریز کریں جہاں بدعات کو فروغ دیا جاتا ہو۔
6.
دعوت و تبلیغ: معاشرے
میں بدعات کے خلاف شعور اجاگر کریں اور لوگوں کو سنت نبوی ﷺ کی طرف متوجہ کریں۔
اسلام
ایک مکمل دین ہے جو کسی اضافے یا کمی کا محتاج نہیں۔ سلام کے بعد "اللہ
ہو" کا ورد ایک غیر مستند عمل ہے جو دین کی پاکیزگی پر ایک حملہ ہے۔ مسلمانوں
کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کو صرف قرآن و سنت کے مطابق رکھیں اور بدعات سے مکمل
اجتناب کریں، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں اور حقیقی طور پر دین اسلام
کی خدمت انجام دے سکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔