اسلام
ایک پاکیزہ دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دین کی اصل
بنیاد قرآن و سنت پر قائم ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے مکمل ہدایت
فراہم کرتے ہیں۔ بدعت، دین میں نئی باتوں کا اضافہ کرنے کو کہتے ہیں، جو نہ صرف
دین کے خلوص کو متاثر کرتی ہے بلکہ لوگوں کو حقیقی اسلامی تعلیمات سے بھی دور لے
جاتی ہے۔ دین کی پاکیزگی پر بدعتی حملوں میں ایک حملہ جنازے کے موقع پر ڈھول بجانے
کا رواج ہے، جو نہ صرف اسلامی اصولوں کے منافی ہے بلکہ سماجی اقدار کو بھی متاثر
کرتا ہے۔
جنازے
کا موقع ایک سنجیدہ اور پرسکون لمحہ ہوتا ہے، جہاں مرنے والے کے لیے دعائیں کی
جاتی ہیں اور آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر ڈھول بجانا ایک غیر اسلامی
عمل ہے، جو جنازے کی روحانیت اور وقار کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بدعتی عمل نہ صرف
اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس سے سوگواران کے جذبات بھی مجروح ہوتے
ہیں۔ اسلامی تعلیمات ہمیں سادگی اور خالصیت کے ساتھ جنازے کے معاملات انجام دینے
کی ہدایت دیتی ہیں، اور غیر ضروری رسومات کی سختی سے ممانعت کرتی ہیں۔
بدعتی
اعمال جیسے جنازے پر ڈھول بجانا، اسلامی معاشرے میں دین کی حقیقی روح کو کمزور کر
سکتے ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لیے علماء اور دینی رہنماؤں کا کردار نہایت اہم ہے۔ وہ
لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں آگاہ کریں اور بدعت کے نقصانات سے
آگاہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی، ہمیں خود بھی یہ ذمہ داری لینا ہوگی کہ دین کے پاکیزہ
اصولوں کی حفاظت کریں اور بدعتی اعمال سے بچیں۔ اصلاحی کوششوں سے ہم دین کی اصل
روح کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں تک صحیح تعلیمات منتقل کر سکتے ہیں۔
جنازے
پر ڈھول بجانے سے مراد وہ عمل ہے جس میں کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے جنازے کے
موقع پر ڈھول یا دیگر موسیقی کے آلات بجائے جاتے ہیں۔ یہ عمل بظاہر مرنے والے کے
اعزاز کے طور پر کیا جاتا ہے یا بعض مخصوص رسومات کے حصے کے طور پر، لیکن اسلامی
تعلیمات کے مطابق یہ عمل نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ جنازے کی سنجیدگی اور روحانیت کو
بھی مجروح کرتا ہے۔ جنازہ ایک ایسی عبادت ہے جو سادگی، خاموشی، اور دعاؤں پر مشتمل
ہونی چاہیے، اور اس میں کسی بھی قسم کی غیر ضروری نمود و نمائش ممنوع ہے۔
یہ
بدعتی عمل عام طور پر ان گروہوں یا فرقوں میں پایا جاتا ہے جو مخصوص ثقافتی یا
علاقائی رسومات کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بعض صوفی یا ثقافتی گروہ اس طرح کے
اعمال میں پیش پیش رہتے ہیں، جو مقامی روایات اور رسومات کو دین پر ترجیح دیتے
ہیں۔ تاہم، یہ واضح رہنا چاہیے کہ اسلامی فقہ کے بڑے مکاتب فکر، جیسے کہ حنفی،
شافعی، مالکی، اور حنبلی، سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنازے میں اس طرح کی بدعات کا
کوئی جواز نہیں ہے۔ اس طرح کے اعمال اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی ہیں اور
لوگوں کو حقیقی دین سے دور کرتے ہیں۔
جنازے
پر ڈھول بجانے کی رسم کی ابتدا واضح طور پر کسی ایک وقت یا جگہ سے منسوب نہیں کی
جا سکتی، لیکن یہ عام طور پر ان معاشروں میں پیدا ہوئی جہاں مقامی ثقافتوں کو مذہب
پر فوقیت دی گئی۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں اس طرح کی رسومات کی مثالیں سامنے
آئی ہیں، جن میں جنازے پر ڈھول بجانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ ان
ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ جنازے کے دوران ڈھول کی آوازوں کے ساتھ لوگ جذباتی انداز
میں شریک ہو رہے ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ یہ اعمال نہ صرف دین کی
بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کو بھی غلط تاثر دیتے
ہیں۔
جنازے
پر ڈھول بجانا اسلام کے ساتھ ایک کھلا مذاق ہے۔ یہ عمل نہ صرف دینی تعلیمات کی
خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے دین کی پاکیزگی کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ جنازے کا
مقصد مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت اور آخرت کی یاد دہانی ہے، نہ کہ خوشی یا تفریح
کا مظاہرہ۔ اس طرح کی بدعات اسلامی معاشرے کو کمزور کرتی ہیں اور لوگوں کو دین کی
اصل روح سے دور کر دیتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اور دینی رہنما اس مسئلے
پر توجہ دیں اور لوگوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح راستہ دکھائیں تاکہ اس قسم
کے غیر شرعی اعمال کا خاتمہ ہو سکے۔
جنوبی
ایشیائی ممالک جیسے کہ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، اور سری لنکا میں جنازے پر ڈھول
بجانے اور دیگر بدعتی رسومات کا فروغ زیادہ تر ثقافتی اور علاقائی روایات کی وجہ
سے ہوا ہے۔ ان ممالک میں مختلف برادریاں اپنے روایتی رسوم و رواج کو دین کا حصہ
سمجھ کر اپناتی ہیں۔ یہ بدعات عام طور پر ان علاقوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں جہاں
مذہبی تعلیمات کی کمی ہے یا جہاں مخصوص گروہ اپنی ثقافتی شناخت کو دین پر فوقیت
دیتے ہیں۔ شادی، جنازے، اور دیگر مذہبی تقریبات میں موسیقی اور ڈھول بجانے جیسی
رسوم اکثر عوام کی غیر ضروری جذباتی وابستگی کی وجہ سے جاری رہتی ہیں، جو اسلامی
تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں۔
دیگر
مذاہب میں جنازے کے موقع پر مختلف قسم کی رسومات انجام دی جاتی ہیں، جن میں بعض
جگہوں پر موسیقی اور ڈھول بجانا شامل ہوتا ہے۔ عیسائیت میں، خاص طور پر کیتھولک
اور پروٹسٹنٹ فرقوں میں، جنازے پر موسیقی کا استعمال عام ہے، لیکن یہ زیادہ تر
مذہبی گیتوں یا آرام دہ دھنوں تک محدود ہوتا ہے۔ ہندو مت میں، مرنے والے کی آخری
رسومات کے دوران ڈھول اور دیگر موسیقی کا استعمال بعض تہواروں یا خوشی کے اظہار کے
طور پر کیا جاتا ہے، جسے وہ نجات یا "موکشا" کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان
رسومات کا مذہبی تشخص ان کے عقائد سے جڑا ہوتا ہے، لیکن ان کا اسلام سے کوئی تعلق
نہیں، جو سادگی اور وقار پر زور دیتا ہے۔
زرتشت
مذہب میں، جنازے کے موقع پر موسیقی یا ڈھول بجانے کا عمومی تصور نہیں پایا جاتا۔
زرتشتی عقیدے میں موت کو خاموشی اور سکون کے ساتھ قبول کرنے پر زور دیا جاتا ہے،
اور مرنے والے کی آخری رسومات فطری انداز میں انجام دی جاتی ہیں۔ بدھ مت میں،
جنازے کے دوران سکون اور مراقبے پر زور دیا جاتا ہے، اور کسی بھی قسم کی بلند آواز
یا موسیقی کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، بعض علاقوں میں، خاص طور پر تبت اور
نیپال کے بدھ مت پیروکار، مرنے والے کے احترام میں مخصوص دعائیہ موسیقی بجاتے ہیں،
جو ان کی روایات کا حصہ ہے۔ یہ تمام رسومات اسلام کے جنازے کی تعلیمات سے مختلف
ہیں، جو مکمل سادگی اور دعا پر مبنی ہیں۔
اسلام
میں جنازے کو مکمل سنجیدگی اور سادگی کے ساتھ انجام دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ قرآن
و سنت میں جنازے کی رسومات کو فضول خرچی، نمود و نمائش، اور غیر ضروری رسومات سے
پاک رکھنے کا حکم ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بدعات کو گمراہی قرار دیا اور فرمایا کہ ہر
بدعت جہنم میں لے جانے والی ہے۔ جنازے کے دوران کسی بھی قسم کی موسیقی یا ڈھول
بجانے کی نہ صرف ممانعت ہے بلکہ یہ عمل دین میں نئی باتوں کا اضافہ ہے، جو اللہ
اور اس کے رسول ﷺ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ اس بدعت کے ذریعے دین کی اصل
روح کو نقصان پہنچانے والوں کو سخت وعید دی گئی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب کی
خبر دی گئی ہے۔
ائمہ
کرام کے نزدیک جنازے کی بے حرمتی ایک سنگین گناہ ہے، کیونکہ یہ عمل اسلامی تعلیمات
اور شعائر کے خلاف ہے۔ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ جنازے کا مقصد مرنے والے کے
لیے دعا اور اللہ کے حضور مغفرت کی التجا کرنا ہے، اور اس میں کسی بھی قسم کی نمود
و نمائش، موسیقی، یا بدعتی رسومات شامل کرنا حرام ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک،
امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ کرام نے اس قسم کے اعمال کی سختی سے
مذمت کی ہے۔ ان کے مطابق، جنازے کے دوران ایسے اعمال انجام دینا اللہ کی نافرمانی
کے مترادف ہے اور اس کے مرتکب افراد کو توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مسلک
دیوبند جنازے کی سادگی اور قرآن و سنت کے مطابق رسومات پر زور دیتا ہے، اور کسی
بھی بدعتی عمل کو سختی سے رد کرتا ہے۔ مسلک بریلوی بھی جنازے کے لیے دعاؤں اور
مخصوص طریقہ کار پر عمل کرنے کو ترجیح دیتا ہے، لیکن بعض ثقافتی اثرات کی وجہ سے
اس میں تنوع پایا جا سکتا ہے۔ مسلک اہل حدیث، جو خالصتاً قرآن و سنت کی پیروی پر
زور دیتا ہے، جنازے میں بدعات کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیتا ہے۔ اہل تشیع کے
مطابق بھی جنازے کی رسومات کو وقار اور دعا کے ساتھ انجام دینا ضروری ہے، تاہم ان
میں بعض مخصوص رسومات شامل ہیں جو ان کے عقائد کا حصہ ہیں۔ احمدی جماعت جنازے کے
معاملات کو اسلامی اصولوں کے مطابق انجام دیتی ہے، لیکن ان کے عقائد کو دیگر مکاتب
فکر سے اختلافات کی وجہ سے عمومی قبولیت حاصل نہیں۔ ندوی مسلک بھی قرآن و سنت کی
رہنمائی میں جنازے کی ادائیگی کو لازم قرار دیتا ہے اور بدعات کی مخالفت کرتا ہے۔
جنازے
میں بدعات اور بے حرمتی سے بچنے کے لیے دین کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر
عمل کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، جنازے کے شرعی طریقہ کار کو سیکھا جائے اور دوسروں
کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔ علماء اور دینی رہنما اس مسئلے پر خطبات اور
دروس کے ذریعے عوام کو صحیح رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ معاشرتی دباؤ یا ثقافتی
روایات کے بجائے قرآن و سنت کی پیروی کو ترجیح دی جائے۔ والدین اور اساتذہ کو
چاہیے کہ بچوں کو ابتدائی عمر سے دین کے شعائر کی تعلیم دیں تاکہ وہ ان کی حقیقی
اہمیت کو سمجھ سکیں۔ توبہ اور دعا کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کی جائے اور ایسے
مواقع پر غیر شرعی عمل سے اجتناب کیا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔