اسلام
کی بنیادی تعلیمات میں ذکر اور عبادات کی تمام شکلوں میں خلوص، سادگی، اور شرعی
اصولوں کی پابندی شامل ہے۔ محافل نعت میں موسیقی کا استعمال ایک ایسی بدعت ہے جو
دین کی اصل روح کو متاثر کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا"اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو
کھیل تماشے کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ اللہ کے راستے سے گمراہ کریں۔" مفسرین کے مطابق، "لہو
الحدیث" میں موسیقی اور وہ چیزیں شامل ہیں جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل
کر دیں۔
رسول
اللہ ﷺ نے موسیقی اور گانے بجانے کو دین میں گمراہی اور ضلالت کا سبب قرار دیا۔ آپ
ﷺ نے فرمایا"میری امت
میں ایسے لوگ ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب، اور موسیقی کو حلال قرار دیں گے۔"
محافل نعت میں موسیقی کے استعمال کا رجحان ایک نیا اضافہ ہے، جو عبادات کے مفہوم
کو مسخ کرتا ہے اور لوگوں کو دین کے اصل مقصد سے دور لے جاتا ہے۔
نعت
خوانی ایک عبادتی عمل ہے جس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی مدح کرنا، آپ کی تعلیمات کو
عام کرنا، اور لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت کو بڑھانا ہے۔ لیکن جب اس عبادتی عمل
میں موسیقی شامل کی جاتی ہے، تو یہ نعت کی روح کو متاثر کرتی ہے اور اس کی سادگی
ختم ہو جاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں نعت خوانی کا طریقہ کار انتہائی سادہ
اور خالص تھا۔ سیدنا حسان بن ثابتؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں نعت پڑھتے تھے،
لیکن ان کے کلام میں موسیقی یا ساز و آلات کا کوئی تصور نہیں تھا۔
اسلام
نے عبادات اور ذکر الٰہی کو موسیقی اور دنیاوی تفریحات سے الگ رکھنے کا حکم دیا
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: "وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے
ذکر سے سکون پاتے ہیں؛ خبردار! اللہ کے ذکر ہی سے دل سکون پاتے ہیں۔"
نعت خوانی کو خالص ذکر الٰہی کا ذریعہ بنایا جائے اور موسیقی کے استعمال سے گریز
کیا جائے، تاکہ اس عبادتی عمل کی اصل روح برقرار رہے۔
محافل
نعت میں موسیقی کا استعمال دین میں ایک خطرناک بدعت کے طور پر ابھرا ہے، جو نہ صرف
دین کی پاکیزگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ امت مسلمہ کے اتحاد کو بھی نقصان پہنچاتا
ہے۔ ایسی محافل میں شرکت کرنے والے افراد کا دھیان موسیقی اور نعت کے انداز پر
زیادہ ہوتا ہے، جبکہ دین کی اصل تعلیمات اور ذکر الٰہی پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"جس
نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی، وہ ناقابل قبول ہے۔"
پاکستان
میں اہل تشیع محرم الحرام کی مجالس اور میلاد کی محافل کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ ان
محافل میں شرکت کو نہ صرف مذہبی فریضہ قرار دیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو
یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اگر وہ ان مجالس میں شرکت نہ کریں تو وہ گناہگار ہوں گے۔
یہ رویہ دین کی اصل تعلیمات سے انحراف ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں"جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو
اختیار کرے گا، اس سے وہ قبول نہ کیا جائے گا۔" دین اسلام نے
عبادات کو خالصتاً اللہ کے لئے مقرر کیا ہے اور ان میں کسی بھی قسم کی نئی شریعت
یا بدعت شامل کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
رسول
اللہ ﷺ نے واضح طور پر بدعات سے بچنے کی تلقین کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا"جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز
شامل کی جو اس میں نہیں تھی، وہ ناقابل قبول ہے۔" اہل تشیع اور
دیگر فرقوں کی طرف سے میلاد یا محرم کی مجالس میں شرکت کو فرض قرار دینا ایک بدعت
ہے جو دین اسلام کی خالصیت اور سادگی کے خلاف ہے۔
میلاد
النبی ﷺ کی محافل میں شرکت کو دینی فریضہ سمجھنا اور لوگوں کو گمراہ کرنا کہ شرکت
نہ کرنے سے وہ گناہگار ہوں گے، دین کی اصل روح کو نقصان پہنچاتا ہے۔ قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"اللہ
کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔"
رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ آپ ﷺ نے اپنی پیدائش یا دیگر
مواقع پر ایسی محافل کا اہتمام کیا ہو۔
اہل
حدیث اور اہل دیوبند کے علما نے بھی میلاد کی محافل میں ہونے والی بدعات اور ان
میں موسیقی، بے جا خرچ، اور غیر شرعی اعمال پر تنقید کی ہے۔ ان کے نزدیک دین اسلام
کی اصل بنیاد توحید اور سنت رسول ﷺ پر عمل ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
"دین کو اپنی خواہشات
کے تابع نہ کرو، بلکہ اللہ کے احکام اور رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کرو۔"
اس لئے میلاد کی محافل میں بدعات کو دین کا حصہ بنانا شریعت کی خلاف ورزی ہے اور
لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔
اہل
حدیث اور اہل دیوبند کے نزدیک دین کی اصل روح توحید اور سنت رسول ﷺ کی پیروی ہے۔
وہ بدعات کو دین کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور ایسی محافل یا مجالس میں شرکت
کو ناجائز قرار دیتے ہیں جن کا قرآن و سنت میں کوئی ثبوت نہ ہو۔ اہل حدیث کے علما
کا موقف ہے کہ دین میں ہر وہ عمل جو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے میں موجود
نہ تھا، اسے دین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اس کی پیروی کرو اور دیگر راستوں
پر نہ چلو۔"
اہل
دیوبند کے علما بھی ایسی محافل اور مجالس میں شرکت کو ناجائز سمجھتے ہیں جن میں
شرعی حدود کی خلاف ورزی ہو یا جنہیں دین کا حصہ بنا کر پیش کیا جائے۔ ان کے نزدیک،
رسول اللہ ﷺ کی محبت اور تعظیم کا حقیقی مظہر آپ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے، نہ کہ
غیر شرعی رسومات میں شرکت۔ دین کی اصل خالصیت کو برقرار رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے
کہ مسلمان بدعات اور غیر شرعی اعمال سے اجتناب کریں۔
اہل
حدیث اور اہل دیوبند کے علما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو بدعات سے بچنے
اور دین اسلام کی خالص تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ محافل میلاد اور محرم کی
مجالس کو دین کا لازمی حصہ سمجھنا یا ان میں شرکت کو گناہ سے بچنے کا ذریعہ قرار
دینا شریعت کی خلاف ورزی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"میں تمہیں صاف ستھرے راستے پر چھوڑے
جا رہا ہوں، اس کی رات دن کی طرح روشن ہے، میرے بعد اس سے صرف گمراہ ہی ہٹے گا۔"
بدعات
کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات سے روشناس کرایا
جائے۔ علما اور دینی رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ مساجد، مدارس، اور دعوتی پروگراموں کے
ذریعے عوام کو بدعات کے نقصانات اور دین کی اصل روح کے بارے میں آگاہ کریں۔ محافل
میں شرکت کو گناہ و ثواب کے پیمانے سے ہٹ کر، دین کو اس کی خالص شکل میں سمجھنے
اور اپنانے کی ترغیب دی جائے، تاکہ دین اسلام کی اصل روح محفوظ رہے۔
علما
اور ائمہ کرام کا بھی یہی موقف ہے کہ نعت خوانی کو خالص اور شرعی اصولوں کے مطابق
رکھا جائے۔ امام ابن قیمؒ نے فرمایا: "موسیقی اور گانے دل کو خراب کرتے ہیں اور انسان کو اللہ
کی یاد سے غافل کرتے ہیں۔" مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ محافل نعت میں
موسیقی کے استعمال سے اجتناب کریں اور نعت خوانی کو خالصتاً ذکر الٰہی کے طور پر
اپنائیں، تاکہ دین کی پاکیزگی اور عبادات کی اصل روح محفوظ رہے۔ قرآن و سنت کی
تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بدعات سے بچنا ہی دین کی اصل حفاظت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔