اسلام
میں ہر عمل کو قرآن و سنت کی روشنی میں انجام دینا ضروری ہے، اور کسی بھی عبادت یا
اجتماع کو فرض سمجھنا، جب کہ وہ شریعت میں فرض نہ ہو، دین میں غلو اور بدعت کے
زمرے میں آتا ہے۔ بعض افراد یا گروہ مخصوص مجالس میں شرکت کو دینی فریضہ یا ثواب
کا عمل سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ مجالس کتاب و سنت میں نہیں پائی جاتیں۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں: "جو
رسول تمہیں دے، وہ لے لو، اور جس سے منع کرے، رک جاؤ۔" اگر کوئی
مجلس شریعت میں واضح طور پر نہیں ہے اور اسے فرض سمجھا جا رہا ہے، تو یہ عمل قرآن
و سنت کی روح کے منافی ہے۔
رسول
اللہ ﷺ نے عبادات کو اپنی مقرر کردہ حدود میں رکھنے کی تاکید کی ہے اور ان میں
زیادتی یا غلو سے منع کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں
غلو نے ہلاک کیا۔" مجالس میں شرکت کو فرض یا عبادت سمجھنے سے نہ
صرف دین کی اصل تعلیمات پر پردہ پڑتا ہے بلکہ یہ امت کو گمراہی اور تفرقے کی طرف
لے جاتا ہے۔ دین کی پاکیزگی اور سادگی کو برقرار رکھنے کے لئے ان بدعات سے بچنا
انتہائی ضروری ہے۔
کسی
بھی غیر شرعی عمل کو فرض سمجھنے سے دین میں بدعات کا دروازہ کھلتا ہے اور یہ امت
کے اندر تفرقے کا باعث بنتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دین میں کسی قسم کی نئی چیز شامل
کرنے سے سختی سے منع کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا"جو ہمارے دین میں کوئی نئی چیز شامل کرے جو اس میں نہ ہو،
وہ ناقابل قبول ہے۔" مجالس میں حاضر ہونا اگر کسی خاص شخصیت یا
گروہ کے نظریات کو فروغ دینے کے لئے ہو، تو یہ دین کی روح کے خلاف ہے اور ایک بدعت
ہے۔
ایسی
مجالس میں شرکت کو دینی فریضہ قرار دینے سے ایک طرف عام لوگوں میں بدعات کا رجحان
پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ افراد جو ان مجالس میں شرکت نہیں کرتے، انہیں
گناہگار سمجھا جاتا ہے، حالانکہ شریعت نے ان پر کوئی ذمہ داری نہیں رکھی۔ اللہ
تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں"کہو، اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔" مجالس کو فرض
قرار دینے کے لئے کوئی شرعی دلیل نہ ہونے کے باوجود اسے دین کا حصہ سمجھنا گمراہی
کا سبب بن سکتا ہے اور امت کے اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔
دین
اسلام کی اصل پاکیزگی اس کی سادگی اور قرآن و سنت کی پیروی میں مضمر ہے۔ ایسی
مجالس کو دین کا حصہ سمجھنا اور ان میں شرکت کو فرض قرار دینا دین کی روح کے منافی
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تاکید کی ہے کہ دین میں کوئی اضافہ یا کمی نہ کی جائے: "یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اس کی پیروی کرو
اور دیگر راستوں پر نہ چلو۔" دین کی اصل
تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی انسان دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اسلام
میں مجالس کے انعقاد کا مقصد اللہ کی یاد، قرآن و سنت کی تعلیم، اور دینی شعور
اجاگر کرنا ہے، لیکن کچھ فرقے ایسی مجالس کا انعقاد کرتے ہیں جنہیں وہ دینی طور پر
لازم یا باعث ثواب سمجھتے ہیں، حالانکہ ان کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں نہیں۔ محرم
الحرام کی مجالس، میلاد النبی ﷺ کی تقریبات، چالیسواں، اور دیگر خاص مواقع پر ہونے
والی مجالس کا اہتمام کرنے والے فرقوں میں اکثر اہل تشیع، بریلوی مسلک، اور دیگر
گروہ شامل ہیں۔ اہل تشیع میں محرم کی مجالس، جن میں شہادت امام حسینؓ کا ذکر کیا
جاتا ہے، کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور ان مجالس کو دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
بریلوی مسلک میں میلاد کی مجالس اور چالیسویں کی تقریبات کو دین میں شامل تصور کیا
جاتا ہے۔ یہ مجالس اکثر غیر شرعی رسومات اور بدعات پر مشتمل ہوتی ہیں جن کا دین
اسلام کی اصل تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔
اللہ
تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں"اور اللہ پر وہ بات نہ کہو جس کا تمہیں علم نہیں۔" مجالس
کو دین کا حصہ سمجھنا یا انہیں دینی طور پر لازم قرار دینا اس حکم کی خلاف ورزی
ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔"
اس کے باوجود، ان فرقوں میں مجالس کو دین کا حصہ بنا کر ان میں شرکت کو باعث اجر
سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ عمل شریعت کے منافی ہے۔
دور
جاہلیت میں مجالس کا کوئی دینی تصور موجود نہیں تھا، بلکہ یہ تہذیبوں میں سماجی
تقریبات یا مذہبی تہواروں کے طور پر منعقد کی جاتی تھیں۔ عربوں میں جاہلیت کے
زمانے میں مجالس کا اہتمام عموماً قبائلی امور یا شرک پر مبنی تقریبات کے لئے کیا
جاتا تھا۔ قرآن مجید نے جاہلیت کے ان اعمال کو رد کرتے ہوئے مسلمانوں کو دین کے
خالص اصول اپنانے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔"
دوسری
اقوام میں بھی مجالس کے مختلف مظاہر دیکھے گئے ہیں۔ مثلاً ہندومت میں یگیہ اور
پوجا کی رسومات کے لئے اجتماعات ہوتے تھے، بدھ مت میں گوتم بدھ کے درشن اور
تعلیمات کے لئے مجالس ہوتی تھیں، اور سکھ مت میں گرنتھ صاحب کی تعلیمات کو سننے کے
لئے اکٹھے ہوتے تھے۔ اہل یہود اور عیسائیوں میں بھی مخصوص مذہبی تقریبات کے لئے
مجالس منعقد کی جاتی تھیں، جن میں وہ اپنی عبادات اور رسومات ادا کرتے تھے۔ اسلام
نے ان تمام غیر ضروری رسومات کو ختم کرتے ہوئے دین کو سادگی اور توحید پر قائم
کیا، لیکن بدقسمتی سے بعد میں کچھ فرقوں نے انہی غیر اسلامی رسومات کو دین کا حصہ
بنانے کی کوشش کی۔
دیگر
مذاہب میں مجالس اور مذہبی تقریبات کا تصور بہت پرانا ہے اور ان میں اکثر غیر شرعی
اعمال شامل ہوتے ہیں۔ ہندوازم میں مذہبی مجالس کے دوران دیوی دیوتاؤں کی پوجا اور
گیتا کے اشلوک کا پڑھا جانا شامل ہے۔ بدھ مت میں بدھ کی تعلیمات کو پھیلانے کے لئے
بڑے اجتماعات منعقد کئے جاتے تھے۔ سکھ ازم میں گردواروں میں گرنتھ صاحب کی تلاوت
اور مذہبی گیت گائے جاتے ہیں۔ اہل یہود میں "شاباط" اور عیسائیوں میں
"ایسٹر" یا "کرسمس" جیسی تقریبات مذہبی مجالس کا حصہ ہیں۔
زرتشتی مذہب میں آگ کی پوجا کے لئے اجتماعات ہوتے تھے۔ ان مذاہب کی رسومات میں
اکثر خرافات اور شرک کے عناصر موجود ہوتے ہیں، اور بعض مسلمان فرقوں نے انہی
رسومات کو اپنی مجالس میں شامل کر لیا ہے۔
اسلام
ان تمام غیر ضروری رسومات سے پاک ہے اور اس کی تعلیمات میں توحید، عبادت میں خلوص،
اور شرک سے اجتناب پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا۔"
مجالس میں ان رسومات کا شامل ہونا اسلام کی اصل روح کے منافی ہے اور یہ مسلمانوں
کو دین سے دور لے جاتا ہے۔
ائمہ
کرام اور علمائے امت نے بدعات کو دین کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ امام مالکؒ
فرماتے ہیں "جس نے
دین میں کوئی بدعت ایجاد کی اور اسے اچھا سمجھا، تو گویا اس نے یہ دعویٰ کیا کہ
محمد ﷺ نے رسالت میں خیانت کی۔" اسی طرح امام شافعیؒ اور امام
احمد بن حنبلؒ نے بدعات سے سختی سے بچنے کی تاکید کی ہے۔
ائمہ
کرام کے نزدیک ایسی مجالس، جن کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں، اور انہیں دین کا
حصہ بنا کر ان میں شرکت کو لازم قرار دینا بدعت ہے۔ ان کے مطابق، دین کی اصل
تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بدعات سے اجتناب کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: "میں
نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو تمہیں اللہ کے قریب کرے مگر وہ کہ جس کا میں نے
تمہیں حکم دیا ہو۔" اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دین کو اپنی
اصل شکل میں محفوظ رکھیں اور بدعات سے مکمل اجتناب کریں۔
ایسی
مجالس، جو دین میں فرض نہیں لیکن انہیں فرض سمجھا جاتا ہے، دین میں خرافات اور
بدعات کا سبب بنتی ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دین کی اصل تعلیمات کو سمجھیں اور
ان غیر ضروری رسومات یا اعمال سے اجتناب کریں جن کا قرآن و سنت میں ذکر نہیں۔ دین
کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات پر
مضبوطی سے عمل کریں اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالیں، تاکہ ہم بدعات اور
گمراہی سے محفوظ رہ سکیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم
انہیں مضبوطی سے تھامے رہو گے، کبھی گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔