google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 48 سالگرہ کو دین کا حصہ بنانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

منگل، 24 دسمبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 48 سالگرہ کو دین کا حصہ بنانا



 

اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے، جس میں کسی اضافے یا کمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی، اور اسلام کو تمہارے لئے بطور دین پسند کیا۔" دین میں کسی بھی نئے عمل یا رسم کا اضافہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ سالگرہ منانے کو دین کا حصہ سمجھنا بھی ایسی ہی ایک بدعت ہے، جو دین کی پاکیزگی کو داغدار کرتی ہے۔ یہ عمل دین میں نئی رسومات شامل کرنے کی کوشش ہے، جس کی اسلام میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے دین میں بدعات کے خطرے کو واضح طور پر بیان کیا اور ان سے بچنے کی تاکید فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز داخل کرے جو اس میں سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔" سالگرہ منانا ایک غیر اسلامی رسم ہے، جو مغربی ثقافت سے اخذ کی گئی ہے۔ اس رسم کو اپنانا مسلمانوں کو اس راستے پر ڈال دیتا ہے جو دین کی اصل تعلیمات سے دور لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، سالگرہ کے مواقع پر فضول خرچی، وقت اور وسائل کا ضیاع، اور بعض اوقات غیر شرعی حرکات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، جو شریعت کی روح کے بالکل خلاف ہیں۔

 

اسلام ہمیں سادگی اور اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے، نہ کہ غیر ضروری تقریبات اور غیر اسلامی رسومات کی طرف۔ سالگرہ منانے کو دین کا حصہ بنانا یا اسے نیکی سمجھنا واضح طور پر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے"اتباع کرو اور بدعات مت ایجاد کرو، تمہارے لیے سب کچھ مکمل ہو چکا ہے۔" ہمیں چاہئے کہ ہم دین کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھیں اور ان بدعات سے بچیں جو دین کی پاکیزگی کو متاثر کرتی ہیں۔ دین اسلام مکمل اور جامع ہے؛ اس میں کسی اضافے کی گنجائش نہیں۔ بدعتی رسومات کو اپنانے سے ہمیں نہ صرف پرہیز کرنا چاہئے بلکہ دوسروں کو بھی اس کے خطرات سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

 

سالگرہ کو دین کا حصہ بنانے سے مراد یہ ہے کہ سالگرہ منانے کو ایک مذہبی یا نیک عمل تصور کیا جائے اور اسے اسلامی تعلیمات کا حصہ قرار دیا جائے، حالانکہ دین اسلام میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ رویہ دین میں بدعت شامل کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرمایا"اپنی زبانوں سے جھوٹ گھڑ کر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔" دین کے نام پر کسی ایسی رسم یا عمل کو متعارف کرانا جس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو، دین میں غلو اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث میں دین میں نئی رسومات شامل کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا"ہر نیا کام (جو دین میں شامل کیا جائے) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔" سالگرہ منانے کو دین کا حصہ سمجھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے نیکی یا ثواب کا کام تصور کیا جائے، جو سراسر غلط ہے۔ یہ عمل نہ صرف دین کی اصل روح سے انحراف ہے بلکہ مسلمانوں کو ایسی رسومات کی پیروی کی طرف لے جاتا ہے جو غیر اسلامی ہیں۔

 

سالگرہ منانے کو دین کا حصہ بنانے کا تصور خاص طور پر ان حلقوں میں زیادہ نظر آتا ہے جو تصوف یا دیگر روایتی رسومات کو دین کا جزو سمجھتے ہیں۔ بعض مسالک اور حلقے نیک لوگوں کی یاد منانے یا خاص دنوں کو جشن کے طور پر منانے کی روایت رکھتے ہیں۔ اس کے اثرات بعض مسلمانوں میں سالگرہ جیسے ذاتی دنوں کی تقریبات کو بھی دین کا حصہ سمجھنے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ان حلقوں میں بعض اوقات ایسی تقریبات کو ثواب کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جو کہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔

 

اسلامی تعلیمات کے مطابق، انسان کا ہر عمل نیت پر منحصر ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"اگر کوئی سالگرہ منانے کو دین کا حصہ سمجھتا ہے، تو یہ واضح طور پر دین میں بدعت کے اضافے کے مترادف ہوگا۔ ان مسالک میں مغربی رسم و رواج اور عیسائی تہواروں کے اثرات بھی نمایاں ہیں، جہاں سالگرہ جیسی تقریبات کو اپنایا گیا اور انہیں ایک مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔

 

سالگرہ کی روایت دراصل عیسائیوں کے تہواروں سے متاثر ہے۔ عیسائی روایت میں، سالگرہ خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش (کرسمس) کے طور پر منائی جاتی ہے، جو عیسائی مذہب میں ایک اہم تہوار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، دیگر شخصیات اور عام افراد کی سالگرہ منانے کی روایت بھی مغربی تہذیب کا حصہ ہے، جو بعد میں دیگر معاشروں میں پھیل گئی۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کی تقلید سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "اور ظالموں کی طرف نہ جھکو، ورنہ تمہیں آگ چھو جائے گی۔"

رسول اللہ ﷺ نے بھی غیر مسلموں کی نقالی سے اجتناب کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا"جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔" سالگرہ کا تصور، جو عیسائیوں کے مذہبی تہواروں سے لیا گیا، اسلام کی سادگی اور یکجہتی کے خلاف ہے۔ مسلمان اپنے دین میں اس قسم کی غیر اسلامی رسومات کو شامل کرنے کے بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اعمال کو ترتیب دیں تاکہ وہ دین کی اصل روح کو محفوظ رکھ سکیں اور بدعات سے بچ سکیں۔

 

عید میلاد کے دن سالگرہ کا کیک کاٹنا، عرس کرنا، اور دیگر خرافات کا رواج دین اسلام کی سادگی اور شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ یہ اعمال عموماً غیر اسلامی رسومات اور دیگر مذاہب کے تہواروں سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرمایا"اور اس چیز کے پیچھے مت چلو جس کا تمہیں علم نہیں۔" رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی یاد منانے کے لئے مخصوص دن مقرر کرنا، کیک کاٹنا، اور اس کو جشن کی شکل دینا نہ نبی اکرم ﷺ کے دور میں تھا اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کوئی عمل کیا۔ یہ بدعات دین میں اضافے کا سبب ہیں اور ان کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے دین میں بدعات کے بارے میں سخت وعید بیان فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا "نئے امور (بدعات) سے بچو، کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔" عید میلاد کے موقع پر غیر شرعی طور پر کیک کاٹنا، چراغاں کرنا، یا عرس جیسے کام کرنا ان اعمال میں شامل ہیں جنہیں دین کا حصہ سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے، حالانکہ ان کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دین کو قرآن و سنت کی اصل روح کے مطابق اپنائیں اور ان غیر ضروری خرافات سے اجتناب کریں۔

 

اہل یہود، عیسائی، ہنود، زرتشت، بدھ مت، اور سکھ مذاہب میں مختلف تہواروں اور رسومات کو اہمیت دی جاتی ہے، جن میں مذہبی تقدس کے ساتھ کئی خرافات اور غیر معقول رسومات شامل ہیں۔ اسلام نے غیر مسلم اقوام کی تقلید سے سختی سے منع کیا ہے، خاص طور پر جب وہ اعمال شریعت کے خلاف ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا"تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔" اسلام نے ہمیں ان رسومات اور تہواروں سے الگ رہنے کا حکم دیا ہے جو شرک، بدعات، یا فضول خرچی کی طرف لے جاتے ہیں۔

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"مشرکین کی مخالفت کرو۔" یہود و نصاریٰ کی تقلید، خاص طور پر ان کے مذہبی تہواروں یا رسومات میں شرکت کرنا، مسلمانوں کے لئے ممنوع ہے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو قرآن و سنت کے مطابق انجام دیں اور ان رسومات سے اجتناب کریں جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہوں۔ عید میلاد کے دن سالگرہ منانے یا دیگر رسومات کی تقلید کرنے سے مسلمانوں کی انفرادیت اور دینی تشخص کو نقصان پہنچتا ہے۔

 

اسلام دین فطرت ہے اور اس نے ہر قسم کی بدعت، شرک، اور غیر ضروری رسومات سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔" مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزاریں اور دین میں کسی قسم کی بدعت یا غیر اسلامی رسوم شامل نہ کریں۔

 

عید میلاد کے دن غیر اسلامی رسومات اور خرافات کو اپنانا، خواہ وہ کیک کاٹنے کی صورت میں ہو یا دیگر غیر ضروری رسومات، دین اسلام کی پاکیزگی اور سادگی کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، جو نبی اکرم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، انہوں نے کبھی ایسی رسومات اختیار نہیں کیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان کے طریقے کو اپنائیں اور دین کو اس کی اصل شکل میں محفوظ رکھیں۔ بدعات اور خرافات سے اجتناب نہ صرف ہماری دینی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ہماری آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بھی ہے۔

 

تمام بڑے اسلامی مسالک، جن میں بریلوی، اہل حدیث، دیوبند، اہل تشیع، احمدی، اور ندوی شامل ہیں، دین میں بدعات سے بچنے پر زور دیتے ہیں، اگرچہ ان کے نظریات اور اعمال میں فرق ہو سکتا ہے۔ دین میں بدعت کو ایک گناہ اور ضلالت قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ دین کی اصل روح کو متاثر کرتی ہے اور امت کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا"اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔" اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں کسی قسم کی نئی چیز شامل کرنے کی بجائے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات پر متحد رہنا ضروری ہے۔

 

 اہل حدیث بدعت کو سختی سے رد کرتے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث کو بنیاد بناتے ہیں ""جو ہمارے دین میں کوئی نئی چیز داخل کرے جو اس میں نہ ہو، وہ مردود ہے۔" دیوبندی مسلک بھی اس بات پر زور دیتا ہے کہ بدعات سے بچنے کے لئے سنت کی پیروی کی جائے اور دین کو خالص رکھا جائے۔ مسلک بریلوی میں بعض رسومات کو دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے، لیکن ان کے علماء بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایسی تمام رسومات جو قرآن و سنت کے خلاف ہوں، ان سے اجتناب ضروری ہے۔

 

تمام مسالک کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ بدعات دین کو نقصان پہنچاتی ہیں اور مسلمانوں کو ان سے بچنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں"یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اس کی پیروی کرو اور دیگر راستوں کی پیروی نہ کرو۔" یہ آیت ہمیں اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ ہم دین کی اصل تعلیمات پر کاربند رہیں اور ان اعمال سے دور رہیں جو شریعت کے خلاف ہوں۔

 

اہل تشیع میں بعض روایات کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن ان کے علماء بھی ان بدعات سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں جو اسلام کی اصل تعلیمات کے منافی ہوں۔ مسلک احمدی اپنے عقائد کے مطابق دین میں نئی تشریحات پیش کرتا ہے، لیکن یہ عمل دیگر مسالک کے علماء کے نزدیک قبول نہیں۔ ندوی مسلک قرآن و سنت کی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر مسلمان کو اپنی عبادات اور اعمال میں شریعت کی حدود کا احترام کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اعمال کو مسلکی اختلافات کے بجائے قرآن و سنت کے مطابق انجام دیں تاکہ بدعات سے بچا جا سکے۔

 

بدعات سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مسلمان قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں اور دین کی اصل تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"اگر تم کسی معاملے میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔" اس آیت کی روشنی میں، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہر معاملے میں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کریں اور بدعات سے بچنے کے لئے علماء حق کے مشورے پر عمل کریں۔

 

علماء کو چاہئے کہ وہ امت میں بدعات کے نقصانات کے بارے میں شعور بیدار کریں اور لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف راغب کریں۔ افراد کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اعمال کو نیک نیتی سے انجام دیں اور ان رسومات سے بچیں جو دین میں اضافہ کے مترادف ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔" لہذا، ہر مسلمان کو اپنی نیت کو خالص رکھنا اور بدعات اور غیر شرعی رسومات سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ دین اسلام کی اصل پاکیزگی اور سادگی برقرار رہے۔

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو