دینِ
اسلام کی پاکیزگی کو بدعتی نظریات اور غیر شرعی عقائد کے ذریعے مٹانے کی کئی
کوششیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک "جنتی دروازوں" کا عقیدہ ہے۔ اس عقیدے
کی بنیاد ان افکار پر رکھی گئی جن کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن و
حدیث کی روشنی میں ایسی خرافات کا رد ضروری ہے تاکہ دینِ حق کو ہر قسم کی بدعت سے
محفوظ رکھا جا سکے۔
شداد
بن عاد کی کہانی قرآن میں ذکر کردہ قوم عاد سے منسلک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد
کو زمین میں طاقتور بنایا، مگر وہ اپنے غرور اور تکبر میں اللہ کی بندگی سے
روگرداں ہو گئے۔ ان کا بادشاہ، شداد، اپنے غرور میں یہاں تک بڑھا کہ اس نے جنت
جیسا ایک باغ بنانے کا دعویٰ کیا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا، ہم
سے زیادہ طاقتور کون ہے؟"شداد کی اس حرکت کا انجام
اللہ کے عذاب کی صورت میں ہوا، اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنت اور دوزخ بنانے کا
اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:"یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں
سے متقیوں کو بناتے ہیں۔"
کچھ
گروہوں نے اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کے لیے جنتی دروازوں کا ایک تصور پیش کیا۔
اس عقیدے کے مطابق، اگر کسی بزرگ یا پیر کی قبر کے پاس ایک مخصوص دروازہ بنایا
جائے تو وہ جنت کے دروازے کے مترادف ہو گا، اور اس کے ذریعے جنت میں داخلہ ممکن ہو
گا۔ یہ تصور قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ تمہاری
ہی طرح کے بندے ہیں۔"نبی کریم ﷺ نے بھی قبروں
کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا ہے:"اللہ کی لعنت ہو یہودیوں اور عیسائیوں پر،
جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔"
اسلام
میں جنت کے دروازے اللہ کے حکم سے کھلتے ہیں، نہ کہ کسی پیر، قبر یا دروازے کے
ذریعے۔ حدیث میں آیا ہے:"جنت کے آٹھ دروازے ہیں، اور جو نماز کے
پابند ہوں گے، انہیں نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا۔"اس
لیے یہ تصور کہ کسی قبر یا بزرگ کی نسبت سے جنت کے دروازے بنائے جا سکتے ہیں،
اسلامی عقائد کے منافی ہے۔ یہ دین کی پاکیزگی پر ایک حملہ ہے، جس کا رد قرآن و سنت
کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ دین اسلام ہمیں ہر قسم کی بدعت سے بچنے اور خالص
اللہ کی عبادت کی تاکید کرتا ہے۔
جنوبی
ایشیا میں جنتی دروازوں کا تصور مختلف ناموں اور شکلوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ تصور
زیادہ تر قبروں، درگاہوں، اور مزاروں کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے، جہاں مخصوص دروازے
جنت میں داخلے کی علامت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش،
اور سری لنکا جیسے ممالک میں اس کا رواج زیادہ عام ہے۔ بھارت میں بعض جگہوں پر ان
دروازوں کو "باب الجنہ" یا "جنت کے دروازے" کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں یہ مقامات مختلف درگاہوں سے منسلک ہیں، جہاں عقیدت مند یہ سمجھتے ہیں
کہ ان دروازوں سے گزرنے سے جنت کا حصول ممکن ہوگا۔ اس قسم کی بدعت زیادہ تر غیر
اسلامی ثقافتوں اور روایات کے امتزاج سے وجود میں آئی ہے۔
پاکستان
میں کئی درگاہوں اور مزاروں کے ساتھ جنتی دروازے کے عقائد منسلک ہیں۔ مثال کے طور
پر، لاہور میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار کے کچھ حصے کو خاص برکتوں کا مرکز سمجھا
جاتا ہے، جہاں "بابِ جنت" کے تصور کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ملتان میں حضرت
بہاؤالدین زکریا کے مزار کے قریب بھی اس قسم کے عقائد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سیہون
شریف میں لال شہباز قلندر کے مزار پر آنے والے عقیدت مند بعض مخصوص راستوں اور
دروازوں کو جنتی دروازے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ان عقائد کی کوئی بنیاد نہ قرآن میں
ہے اور نہ ہی حدیث میں، بلکہ یہ رسوم اور ثقافتی اثرات کا نتیجہ ہیں۔
دیگر
مذاہب میں بھی ایسے تصورات موجود ہیں جو کسی خاص جگہ یا دروازے کو نجات یا جنت کے
حصول سے جوڑتے ہیں۔ ہندو مت میں بعض مندروں کے دروازوں کو "موکش دروازہ"
کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے نجات یا ابدی سکون کا دروازہ۔ بدھ مت میں مخصوص استوپا
یا مندروں کے گرد چکر لگانا جنت کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ عیسائیت میں بھی
قرون وسطیٰ کے زمانے میں چرچوں کے مخصوص دروازوں کو "ہولی گیٹ" (مقدس
دروازہ) کہا جاتا تھا، جہاں سے گزرنے کو گناہوں کی معافی کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔
یہ تمام تصورات انسان کے اندر موجود مذہبی جھکاؤ اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر پیدا
ہوئے ہیں، لیکن اسلام نے ان تمام بدعات کو رد کیا اور خالص توحید پر زور دیا۔
اسلام
میں کسی مخصوص دروازے یا مقام کو جنت کے حصول کا ذریعہ ماننا بدعت اور شرک کے زمرے
میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا:"مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔"نبی
کریم ﷺ نے فرمایا:"جو کوئی ہمارے دین میں کوئی نئی بات داخل
کرے جو اس میں نہیں، وہ مردود ہے۔"
اسلام
ہمیں واضح کرتا ہے کہ جنت کے دروازے اللہ کے حکم سے کھلیں گے اور یہ صرف نیک
اعمال، اللہ پر ایمان، اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے ذریعے ممکن ہے۔ جنت کے دروازے
انسان کے اعمال کے مطابق کھلتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے:
"جنت
کے آٹھ دروازے ہیں، اور جو نماز کے پابند ہوں گے، انہیں نماز کے دروازے سے بلایا
جائے گا۔"یہ تعلیمات اس بات کی
وضاحت کرتی ہیں کہ جنت کے حصول کے لیے غیر شرعی راستے تلاش کرنا گمراہی ہے اور
ہمیں قرآن و سنت کی رہنمائی پر قائم رہنا چاہیے۔
ائمہ
کرام نے دین میں بدعات کو سختی سے مسترد کیا اور ان کو گمراہی کی جڑ قرار دیا۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں: "جو
کوئی اللہ کے دین میں ایسی بات داخل کرے جس کی قرآن یا سنت سے کوئی دلیل نہ ہو، وہ
مردود ہے۔" ۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: "ہر وہ عمل جو نبی ﷺ اور
صحابہؓ کے عمل کے خلاف ہو، وہ بدعت ہے۔" ۔ اسی طرح امام مالکؒ نے کہا: "جو شخص دین میں بدعات
ایجاد کرتا ہے، وہ گویا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دین کو مکمل نہیں
کیا۔"
جنتی
دروازوں کا عقیدہ بھی ان ہی بدعات میں شامل ہے جو اسلامی عقائد کے خلاف ہیں۔ تمام
ائمہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دین کو صرف قرآن اور سنت کی بنیاد پر سمجھا جائے
اور ہر ایسی بات سے اجتناب کیا جائے جو دین میں بغیر دلیل شامل کی جائے۔
مسلک
بریلوی کے بعض طبقات میں جنتی دروازوں اور درباروں سے متعلق غیر اسلامی عقائد پائے
جاتے ہیں، جسے وہ روحانی فوائد کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ تاہم، ان کے علما میں بھی ایسے
نظریات پر اختلاف ہے۔ مسلک دیوبندی اور اہل حدیث ان بدعات کو سختی سے مسترد کرتے
ہیں اور عقائد کو خالص توحید اور سنت پر مبنی رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ اہل تشیع میں
جنتی دروازوں کے بجائے اہل بیت کی شفاعت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی
اسلامی تعلیمات کی روح سے متصادم ہے اگر اسے کسی خاص دروازے یا مقام سے جوڑا جائے۔
احمدی مسلک، جو اسلام سے متصادم نظریات رکھتا ہے، اس معاملے میں الگ تشریحات پیش
کرتا ہے۔ ندوی مکتبہ فکر، جو کہ تعلیم اور اصلاح پر زور دیتا ہے، ایسی بدعات سے
بچنے اور دینی تعلیمات کو خالص اور واضح رکھنے کی حمایت کرتا ہے۔
اس
بدعت اور دیگر گمراہ کن عقائد سے بچنے کے لیے قرآن و سنت کی رہنمائی کو بنیاد
بنانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"پس آپ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ توبہ کر
چکے ہیں، سیدھے رہیں اور حد سے تجاوز نہ کریں۔"نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"میں
تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے،
گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔"
بدعت
سے بچنے کے لیے عقائد کی تصحیح، قرآن و سنت کا مطالعہ، اور دین کے معتبر علما کی
رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، بدعات سے وابستہ اجتماعات اور رسومات سے
دور رہنا، اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور خالص توحید پر عمل کرنے میں مددگار ہو
سکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔