دنیا
تیزی سے بدل رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت (Artificial
Intelligence) اب محض ایک آئی ٹی فیلڈ کا حصہ نہیں رہی،
بلکہ یہ ہمارے روزمرہ زندگی، معیشت، ملازمتوں، اور سب سے بڑھ کر تعلیمی نظام کو
بدل رہی ہے۔ جدید ممالک اپنی نصاب سازی، تدریسی طریقہ کار اور طلبہ کی تربیت میں AI کو
شامل کر چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی سکول کلچر اس
تبدیلی کے لیے تیار ہے؟
بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی ڈھانچہ ابھی بھی دہائیوں پرانے
سانچے میں قید ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے بچے گریجویشن کے بعد بھی عملی دنیا میں قدم
رکھنے کے لیے بنیادی مہارتوں سے محروم رہتے ہیں۔
1۔
کیا آرٹیفیشل انٹیلجنس پاکستانی اسکول کلچر کو بدلنے جا رہی ہے؟
مصنوعی ذہانت دنیا بھر کے
تعلیمی نظام میں انقلاب لا رہی ہے۔
پرائمر ی
لیول پر: دنیا
بھر میں AI پر
مبنی ایجوکیشن پلیٹ فارمز طلبہ کو انفرادی طور پر ان کی صلاحیت کے مطابق پڑھا رہے
ہیں۔
ٹیچنگ
میتھڈز میں: اساتذہ
اب AI ٹولز
کے ذریعے ہر بچے کی کارکردگی کا رئیل ٹائم تجزیہ کر سکتے ہیں۔
اسیسمنٹ
سسٹم میں: بورڈ
امتحانات اور نمبروں کی دوڑ کی بجائے مہارت پر مبنی اسیسمنٹ بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں بھی اگرچہ
نجی تعلیمی اداروں میں چند تجربات شروع ہوئے ہیں، لیکن سرکاری سکولز میں صورتحال
مختلف ہے۔ ہمارے زیادہ تر سکول اب بھی "یاد کرو، لکھو، پاس ہو جاؤ" والے
کلچر میں پھنسے ہوئے ہیں۔
AI اگر
صحیح پلاننگ اور پالیسی کے ساتھ شامل کی جائے تو:
1. طلبہ کی انفرادی ضروریات کے مطابق تدریس
ممکن ہو سکتی ہے۔
2. دور دراز علاقوں میں آن لائن کلاسز کے
ذریعے تعلیمی خلا کو کم کیا جا سکتا ہے۔
3. نصاب کو عملی دنیا سے جوڑا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر ہم نے یہ موقع
ضائع کیا تو ہمارا اسکول کلچر مزید پیچھے رہ جائے گا، اور AI سے فائدہ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے
والے طلبہ میں ایک نیا "ڈیجیٹل
گیپ" پیدا
ہو جائے گا۔
2۔
کیا پاکستانی تعلیمی نظام بچوں کو سوسائٹی ایڈجسٹمنٹ میں ناکام کر رہا ہے؟
سوسائٹی میں ایڈجسٹمنٹ کا
مطلب ہے کہ بچہ اسکول چھوڑنے کے بعد:
1. مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ کام کر سکے۔
2. مسئلے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
3. کمیونیکیشن اور ٹیم ورک جانتا ہو۔
جدید دور کی مہارتوں (IT, Digital Literacy, Financial Literacy وغیرہ) سے لیس ہو۔
ہمارا موجودہ تعلیمی نظام
ان میں سے تقریباً کسی بھی پہلو پر فوکس نہیں کرتا۔ ہم بچوں کو زیادہ تر تھیوری
پڑھاتے ہیں، اخلاقی اقدار اور عملی مہارتوں کی تربیت نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ کہ میٹرک
یا ایف اے پاس کرنے کے بعد بچہ عملی زندگی میں بالکل نئے سرے سے سیکھنے پر مجبور
ہو جاتا ہے۔
3۔
کیا بچہ میٹرک کے بعد اسکلز سیکھنے کے لیے زیرو سے شروع کرتا ہے؟
جی ہاں، یہی تلخ حقیقت
ہے۔
1. میٹرک پاس طلبہ کو کمپیوٹر کے بنیادی
آپریشن تک نہیں آتے۔
2. انہیں CV کیسے بنانی ہے، انٹرویو میں کیسے بات
کرنی ہے، یا مارکیٹ کی ڈیمانڈز کیا ہیں، کچھ علم نہیں ہوتا۔
3. وہ صرف امتحانی تھیوری یاد کر کے اچھے گریڈ
حاصل کرتے ہیں لیکن عملی دنیا میں یہ گریڈ زیادہ فائدہ نہیں دیتے۔
4. یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہمارا نصاب
"اسکلز بیسڈ" نہیں بلکہ "امتحان بیسڈ" ہے۔
4۔
خطرہ: اگر یہ روایات برقرار رہیں تو اسکولز کی تعداد کم ہو جائے گی
دنیا میں آن لائن
ایجوکیشن تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اگر ہمارا تعلیمی نظام پرانا اور غیر مؤثر رہا تو:
1. والدین آن لائن پلیٹ فارمز اور ہوم اسکولنگ
کو ترجیح دینا شروع کر دیں گے۔
2. نجی اسکولز مہنگے فیسوں کے باوجود طلبہ کھو
دیں گے۔
3. دیہی علاقوں کے بچے مکمل طور پر تعلیمی
نظام سے باہر ہو سکتے ہیں۔
4. یہ خطرہ دور کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم
اسکولز کو جدید، دلچسپ اور مہارت پر مبنی تعلیم کے مراکز بنائیں۔
5۔
نصاب کی ملکیت اور خودمختاری کا مسئلہ
پاکستان کا سب سے بڑا
تعلیمی المیہ یہ ہے کہ ہماری تعلیمی پالیسی زیادہ تر بیرونی دباؤ یا عالمی اداروں
کی ہدایات پر بنتی ہے۔ جب پالیسی اپنی نہیں، تو نصاب بھی مکمل طور پر اپنا نہیں ہو
سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ نصاب میں اکثر مقامی ثقافت، مارکیٹ کی
ضرورت اور مقامی زبانوں کی عکاسی کم ملتی ہے۔
6۔
ٹیکسٹ بکس اور مواد کی غیر مطابقت
ہمارے نصاب میں شامل
کتابوں کے مسائل:
1. مواد پرانا اور غیر متعلقہ ہے۔
2. مثالیں حقیقی زندگی سے نہیں ملتیں۔
3. صرف تھیوری پر زور ہے، عملی مظاہرے اور
پراجیکٹس نہیں ہیں۔
4. نتیجہ یہ کہ بچہ تعلیم کے بعد نوکری کی
تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، کیونکہ جو کچھ اس نے پڑھا ہے، وہ مارکیٹ کی ضرورت سے
میل نہیں کھاتا۔
7۔
آرٹیفیشل انٹیلجنس کے دور میں نصاب کو کیسے ری اسٹرکچر کیا جائے؟
ہمیں نصاب میں درج ذیل
بڑے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
(الف) پرائمری لیول پر:
1. ڈیجیٹل لٹریسی کو لازمی مضمون بنانا۔
2. کہانیوں، پراجیکٹس، اور تجربات کے ذریعے
سیکھنے کا عمل۔
3. بنیادی پروگرامنگ (Coding) کا تعارف۔
(ب) مڈل لیول پر:
1. پراجیکٹ بیسڈ لرننگ، جہاں بچے عملی مسائل
حل کریں۔
2. سٹیم ایجوکیشن (Science, Technology, Engineering, Mathematics) پر
زور۔
3. کمیونیکیشن اور ٹیم ورک اسکلز کی تربیت۔
(ج) سیکنڈری لیول پر:
1. AI، روبوٹکس، ڈیٹا اینالسس جیسے جدید مضامین۔
2. مارکیٹ سے جڑے انٹرنشپ پروگرام۔
3. فنانشل لٹریسی اور کاروباری مہارتیں۔
8۔
کن سبجیکٹ ایریاز پر فوکس کیا جائے؟
1. ڈیجیٹل اسکلز: کوڈنگ، ویب ڈویلپمنٹ، AI ٹولز۔
2. کمیونیکیشن اسکلز: زبان، پریزنٹیشن، ٹیم ورک۔
3. کریٹیو تھنکنگ: مسائل حل کرنے اور نئی آئیڈیاز پیدا
کرنے کی صلاحیت۔
4. انٹرپرینیورشپ: چھوٹے کاروبار شروع کرنے کی تربیت۔
5. اخلاقی و سماجی تربیت: معاشرتی ذمہ داری اور قانون کی
پاسداری۔
9۔
ہمارا سویا ہوا نظام کب بیدار ہوگا؟
یہ تب ہی ممکن ہے جب:
1. پالیسی ساز جدید دنیا کی حقیقت کو تسلیم
کریں۔
2. اساتذہ کو نئے تدریسی طریقے سکھائے جائیں۔
3. والدین کو بھی تعلیم کی نئی سمت کے بارے
میں آگاہی دی جائے۔
4. نصاب کو ہر 3 سے 5 سال بعد اپڈیٹ کیا جائے۔
آخر میں، یہ کہنا بجا
ہوگا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس پاکستانی تعلیمی نظام کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی
ہے، بشرطیکہ ہم اسے صرف ٹیکنالوجی کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ ایک تعلیمی انقلاب کے
موقع کے طور پر اپنائیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ تعلیمی ڈھانچہ
بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے میں ناکام ہو رہا ہے، اور اگر ہم نے اس خلا
کو پُر نہ کیا تو آنے والی نسلیں بھی میٹرک کے بعد زیرو سے شروع کرنے پر مجبور
رہیں گی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم AI کو اساتذہ کی تربیت، نصاب کی اصلاح،
اور طلبہ کی اسکلز ڈیولپمنٹ کے لیے ایک موثر آلہ بنائیں، تاکہ تعلیم صرف امتحان
پاس کرنے کا ذریعہ نہ ہو بلکہ ایک بامقصد اور عملی زندگی کی بنیاد بن سکے۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔