عنوان: اندھیروں کا سفر: جب تہذیب نے خودکشی کر لی
ایک بزرگ کی آہ
شہرِ لاہور کی ایک پرسکون
گلی میں، بابا غلام محمد اپنی پرانی آرام کرسی پر بیٹھے گہری سوچ میں گم تھے۔ ان
کے چہرے پر وقت کی جھریاں نہیں، بلکہ دورِ حاضر کے فتنوں کی پریشانی عیاں تھی۔ ان
کا نوجوان پوتا، احمد، جو ابھی یونیورسٹی سے لوٹا تھا، دادا کی حالت دیکھ کر قریب
آ بیٹھا۔ "دادا جان، آپ کیوں اتنے فکر مند ہیں؟"
بابا غلام محمد نے ایک
ٹھنڈی آہ بھری اور کہا، "بیٹا، آج میں نے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر وہ مناظر
دیکھے ہیں جنہوں نے میری روح تک کو لرزا دیا ہے۔ میں نے اپنے لاہور کی گلیوں میں
حیا کا جنازہ اٹھتے دیکھا ہے۔"
حصہ اول: LGBT کے
غلیظ عزائم اور لاہور کی بے حرمتی
بابا جان نے بات جاری
رکھی، "بیٹا! یہ جو چند لوگ 'انسانی حقوق' اور 'آزادی' کے نام پر دھنک
والے جھنڈے اٹھائے پھر رہے تھے، یہ کوئی عام احتجاج نہیں تھا۔ یہ فطرت کے خلاف
بغاوت کا اعلان تھا۔ یہ اس تہذیب کے منہ پر طمانچہ تھا جس کی بنیاد حیا، خاندان
اور پاکیزگی پر رکھی گئی ہے۔"
انہوں نے احمد کو سمجھایا
کہ LGBTQ کا ایجنڈا صرف چند لوگوں
کے حقوق کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک منظم تحریک ہے جس کے غلیظ عزائم ہیں۔
- خاندانی نظام کی تباہی: ان کا پہلا ہدف
خاندان کا ادارہ ہے، جہاں مرد اور عورت کے مقدس رشتے کو بے معنی بنا کر مرد
کو مرد اور عورت کو عورت کے ساتھ غیر فطری تعلق پر اکسایا جاتا ہے۔
- فحاشی کا فروغ: یہ تحریک بے حیائی
اور عریانی کو "آزادی
اظہار" کا نام دیتی ہے۔ ان کی تقریبات میں ہونے والی غیراخلاقی
اور غیرتہذیبی حرکات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کا مقصد معاشرے سے شرم و حیا
کو ختم کرنا ہے۔
- شیاطین کی پیروی: قرآن
نے ہمیں قومِ لوط کا واقعہ عبرت کے لیے سنایا ہے۔ یہ لوگ دراصل اسی شیطانی
راستے کے پیروکار ہیں، جس کا انجام دنیا اور آخرت کی رسوائی اور اللہ کا عذاب
ہے۔ یہ آزادی نہیں، یہ ابلیس کی غلامی ہے۔
حصہ دوم: مسلم معاشرے کا
زوال اور یہود و نصاریٰ کی نقالی
احمد نے سوال کیا،
"دادا جان، لیکن یہ سب ہمارے معاشرے میں کیسے آ گیا؟ ہم تو مسلمان ہیں!"
بابا جان نے تلخی سے
مسکراتے ہوئے کہا، "یہی تو اصل المیہ ہے۔ ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ ہم نے
اپنی شناخت کھو دی ہے۔"
- نوجوان نسل کی بربادی: آج
کا نوجوان انٹرنیٹ اور میڈیا کے ذریعے مغربی تہذیب سے براہِ راست متاثر ہے۔
اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ ترقی کا راستہ یہی ہے کہ اپنی اقدار کو بھول جاؤ۔ وہ
نہیں جانتے کہ یہ چمک دمک دراصل ایک دلدل ہے جو ان کی روحانی اور اخلاقی موت
کا سبب بن رہی ہے۔
- یہود و نصاریٰ کی پیروی: ہمارے نبی ﷺ نے چودہ
سو سال پہلے پیشین گوئی فرما دی تھی کہ میری امت پچھلی قوموں (یہود و نصاریٰ)
کی اس طرح پیروی کرے گی جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے۔ آج ہم
دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے ان کی ہر بری بات کو بغیر سوچے سمجھے اپنا لیا ہے۔ ان
کے معاشرے خاندانی نظام کی تباہی، ڈپریشن اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں، اور
ہم بھی اسی راستے پر چل نکلے ہیں۔
حصہ سوم: اسلامی
تعلیمات سے دوری اور مقتدر حلقوں کی خاموشی
"اور
سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے،" بابا جان کی آواز بھرا گئی، "کہ جن لوگوں پر
اس فتنے کو روکنے کی ذمہ داری تھی، وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔"
- اسلامی تعلیمات کو فراموش کرنا: ہم
نے قرآن و سنت کے واضح احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اسلام نے حیا کو ایمان
کا حصہ قرار دیا ہے اور بے حیائی پھیلانے والوں کے لیے سخت وعید سنائی ہے۔
لیکن آج ہم ان احکامات پر بات کرتے ہوئے بھی شرماتے ہیں۔
- احبابِ اختیار کا مجرمانہ سکوت: ہمارے حکمران،
سیاستدان، اور ادارے، جو اس ملک کے نظریاتی محافظ ہیں، وہ مغربی دباؤ یا اپنی
دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے خاموش ہیں۔ ان کی یہ خاموشی اس آگ پر تیل کا کام کر
رہی ہے۔ علماء کرام، اساتذہ اور والدین کی ایک بڑی تعداد بھی اپنی ذمہ داری
پوری نہیں کر رہی۔ جب محافظ ہی سو جائیں تو لٹیرے تو آئیں گے۔
آخری حصہ: ہم اپنی آنے
والی نسلوں کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ (حل)
احمد کی آنکھوں میں اب
تشویش کی جگہ عزم کی چمک تھی۔ "دادا جان، تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم اپنی
آنے والی نسلوں کو اس تباہی سے کیسے بچا سکتے ہیں؟"
بابا غلام محمد سیدھے ہو
کر بیٹھ گئے اور پرامید لہجے میں بولے، "بیٹا، مایوسی کفر ہے۔ ابھی بھی وقت
ہے۔ اگر ہم آج سے تہیہ کر لیں تو اس سیلاب کے آگے بند باندھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے
ہمیں کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے:"
1. گھر
کی تربیت (پہلا مورچہ): سب سے پہلے والدین کو
اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ اپنے بچوں کو وقت دیں، ان کے دوست بنیں۔ انہیں اچھے
اور برے کی تمیز سکھائیں۔ ان کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھیں اور انہیں اسلامی
ہیروز کی کہانیاں سنائیں تاکہ ان کا رول ماڈل کوئی بے حیا اداکار نہیں، بلکہ صحابہ
کرامؓ ہوں۔
2. دین
سے حقیقی رشتہ: اپنی نسلوں کو قرآن سے
جوڑیں۔ انہیں صرف ناظرہ نہیں، بلکہ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ قرآن پڑھائیں تاکہ
انہیں اللہ کے احکامات کا براہِ راست علم ہو۔ سیرتِ نبوی ﷺ کا مطالعہ لازمی
کروائیں۔
3. تعلیمی
اداروں کا کردار: اسکولوں، کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں اسلامی اخلاقیات اور تہذیب کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
اساتذہ کو خود بھی ایک عملی نمونہ بننا ہوگا۔
4. علماء
اور اہلِ دانش کا فرض: علماء کرام کو چاہیے کہ
وہ جمعہ کے خطبوں اور اپنے بیانات میں اس فتنے کے خلاف کھل کر بات کریں اور
نوجوانوں کو حکمت کے ساتھ اس کی حقیقت سمجھائیں۔
5. مثبت
متبادل فراہم کرنا: نوجوانوں کو صحت مند
تفریح اور سرگرمیاں فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی توانائی مثبت کاموں میں صرف کریں۔
6. سوشل
میڈیا کا صحیح استعمال: سوشل میڈیا پر اس بے
حیائی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں اور اسلامی اقدار کو فخر کے ساتھ فروغ دیں۔
7. اجتماعی
بائیکاٹ: ایسے اداروں، برانڈز اور
شخصیات کا سماجی بائیکاٹ کریں جو اس غیر فطری ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں۔
بابا غلام محمد نے احمد
کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، "بیٹا، یاد رکھنا! تہذیبیں ہتھیاروں سے
نہیں، حیا اور کردار سے فتح ہوتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنی حیا اور اپنے خاندانی نظام
کی حفاظت کر لی، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ اٹھو اور اپنا کردار
ادا کرو، کیونکہ تم ہی اس قوم کا مستقبل ہو۔"
احمد نے عزم سے سر ہلایا۔
آج اسے صرف چند نعروں کا شور نہیں، بلکہ اپنی تہذیب پر ایک خوفناک حملے کی حقیقت
سمجھ آئی تھی اور اس نے عہد کر لیا تھا کہ وہ اس اندھیرے کے خلاف روشنی کا دیا
ضرور بنے گا۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔