علم وہ چراغ ہے جس نے
انسانی تہذیب کو راستہ دکھایا اور سمت دی۔ برصغیر کی علمی روایت اس چراغ کا نہایت
روشن باب ہے جہاں عظیم درسگاہیں صدیوں تک علم و حکمت کی آبیاری کرتی رہیں۔
تکشاشیلا اور نالندہ انہی درخشاں مراکز میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ یہ ادارے صرف
تعلیمی ڈھانچے نہیں تھے بلکہ تہذیبی روح کے مظہر تھے جنہوں نے مذہبی رواداری، فکری
آزادی، علمی جستجو اور بین الاقوامی تبادلۂ علم کی ایسی مثالیں قائم کیں جو آج بھی
رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
تاریخی اور جغرافیائی پس منظر
تکشاشیلا موجودہ پاکستان
کے شمالی حصے میں راولپنڈی کے قریب ٹیکسلا
کے مقام پر آبادتھی جہاں سے قدیم شاہراہ شاہی گزرتی تھی۔ اسی باعث یہ شہر تجارت،
سفر اور تہذیبی میل جول کا سنگم بن گیا۔ قدیم سنسکرت متون، بدھ مت کی جاتک کہانیاں
اور یونانی مورخین کے اشارات سے اس کے وقار و شہرت کا پتہ چلتا ہے۔ چھٹی صدی قبل
مسیح سے لے کر پانچویں صدی عیسوی تک یہ شہر تعلیم اور تحقیق کا معتبر حوالہ رہا۔
تعلیمی ڈھانچہ اور طریقہ کار
تکشاشیلا میں گروکل کی
روایت مضبوط تھی۔ طالب علم استاد کے زیر سایہ رہ کر تعلیم حاصل کرتے اور اخلاقی
تربیت کو علم کا لازمی حصہ سمجھا جاتا۔ یہ نظام مرکزیت سے عاری تھا۔ ایک جگہ قائم
ایک بڑا کیمپس نہیں تھا بلکہ مختلف اساتذہ اپنے اپنے مراکز میں درس دیتے تھے۔ داخلہ
عام طور پر اس عمر میں ہوتا جب طالب علم ابتدائی تعلیم مکمل کر چکا ہوتا اور
بنیادی نصاب میں مہارت رکھتا۔ تعلیم کا دورانیہ موضوع کے مطابق مختلف رہتا اور کئی
سال پر محیط ہوتا۔ مناظرانہ روایت، مکالمہ اور سوال و جواب تدریس کے بنیادی اوزار
تھے جن کے ذریعے ذہنی تربیت کی جاتی۔
نصاب تعلیم اور تحقیق
تکشاشیلا کا نصاب ہمہ جہت
تھا۔ ویدک علوم، ویاکرن یعنی قواعد زبان اور فلسفہ کے ساتھ ساتھ عملی و سائنسی
مضامین بھی پڑھائے جاتے۔ طب کی روایت خصوصاً مضبوط تھی اور آچاریا چرک کے نام سے
منسوب علمی سرمایہ اسی ماحول میں پروان چڑھا۔ جراحی کے اصولوں کو قدیم روایت میں
آچاریا سشروت سے جوڑا جاتا ہے اور فن طب کی تدریس کو تکشاشیلا کے علمی مزاج نے
مزید قوت بخشی۔ اس کے علاوہ ریاضی، فلکیات، فنون لطیفہ، آرٹ اور نقش و نگار کے
شعبے نمایاں تھے۔ جنگی علوم میں تیر اندازی، نیزہ بازی اور گھوڑوں، رتھوں اور
ہاتھیوں کے ساتھ جنگی حکمت عملی کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی۔ دنیا کے مختلف خطوں سے
آنے والے طلبہ کی موجودگی نے مختلف زبانوں کی تعلیم اور تہذیبی تنوع کو روزمرہ کا
حصہ بنا دیا۔
نامور اساتذہ اور فضلاء
تکشاشیلا سے وابستہ ناموں
میں آچاریا چانکیہ کی شہرت سب سے نمایاں ہے جن کی سیاسی حکمت عملی نے موریہ سلطنت
کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ سنسکرت قواعد کے عظیم ماہر پانینی کا تعلق بھی
اسی خطے سے بتایا جاتا ہے اور ان کی اشٹادھیائی نے زبان و بیان کی دنیا میں نئی
بنیادیں رکھیں۔ طب کے میدان میں چرک اور بدھ روایت میں جیوک کی مثالیں ملتی ہیں جن
کی تعلیم و تربیت کے حوالہ جات تکشاشیلا سے وابستہ کیے جاتے ہیں۔ ان ناموں نے اس
درسگاہ کی وقعت کو صدیوں تک زندہ رکھا۔
زوال اور
تباہی
تکشاشیلا کا زوال ایک ہی
ضرب سے نہیں آیا۔ تجارت کے دھارے بدلنے لگے تو معاشی بنیادیں کمزور ہوئیں۔ وسطی
ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں نے صورت حال کو مزید خراب کیا۔ آخرکار ہن قبائل کے
مسلسل حملوں نے شہر کو شدید نقصان پہنچایا اور روایت ہے کہ مہیراکول کے عہد میں
آخری کاری ضرب لگی جس کے بعد یہ عظیم مرجع علم رفتہ رفتہ ویرانی میں ڈھل گیا۔
نالندہ یونیورسٹی علم کا بین الاقوامی شہرہ یافتہ مرکز
نالندہ کا آغاز گپتا دور
میں ہوا اور اسے کمار گپت اول کے عہد سے جوڑا جاتا ہے۔ ساتویں صدی میں ہرش وردھن
کے زمانے میں اس کا وقار اور وسعت بڑھی اور بعد ازاں پال حکمرانوں کے زیر سایہ اسے
ایک طویل سنہری دور نصیب ہوا۔ چینی سیاح ہیون سانگ اور ای تسنگ نے اپنے سفرناموں
میں نالندہ کی علمی زندگی، نظم و نسق اور تدریسی معیار کی ایسی تصویریں پیش کیں جو
آج بھی ہمارے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تعلیمی ڈھانچہ اور نظم
نالندہ ایک باقاعدہ
اقامتی یونیورسٹی تھی۔ وسیع احاطے، کثیر خانقاہیں اور معبد، آراستہ آڈیٹوریم اور
رہائش گاہیں اس کے نظم کی علامت تھیں۔ دروازوں پر موجود جید اساتذہ امیدواروں سے
کڑے سوالات کرتے اور اسی جانچ کے بعد طالب علم کو داخلہ ملتا۔ یہاں اساتذہ کی بڑی جماعت
مقیم رہتی اور دور دور سے آئے ہزاروں طلبہ دن رات تحقیق اور مطالعے میں مصروف
رہتے۔ چین، کوریا، جاپان، تبت، وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے
والے طالب علم اس درسگاہ کی بین الاقوامی حیثیت کے گواہ تھے۔
نصاب اور تدریس
نالندہ میں بدھ مت کے
مختلف مکاتب فکر خصوصاً مہایان کی تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ فلسفہ اور منطق
یہاں کے خاص موضوعات سمجھے جاتے اور استدلالی مباحث کے ذریعے ذہنی تربیت کی جاتی۔
سنسکرت زبان و قواعد، ویدک فلسفہ، طب، ریاضی اور فلکیات بھی نصاب کا حصہ تھے۔ فن
تعمیر اور مجسمہ سازی جیسے فنون لطیفہ نے نالندہ کی تہذیبی شناخت کو مزید نکھارا۔
جامع درس، باہمی مناظرے اور استاد شاگرد کی قربت نے اس ادارے کو فکری اعتبار سے
نہایت زرخیز بنایا۔
عظیم لائبریری
نالندہ کی لائبریری کو
دھرم گنج کہا جاتا تھا اور روایت ہے کہ اس میں لاکھوں مسودات محفوظ تھے۔ رتن ندھی
جیسے ذیلی ذخائر بھی موجود تھے جہاں نادر کتب اور نایاب علوم کا سرمایہ سنبھال کر
رکھا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ لائبریری کی عمارتیں بلند اور وسیع تھیں اور ان میں
موجود کتب کی کثرت نے اس علمی خزانے کو دنیا بھر میں ممتاز بنا دیا۔
نامور اساتذہ اور فضلاء
نالندہ کے اساتذہ میں
شلابھدر کا ذکر بطور خاص آتا ہے جن کی سرپرستی میں ہیون سانگ نے طویل مدت تک تعلیم
حاصل کی۔ شانتی رکشیت جیسے علما نے تبتی علاقوں میں بدھ مت کی اشاعت میں مرکزی
کردار ادا کیا۔ بعض روایات Nagarjun اور آریہ دیو جیسے نامور
فلسفیوں کو بھی اسی علمی سلسلے سے جوڑتی ہیں۔ ای تسنگ اور ہیون سانگ کے بیانات
نالندہ کی علمی زندگی کو نہایت وضاحت سے ہمارے سامنے لاتے ہیں۔
زوال اور
تباہی
نالندہ کی سرپرستی جب
کمزور ہوئی تو بتدریج اس کی معاشی بنیادیں ہلنے لگیں۔ پھر گیارہویں اور بارہویں
صدی کے ہنگامہ خیز دور میں اس مرکز علم کو بدترین حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ روایت
کے مطابق گیارہ سو ترانوے عیسوی میں بختیار خلجی کے حملے کے بعد نالندہ کی عمارتیں
جل گئیں اور لائبریری کے مسودات طویل عرصے تک سلگتے رہے۔ بہت سے اساتذہ اور طلبہ
یا تو مارے گئے یا مختلف خطوں کی طرف ہجرت کر گئے اور یوں یہ عظیم درسگاہ تاریخ کے
صفحات میں ایک الم ناک داستان بن گئی۔
تکشاشیلا اور نالندہ کا موازنہ اور مشترکہ وراثت
دونوں درسگاہیں اپنے اپنے
زمانے میں بین الاقوامی مراکز علم تھیں۔ یہاں مذہبی رواداری کی ایسی فضا قائم تھی
جس میں ہندو، بدھ اور جین روایت کے طلبہ یکجا ہو کر سیکھتے اور پڑھاتے تھے۔
نظریاتی علوم اور دنیاوی فنون کے امتزاج نے ان اداروں کو متوازن اور جامع بنایا۔
مکالمہ، مناظرہ اور تحقیق ان کی علمی روح تھے۔
بنیادی اختلافات
تکشاشیلا کا ڈھانچہ غیر
مرکزی تھا اور استاد اپنے اپنے مراکز میں تعلیم دیتے تھے جب کہ نالندہ ایک مکمل
اقامتی یونیورسٹی تھی جہاں نظم اور ادارہ جاتی ساخت نمایاں تھی۔ تکشاشیلا میں جنگی
علوم اور طب جیسے عملی مضامین کو غیر معمولی اہمیت ملی جب کہ نالندہ میں فلسفہ اور
منطق کے مباحث کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ زمانے کے فرق نے بھی دونوں کی صورت گری پر
اثر ڈالا۔ تکشاشیلا نسبتاً قدیم تر روایت کی نمائندہ تھی جبکہ نالندہ قرون وسطیٰ
سے پہلے کے طویل دور میں پختہ ادارہ جاتی شناخت کے ساتھ موجود رہی۔
عالمی اثرات
تکشاشیلا اور نالندہ
دونوں نے مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کی فکری تشکیل میں گہرا اثر ڈالا۔ چین اور
تبت کے علمی حلقوں میں نالندہ کے متون اور طریقۂ تدریس نے نئی بنیادیں فراہم کیں
جبکہ شاہراہوں کے ذریعے سفر کرنے والے علما اور طلبہ نے برصغیر کے علم کو دور دراز
خطوں تک پہنچایا۔ یوں علم کی ترسیل کا ایک ایسا نیٹ ورک قائم ہوا جس نے سرحدوں کی
قید کو بے معنی بنا دیا۔
گم گشتہ مراکز سے نشاۃ ثانیہ تک
انیسویں صدی میں آثار
قدیمہ کے محققین نے ان دونوں مراکز کی کھنڈیروں میں دبی ہوئی تاریخ کو از سر نو
دریافت کیا۔ تکشاشیلا کی نشاندہی اور کھدائی نے گندھارا تہذیب کے آثار، سکے اور
کتبے سامنے لائے۔ نالندہ کی شناخت قدیم سفرناموں کی مدد سے ممکن ہوئی اور باقاعدہ کھدائی
نے خانقاہوں، معبدوں اور لائبریری کی وسعت کے مادی شواہد فراہم کیے۔
موجودہ حیثیت اور عالمی شناخت
تکشاشیلا اور نالندہ
دونوں کو عالمی ثقافتی ورثے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان مقامات کے عجائب گھر،
محفوظات اور آثار دنیا بھر کے سیاحوں اور محققین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آ کر اس
عظیم روایت کی بوئیں محسوس کریں۔ یہ کھنڈر خاموش نہیں بولتے ہیں اور اپنے سنگ و
خشت میں تاریخ کی صدائیں سموئے ہوئے ہیں۔
نالندہ کی جدید بحالی
اکیسویں صدی میں نالندہ
کے نام سے ایک نئی بین الاقوامی یونیورسٹی قائم کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ قدیم
علمی روح کو جدید تقاضوں کے ساتھ جوڑا جائے۔ راجگیر کے قریب قائم یہ ادارہ کثیر
اللسانی اور کثیرالثقافتی مکالمے کو فروغ دینے کا خواہاں ہے اور اس کا مقصد اس روایت
کو پھر سے زندہ کرنا ہے جس نے کبھی پورے علاقے کو علم کی روشنی سے منور کیا تھا۔
سبق اور تحریک
ان دونوں جامعات کی تاریخ
ہمیں بتاتی ہے کہ علم کی تلاش استقامت چاہتی ہے اور رواداری اس تلاش کی پہلی شرط
ہے۔ لائبریریاں، تحقیقی مراکز اور مکالمے کے پلیٹ فارم کسی بھی معاشرے کی فکری
سلامتی کے نگہبان ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے علم کو محفوظ رکھیں اور اسے بانٹنے کا
حوصلہ پیدا کریں تو تہذیب کا سفر نئے افق دیکھتا ہے۔
تکشاشیلا اور نالندہ صرف
اینٹ پتھر کے ڈھیر نہیں بلکہ انسانی ذہانت، علمی پیاس اور روشن خیالی کے جیتے
جاگتے استعارے ہیں۔ ان کی عظمت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم کی روشنی کبھی بجھتی
نہیں بلکہ نسل در نسل سفر کرتی ہے۔ آج جب ہم نئے تعلیمی ڈھانچے تشکیل دے رہے ہیں تو
ضروری ہے کہ ان عظیم مراکز کی میراث کو اپنے عزم اور عمل سے جوڑیں۔ رواداری، تحقیق
اور معیار یہی وہ ستون ہیں جو کل بھی قائم تھے اور آج بھی ہماری فکری تعمیر کے لیے
ناگزیر ہیں۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔