ٹیلی اسکرینز سے سمارٹ فونز تک 1984 اور آج کی نگرانی کا موازنہ

0




جارج آرویل کا شہرہ آفاق ناول '1984' جو 1949 میں شائع ہوا، ایک ایسی ڈسٹوپیائی دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے جہاں ایک آمرانہ حکومت 'پارٹی' اور اس کا سربراہ 'بگ برادر' ہر شہری کی زندگی کے ہر پہلو پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ اس ناول کے مرکزی موضوعات میں کل سرویلنس (Total Surveillance)، پروپیگنڈا، سوچ پر قابو، اور فرد کی آزادی کا فقدان شامل ہیں۔ یہ ناول اپنی اشاعت کے فوراً بعد ہی دنیا بھر میں مشہور ہو گیا اور آج بھی ایک انتباہی کہانی کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔

آج ہم ایک ایسے ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، بگ ڈیٹا، اور مصنوعی ذہانت (AI) نے معلومات تک ہماری رسائی اور ان کے پھیلاؤ میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجیز جہاں بظاہر ہماری زندگیوں کو آسان بناتی ہیں، وہیں '1984' کے بہت سے تھیمز کو غیر معمولی طور پر متعلقہ بنا دیتی ہیں۔ اس آرٹیکل کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ کس طرح '1984' کے موضوعات ڈیجیٹل دور میں زیادہ اہم ہو گئے ہیں اور آج کے سرویلنس اور پروپیگنڈا کے طریقوں سے ان کا گہرائی سے موازنہ کرنا ہے۔

 کل سرویلنس (Total Surveillance) اور ڈیجیٹل نگرانی

 '1984' میں سرویلنس

'1984' کی دنیا میں نگرانی ہر جگہ موجود تھی۔ 'ٹیلی اسکرینز' ہر گھر اور عوامی جگہ پر نصب تھیں، جو نہ صرف معلومات نشر کرتی تھیں بلکہ رہائشیوں پر مسلسل نظر بھی رکھتی تھیں۔ 'تھاٹ پولیس' ایسے افراد کا سراغ لگاتی تھی جو پارٹی کے خلاف سوچنے کی جرات کرتے تھے۔ پڑوسیوں اور یہاں تک کہ بچوں کو بھی ایک دوسرے پر نظر رکھنے کی ترغیب دی جاتی تھی، جس سے معاشرے میں بے اعتمادی کا ماحول پیدا ہوتا تھا۔ گولڈ اسٹائن کی فرضی کتاب اور 'ڈبل تھنک' کے تصورات بھی سوچ پر کنٹرول کے اوزار تھے۔

 آج کے ڈیجیٹل دور میں نگرانی کے طریقے

آج کے ڈیجیٹل دور میں نگرانی کے طریقے کئی گنا زیادہ پیچیدہ اور وسیع ہو چکے ہیں۔

1.   حکومتی نگرانی: ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے ماس سرویلنس پروگراموں کو بے نقاب کیا جہاں حکومتیں شہریوں کے ڈیٹا، انٹرنیٹ ٹریفک، اور مواصلات کی نگرانی کرتی ہیں۔ چہرہ شناسی(Facial Recognition) ٹیکنالوجی اور شہروں میں نصب بے شمار CCTV کیمرے ہماری شناخت اور نقل و حرکت کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔

2.   کارپوریٹ نگرانی: یہ شاید سب سے عام قسم کی نگرانی ہے جس کا ہم سامنا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیاں، سرچ انجن، اور ای کامرس ویب سائٹس ہمارے ہر کلک، سرچ، اور خریداری کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں۔ اس ڈیٹا کا استعمال ٹارگٹڈ ایڈورٹائزنگ اور صارف کی پروفائلنگ کے لیے ہوتا ہے تاکہ ہماری پسند اور ناپسند کے مطابق اشتہارات دکھائے جا سکیں۔ اسمارٹ ڈیوائسز اور IoT (انٹرنیٹ آف تھنگز) جیسے سمارٹ ہوم اپلائنسز بھی مسلسل ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔

3.   باہمی نگرانی (Self-Surveillance) اور رضاکارانہ ڈیٹا شیئرنگ: '1984' کے برعکس، آج ہم اکثر اپنی مرضی سے اپنی ذاتی معلومات شیئر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنی زندگی کے لمحات، آراء، اور لوکیشن کا اشتراک کرنا، یا فٹنس ٹریکرز اور صحت کی ایپس کا استعمال کرنا سب رضاکارانہ ڈیٹا شیئرنگ کی مثالیں ہیں۔

 مماثلتیں اور اختلافات:

'1984' میں نگرانی جبری اور خوف پر مبنی تھی، جبکہ ڈیجیٹل دور میں یہ اکثر ہماری رضامندی (یا لاعلمی) سے ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقاء ٹیلی اسکرینز سے لے کر سمارٹ فونز تک، نگرانی کو ہر فرد کی جیب میں پہنچا چکا ہے۔

 پروپیگنڈا اور ڈیجیٹل دور میں معلومات کا کنٹرول

 '1984' میں پروپیگنڈا

'1984' میں 'وزارتِ سچ' کا کام تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق دوبارہ لکھنا اور خبروں میں ہیرا پھیری کرنا تھا۔ 'دو منٹ کی نفرت' کا سیشن شہریوں کے اندر مخصوص دشمنوں کے خلاف نفرت ابھارنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ 'نیوز پیک' زبان کو محدود کرنے کا ایک ذریعہ تھا تاکہ لوگ باغیانہ خیالات کا اظہار ہی نہ کر سکیں۔ 'بگ برادر' کی شخصیت پرستی ایک ناقابل تردید سچائی بن چکی تھی۔

 آج کے ڈیجیٹل دور میں پروپیگنڈا اور معلومات کا کنٹرول

ڈیجیٹل دور میں پروپیگنڈا زیادہ نفیس اور تیزی سے پھیلنے والا ہے۔

1.   جعلی خبریں (Fake News) اور غلط معلومات (Disinformation/Misinformation): سوشل میڈیا الگورتھم کی بدولت جعلی خبریں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ ٹرول فارمز اور بوٹس کا استعمال عوامی رائے کو متاثر کرنے اور مخصوص بیانیوں کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔

2.   پولرائزیشن اور ایکو چیمبرز (Echo Chambers): الگورتھمک فلٹر ببلز ہمیں صرف وہی معلومات دکھاتے ہیں جو ہماری موجودہ آراء سے مطابقت رکھتی ہیں، جس سے ہم ایکو چیمبرز میں بند ہو جاتے ہیں اور مختلف نقطہ نظر کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

3.   سائبر وارفیئر اور سیاسی مہمات: انتخابات اور سیاسی مہمات میں پروپیگنڈا کا استعمال عام ہو چکا ہے، جہاں مخصوص امیدواروں یا جماعتوں کے حق میں یا خلاف غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔

4.    ریاستی حمایت یافتہ پروپیگنڈا: کئی ممالک میں ریاست کے زیر انتظام میڈیا اور سوشل میڈیا ہینڈلز ریاستی حمایت یافتہ پروپیگنڈا پھیلاتے ہیں۔

5.   ڈیپ فیکس (Deepfakes): مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ویڈیوز اور آڈیوز حقیقت سے اتنی قریب ہوتی ہیں کہ انہیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے، جس سے معلومات میں ہیرا پھیری کے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔

 مماثلتیں اور اختلافات:

'1984' میں معلومات پر مرکزی کنٹرول تھا، جبکہ ڈیجیٹل دور میں معلومات کا پھیلاؤ غیر مرکزی ذرائع سے ہوتا ہے لیکن پھر بھی اسے منظم طریقے سے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ آج معلومات کی فراوانی اتنی زیادہ ہے کہ سچائی کو چھانٹنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔

 سوچ پر قابو اور ڈیجیٹل دور میں رائے کی تشکیل

 '1984' میں سوچ پر قابو

'1984' میں 'نیوز پیک' کا بنیادی مقصد سوچ کی حدود کو محدود کرنا تھا تاکہ بغاوت کے خیالات پیدا ہی نہ ہو سکیں۔ 'ڈبل تھنک' کے ذریعے افراد کو متضاد خیالات کو ایک ساتھ قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ فرد کی خودمختاری اور تنقیدی سوچ کے مکمل خاتمے کی صورت میں نکلتا تھا۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں رائے کی تشکیل اور اثر و رسوخ

ڈیجیٹل دور میں سوچ پر کنٹرول براہ راست جبر کے بجائے زیادہ لطیف طریقوں سے ہوتا ہے۔

1.   سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی رائے کو متاثر کرنا: ٹرینڈنگ ٹاپکس، ہیش ٹیگز، اور انفلوئنسر مارکیٹنگ کے ذریعے مخصوص خیالات کو فروغ دیا جاتا ہے اور عوامی رائے کو ایک خاص سمت میں موڑا جاتا ہے۔

2.   بحث و مباحثہ کا معیار: سوشل میڈیا پر بحثیں اکثر سطحی، جذباتی، اور توہین آمیز ہوتی ہیں، جہاں مختلف نقطہ نظر کو قبول کرنے کے بجائے مخالفت کی جاتی ہے۔

3.   ڈیجیٹل ڈیٹوکس اور مینٹل ہیلتھ: معلومات کے بے پناہ بوجھ اور آن لائن منفی تبصروں کی وجہ سے ذہنی صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، اور بہت سے لوگ ڈیجیٹل ڈیٹوکس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔

 مماثلتیں اور اختلافات:

'1984' میں سوچ پر براہ راست اور جبری کنٹرول تھا، جبکہ ڈیجیٹل دور میں رائے کی تشکیل غیر محسوس اور لطیف طریقوں سے کی جاتی ہے، جس کا ہمیں اکثر احساس بھی نہیں ہوتا۔

 فرد کی آزادی کا فقدان اور ڈیجیٹل دور کے چیلنجز

 '1984' میں فرد کی آزادی کا خاتمہ

'1984' میں فرد کی آزادی کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا۔ رومانس اور محبت کو جرم قرار دیا گیا، اور ذاتی رشتے تقریباً ناپید تھے۔ پارٹی کا ماضی، حال اور مستقبل پر مکمل کنٹرول تھا۔

 ڈیجیٹل دور میں فرد کی آزادی کے چیلنجز

ڈیجیٹل دور میں بھی فرد کی آزادی کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔

1.   پرائیویسی کا فقدان اور ڈیٹا سیکورٹی: ہماری ذاتی معلومات مسلسل خطرے میں رہتی ہے، اور ڈیٹا لیک ہونا عام بات ہو گئی ہے، جس سے ہماری پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔

2.   ڈیجیٹل شناخت اور غلط استعمال: ہماری آن لائن شناخت ہماری حقیقی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اور اس کے غلط استعمال کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

3.   آن لائن سینسرشپ اور آزادی اظہار: حکومتیں اور کارپوریشنز اکثر آن لائن مواد کو سینسر کرتی ہیں، جس سے آزادی اظہار پر پابندیاں لگتی ہیں۔

4.    "کینسل کلچر" (Cancel Culture): سوشل میڈیا پر کسی بھی غلطی یا متنازع بیان پر افراد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس سے ان کا کیریئر اور ساکھ متاثر ہوتی ہے، اور لوگ کھل کر اظہار رائے سے گریز کرتے ہیں۔

 مماثلتیں اور اختلافات:

'1984' میں ایک ظالمانہ ریاست براہ راست دباؤ ڈالتی تھی، جبکہ ڈیجیٹل دور میں کارپوریشنز، ہیکرز، اور دیگر ڈیجیٹل ادارے دباؤ کا باعث بنتے ہیں۔

 '1984' کی پائیدار مطابقت

جارج آرویل کا '1984' آج بھی ایک پائیدار انتباہی کہانی ہے۔ یہ ناول ہمیں دکھاتا ہے کہ ٹیکنالوجی ایک دو دھاری تلوار ہے؛ یہ جہاں ترقی اور سہولیات فراہم کرتی ہے، وہیں یہ جبر اور آزادی کے خاتمے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ آرویل نے ہمیں سکھایا کہ جب ریاست یا کوئی بھی طاقت معلومات اور نگرانی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے تو اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔

 ڈیجیٹل دور میں درپیش چیلنجز اور ممکنہ حل

ہم ڈیجیٹل دور میں '1984' کی جھلک دیکھ رہے ہیں، لیکن ہم اس سے بچ سکتے ہیں۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:

1.   ڈیجیٹل خواندگی اور تنقیدی سوچ: ہمیں سکھایا جانا چاہیے کہ معلومات کو پرکھیں اور ہر آن لائن مواد پر فوری یقین نہ کریں۔

2.   پرائیویسی قوانین اور سائبر سیکورٹی: مضبوط پرائیویسی قوانین کا نفاذ اور سائبر سیکورٹی کو بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ ہماری ذاتی معلومات محفوظ رہ سکیں۔

3.   ٹیکنالوجی کا ذمہ دارانہ استعمال: ہمیں ٹیکنالوجی کا ذمہ دارانہ استعمال کرنا سیکھنا ہوگا اور اس کے ممکنہ منفی اثرات سے آگاہ رہنا ہوگا۔

4.    فرد کی آزادی اور جمہوری اقدار کا تحفظ: ہمیں اپنی آزادی اظہار، پرائیویسی، اور تنقیدی سوچ کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا ہوگا۔

کیا ہم '1984' کی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں یا ہم ہوشیاری اور تدبر سے اس سے بچ سکتے ہیں؟ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے ہوش مندی سے کام نہ لیا تو یہ ممکن ہے کہ بگ برادر کی نگرانی اور پارٹی کا پروپیگنڈا، ایک نئے ڈیجیٹل روپ میں، ہماری زندگیوں کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ آزادی کی قیمت مسلسل چوکسی ہے، اور ڈیجیٹل دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

  

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !