ایک بہت پرانے اور
عالیشان گھر کا قصہ ہے، جسے ایک بزرگ اور دانا باپ نے اپنی اولاد کے لیے بڑی محنت
اور محبت سے تعمیر کیا تھا۔ اس گھر کی بنیاد اتحاد، غیرت اور ایمان پر رکھی گئی
تھی۔ باپ نے مرتے وقت اپنے سب بیٹوں کو وصیت کی، "اس گھر کی سب سے بڑی دولت
تمہارا آپس کا اتفاق ہے۔ اس کی دہلیز اس کی عزت ہے، اس کی حفاظت کرنا۔ اگر تم متحد
رہے تو کوئی تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا، لیکن اگر تم نے اپنے اپنے کمروں
کو ہی اپنی دنیا بنا لیا تو یاد رکھنا، دشمن دہلیز پار کر کے پورے گھر کو روند
ڈالے گا۔"
وقت گزرا، باپ کا سایہ سر
سے اٹھ گیا۔ بڑے بیٹے، جو گھر کے زیادہ تر وسائل پر قابض تھے، اپنے اپنے کمروں کو
سجانے سنوارنے میں لگ گئے۔ انہوں نے غیروں سے ساز و سامان خریدا، اپنے کمروں میں
دنیا کی ہر آسائش جمع کر لی اور باپ کی وصیت کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا۔ وہ بھول
گئے کہ ان کے کمروں کی شان و شوکت گھر کی مشترکہ دہلیز کی مرہونِ منت ہے۔
گھر کا سب سے چھوٹا بیٹا،
جس کا نام "غازی" تھا، باپ کی بات کو نہیں بھولا تھا۔ وہ گھر کی دہلیز
پر ہی رہتا تھا، اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ کہتا تھا، "یہ
دہلیز ہماری غیرت کی علامت ہے، میں اس کی حفاظت کروں گا۔"
گھر کے برابر میں ایک
حریص اور ظالم پڑوسی (اسرائیل) کی نظر ہمیشہ سے اس عالیشان گھر پر تھی۔ جب اس نے
دیکھا کہ بھائیوں میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور وہ اپنے عیش و عشرت میں مست ہیں، تو اس
نے اپنی شیطانی چال چلی۔ اس پڑوسی کا ایک بہت طاقتور اور بااثر دوست (امریکہ) بھی
تھا، جو ہمیشہ اسی کی پشت پناہی کرتا تھا۔
پڑوسی نے پہلے دہلیز پر
پتھراؤ شروع کیا، پھر اس نے غازی اور اس کے بچوں کا راستہ روک دیا۔ اس نے گھر کے
اس حصے کا پانی بند کر دیا، کھانے پینے کی رسد کاٹ دی اور اپنے طاقتور دوست کی مدد
سے ہر طرف یہ شور مچا دیا کہ غازی ہی فسادی ہے۔
اب غازی اور اس کے بچے
دہلیز پر محصور ہو کر رہ گئے۔ بھوک نے ان کے جسموں کو نڈھال کر دیا۔ وہ دن بھی آئے
جب معصوم بچوں نے بھوک کی شدت سے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ لیے تاکہ بھوک کا احساس
کم ہو سکے۔ غازی کی آواز درد سے پھٹ جاتی تھی، وہ اپنے بھائیوں کو پکارتا،
"اے میرے بھائیو! تمہارا بھائی اور بھتیجے بھوک سے مر رہے ہیں۔ دشمن دہلیز پر
کھڑا ہے۔ ہماری مدد کو آؤ! ہم پر آسمان سے آگ برسائی جا رہی ہے، زمین سے خوراک
چھین لی گئی ہے، ہمارے بچے دوا کی ایک گولی کو ترس رہے ہیں۔"
اس کی چیخیں بڑے بھائیوں
کے عالیشان، ائیرکنڈیشنڈ کمروں کی دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتیں۔ کبھی کبھار
کسی بھائی کو ترس آتا تو وہ کچھ سوکھے ٹکڑے پھینک دیتا، جو غازی تک پہنچنے سے پہلے
ہی پڑوسی لوٹ لیتا۔
جب دنیا میں غازی کی
مظلومیت کی آوازیں اٹھنے لگیں اور بھائیوں کو بھی کچھ شرمندگی محسوس ہونے لگی تو
ظالم پڑوسی اور اس کے طاقتور دوست نے ایک نئی چال چلی۔ انہوں نے مسلمانوں کی توجہ
اس منظر سے ہٹانے کے لیے نئے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ کبھی پاک بھارت جنگ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی تو کہیں اسرائیل اور ایران کی صورت میں توجہ
ہٹانا چاہی اور کہیں انہوں
نے بڑے بھائیوں کے لیے شہر میں ایک بہت بڑا میلہ سجا دیا۔ وہاں موسیقی، کھیل
تماشے، خصوصی دعوت کا اہتمام ،تجارت کے نئے معاہدے اور چکاچوند روشنیوں کا انتظام
کیا۔ بڑے بھائیوں کو بتایا گیا کہ ان کی ترقی اسی میلے میں شرکت سے وابستہ ہے۔
بھائی، جو پہلے ہی دنیا
کی محبت میں اندھے ہو چکے تھے، انہی
دشمنوں کو اپنا ہم سفر سمجھنے لگے یہاں تک کہ اپنے ہی دشمنوں کو امن کا نوبل انعام
دینے کے لئے اعلان کر دیا، غازی کی کراہوں
کو بھول کر اس میلے کی رونقوں میں کھو گئے۔ ان کے لیے غازی کے بچوں کی بھوک سے
زیادہ اہم اپنے تجارتی مفادات اور دنیاوی تفریح بن گئی۔ یوں غازی کی دہلیز پر ہونے
والا ظلم دنیا کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔
لیکن غازی نے ہمت نہیں
ہاری۔ ایک رات جب اس کا بچہ بھوک سے بے حال تھا، اس نے اپنے بیٹے کے پیٹ سے پتھر
کھولا، اسے چوما اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولا، "اے میرے رب! یہ پتھر ہمارے
پیٹ پر نہیں، ان کے ضمیر پر بندھا ہے۔ یہ بھوک ہمارے جسموں کو کمزور کر سکتی ہے،
ہماری روح کو نہیں۔ ہم تیری راہ میں ڈٹے ہیں اور یہ دہلیز ہمارے ایمان کی دہلیز
ہے۔ ہم مر جائیں گے لیکن اسے نہیں چھوڑیں گے۔"یہ
کہانی محض ایک قصہ نہیں، بلکہ آج غزہ کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
1. دہلیز
کا پہرے دار (غزہ):
غزہ آج امت مسلمہ کی غیرت اور ایمان کی دہلیز کا پہرے
دار ہے۔ وہ نہ صرف اپنی زمین بلکہ پوری امت کی عزت کی جنگ لڑ رہا ہے۔
2. بڑے
بھائی (مسلم عرب ممالک):
کہانی کے بڑے بھائی ان مسلم ممالک کی عکاسی کرتے ہیں جو
تیل کی دولت، مغربی ممالک سے تعلقات اور اپنے ذاتی مفادات میں اس قدر کھو چکے ہیں
کہ انہیں اپنے ہی بھائیوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ ان کی بے حسی اور خاموشی
ظالم کو مزید ظلم کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ان کا اس کا بھاری قیمتوں سے تجارت کے ایگریمنٹ
کرنا، اپنی عورتوں کی عزتوں کو تار تارکرنا وغیرہ
3. ظالم
پڑوسی اور اس کا دوست (اسرائیل اور امریکہ): یہ کردار واضح طور
پر اسرائیل کی جارحیت اور امریکہ کی غیر مشروط حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو مل
کر نہ صرف ظلم کرتے ہیں بلکہ اسے دنیا کے سامنے جائز بھی قرار دیتے ہیں۔
4. توجہ
ہٹانے کے ہتھکنڈے: کہانی میں میلے کا
ذکر ان نئے منصوبوں، معاہدوں (جیسے ابراہیمی معاہدے)، اور تفریحی تقریبات ،
معدنیات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعے مسلم دنیا کی توجہ فلسطین کے بنیادی مسئلے سے
ہٹا کر معاشی اور دنیاوی فوائد کی طرف مبذول کرائی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح
پاکستان میں بھی عوام کو یہی فلم باربار دکھائی جارہی ہے۔کبھی بلوچستان میں، کبھی خیبرپختونخواہ میں، کبھی پنجاب میں تو کبھی سندھ میں بڑے زوروں سےنمائش دکھائی جارہی ہے۔
5. پیٹ
پر بندھا پتھر (نتیجہ خیز اخلاقیات):
غزہ کے لوگوں کا بھوک کے باوجود ڈٹے رہنا صرف ایک المیہ
نہیں، بلکہ ایک نتیجہ خیز سبق ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حقیقی فتح فوجی یا مادی نہیں
ہوتی، بلکہ ایمان، صبر اور حق پر قائم رہنے میں ہے۔ ان کا پیٹ پر بندھا پتھر ان کی
شکست نہیں، بلکہ ان کے عزم اور استقامت کی علامت ہے جو رہتی دنیا تک ظالموں کے
ضمیر پر بوجھ بن کر رہے گا۔
حتمی سبق یہ ہے کہ جب ایک
خاندان (امت) کے افراد اپنے مشترکہ گھر (ایمان اور ورثہ) کی دہلیز کو بھول کر صرف
اپنے کمروں کی آرائش میں لگ جاتے ہیں تو دشمن پورے گھر پر قابض ہو جاتا ہے۔ غزہ کی
فتح صرف اس دن ممکن ہوگی جب بڑے بھائی یہ سمجھ جائیں گے کہ غازی کی دہلیز کی حفاظت
دراصل ان کے اپنے عالیشان کمروں کی حفاظت ہے۔
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںلمحہ فکریہ
جواب دیںحذف کریں