یہ ایک ایسی تاریخ ہے جس
کے داغ آج بھی پاکستان کے اجتماعی شعور پر گہرے ہیں۔ 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں
پاک فوج کے جنرل نیازی کے ہاتھوں ہتھیار ڈالنا محض ایک جنگ کا اختتام نہیں تھا،
بلکہ ایک خواب کے ٹوٹنے کی داستان تھی۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں
آنے والا ملک، جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کہتا تھا، محض 24 سال
کے عرصے میں دو لخت ہو گیا۔ یہ ایک اچانک واقعہ نہیں تھا بلکہ ایسی کئی غلطیوں کا
نتیجہ تھا جنہوں نے ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان خلیج کو اتنا گہرا کر دیا
کہ علیحدگی ممکن ہوگئی۔
وہ کون سی غلطیاں تھیں جنہوں نے پاکستان کو دو لخت کیا؟
سقوط ڈھاکہ کا کوئی ایک
سبب نہیں تھا۔ یہ ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی المیہ تھا جس کی جڑیں جغرافیہ، سیاست،
معیشت، ثقافت اور فوجی حکمت عملی میں پیوست تھیں۔
1۔ جغرافیائی دوری اور انتظامی چیلنجز
سب سے پہلی اور بنیادی
غلطی فطری تھی جسے نظرانداز کر دیا گیا۔
1. فاصلہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان
تقریباً 1600 کلومیٹر کا فاصلہ تھا جس کے درمیان پورا بھوٹان، نیپال اور بھارت کا
وسیع و عریض علاقہ حائل تھا۔ یہ جغرافیائی دوری دونوں حصوں کے درمیان براہ راست
رابطے، تجارت اور نقل و حرکت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔
2. انتظامی مشکلات ایک ملک کو دو الگ الگ حصوں
میں چلانا انتظامی طور پر انتہائی مشکل تھا۔ تمام اہم سرکاری دفاتر، فوجی ہیڈ
کوارٹرز اور معاشی مراکز مغربی پاکستان میں تھے۔ مشرقی پاکستان میں کوئی بھی فیصلہ
لینے کے لیے لاہور یا اسلام آباد سے منظوری لینا پڑتی تھی، جس میں ہفتوں لگ جاتے
تھے۔ یہ دوری مشرقی پاکستان کے عوام میں یہ احساس پیدا کرنے کا سبب بنی کہ وہ ایک
کالونی ہیں جس پر دور بیٹھے حکمران حکم چلا رہے ہیں۔
2۔ معاشی عدم مساوات اور استحصال
معاشی ناانصافیوں نے مشرقی
پاکستان کے عوام میں شدید مایوسی اور غصہ پیدا کیا۔
1. مشرقی پاکستان جوت کی پیداوار میں دنیا میں
سرفہرست تھا۔ اس کی برآمد سے حاصل ہونے والی زرمبادلہ کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ
مغربی پاکستان پر خرچ کیا جاتا تھا۔
2. تمام بڑے ترقیاتی منصوبے، صنعتیں، فوجی تنصیبات
اور تعلیمی ادارے مغربی پاکستان میں تعمیر کیے گئے۔ مشرقی پاکستان کو بنیادی
ڈھانچے اور ترقی کے حوالے سے شدید نظرانداز کیا گیا۔
3. معاشی پالیسیاں ایسی بنائی گئیں کہ مشرقی
پاکستان کی مصنوعات کو مغربی پاکستان میں درآمد کرنا مشکل تھا، جبکہ مغربی پاکستان
کی مصنوعات مشرق میں آسانی سے فروخت ہوتی تھیں۔ اس سے مشرقی پاکستان کی مقامی صنعتیں
تباہ ہو گئیں۔
یہ معاشی استحصال اس بات
کی واضح علامت تھی کہ مشرقی پاکستان محض ایک بازار اور خام مال کا ذریعہ ہے جسے
مغربی پاکستان کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
3۔ زبان اور ثقافت کو نظرانداز کرنا
سب سے بڑی اور ناقابل
معافی غلطی زبان کے مسئلے پر کی گئی۔
1. اردو کو واحد قومی زبان قرار دینا 1948 میں
قائد اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ صرف اردو ہی پاکستان کی قومی
زبان ہوگی۔ مشرقی پاکستان، جہاں کی 98 فیصد آبادی بنگالی بولتی اور سمجھتی تھی، اس
فیصلے کو ثقافی حملہ سمجھا۔ بنگالی صدیوں سے ان کی ثقافت، ادب اور شناخت کا حصہ تھی۔
2. 1952کی
زبان کی تحریک حکومت کی طرف سے بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے سے انکار نے تحریک
کو جنم دیا۔ 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء پر پولیس کے تشدد اور کئی
شہادتوں نے اس تحریک کو ہوا دی۔ یہ دن آج بھی بنگلہ دیش میں "شہید دن"
کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب مشرقی پاکستان کے عوام نے اپنے
حقوق کے لیے منظم مزاحمت کی اور ان کا یہی جذبہ بعد میں علیحدگی کی تحریک کی بنیاد
بنا۔زبان کا مسئلہ محض ایک اختلاف نہیں تھا، بلکہ یہ مشرقی پاکستان کی ثقافتی
شناخت کو تسلیم نہ کرنے کی علامت تھا۔
4۔ سیاسی محرومی اور اقتدار میں حصہ داری کا فقدان
سیاسی میدان میں بھی مشرقی
پاکستان کے عوام کو یکساں حقوق نہیں دیے گئے۔
1. وزیراعظم کا عہدہ ملک کے وجود میں آنے کے
بعد سے 1971 تک پاکستان کے کل 7 وزرائے اعظم ہوئے۔ ان میں سے صرف ایک (محمد علی
بوگرہ) مشرقی پاکستان سے تھے جن کا تعلق بھی مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے
تھا۔ باقی تمام مغربی پاکستان سے تھے۔
2. فوج اور بیوروکریسی پر مغربی پاکستان کا
غلبہ فوج، بیوروکریسی اور دیگر اہم اداروں پر مغربی پاکستان، خاص طور پر پنجاب اور
سندھ کے چند خاندانوں کا مکمل کنٹرول تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اعلیٰ عہدوں
پر فائز ہونے کے مواقع نہیں دیے جاتے تھے۔
3. ون یونٹ سکیم مغربی پاکستان کے تمام صوبوں
کو ملا کر ایک یونٹ بنا دیا گیا تاکہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو متوازن کیا جا
سکے۔ اس سکیم کا مقصد صوبائی خودمختاری ختم کرنا اور مرکز کی طاقت کو مضبوط کرنا
تھا، جس سے مشرقی پاکستان کے عوام میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ انہیں سیاسی طور پر ہمیشہ
کے لیے کمزور کر دیا جائے گا۔
5۔ 1970 کے عام انتخابات اور شیخ مجیب الرحمن کی چھ نکات
1. 1960کی
دہائی کے آخر تک حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی
آوازیں بلند ہونے لگیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے "چھ نکات" کی
بنیاد پر انتخابات لڑا، جو درحقیقت مشرقی پاکستان کو خودمختاری دینے کا منشور تھا۔
2. 1970 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے قومی
اسمبلی کی 169 میں سے 167 نشستیں صرف مشرقی پاکستان سے جیتیں۔ اس طرح وہ ملک کی سب
سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری جسے مکمل طور پر مشرقی پاکستان نے ووٹ دیا تھا۔
3. جمہوری روایت کے مطابق عوامی لیگ کو حکومت
بنانے کا حق تھا۔ لیکن مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت، خاص طور پر ذوالفقار علی
بھٹو، نے شیخ مجیب الرحمن کی وزارت اعظمی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بھٹو نے
کہا کہ وہ "ادھر تم، ادھر ہم" کی پالیسی پر چلیں گے۔ یہ جمہوریت کی واضح
توہین تھی۔
4. صدر یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر
دیا، جس نے مشرقی پاکستان میں آتش گیر مواد میں چنگاری کا کام کیا۔ عوامی لیگ نے
سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی اور مشرقی پاکستان کا کنٹرول عملاً حکومت کے
ہاتھوں سے نکلنا شروع ہو گیا۔یہ وہ فیصلہ کن موڑ تھا جہاں پر سیاسی حل کو مسترد کر
دیا گیا اور فوجی حل کو ترجیح دی گئی۔
6۔ فوجی کارروائی اور بھارت کی مداخلت
مارچ 1971 میں، صدر یحییٰ
خان نے "آپریشن سرچ لائٹ" کے
نام سے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا حکم دیا۔
1. پراپگنڈہ اور مبالغہ آرائی دونوں اطراف سے
پراپگنڈہ کیا گیا۔ پاکستانی فوج نے باغیوں کو کچلنے کے لیے کارروائی کی، جبکہ
بھارت اور مکتی باہنی نے اسے عوام کے قتل عام کے طور پر پیش کیا۔ ہلاکتوں کی تعداد
پر آج بھی اختلاف ہے، لیکن یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس کارروائی میں بہت سے
معصوم شہری مارے گئے۔
2. بھارت نے اس موقع پر پاکستان کو کمزور کرنے
کے سنہری موقع کے طور پر دیکھا۔ اس نے مشرقی پاکستان میں پناہ گزینوں کے بہاؤ کو بین
الاقوامی میڈیا کے ذریعے ہائی لائٹ کیا اور مکتی باہنی کو کھلے عام ہتھیار، تربیت
اور مالی مدد فراہم کی۔
3. پاکستان کی اس کارروائی پر بین الاقوامی
برادری، خاص طور پر امریکہ اور یورپ، میں سخت ردعمل آیا۔ دنیا بھر میں میڈیا
پاکستان کے خلاف ہو گیا، جس نے بھارت کے لیے مداخلت کا راستہ ہموار کیا۔
7۔ دسمبر کی جنگ اور امریکہ اور روس کا کردار
دسمبر 1971 میں، بھارت نے
مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں پر پاکستان پر کھلی جارحیت کر دی۔
1. پاک فوج کے صرف ایک ڈویژن کے پاس مشرقی
پاکستان کا دفاع کرنا تھا، جبکہ بھارت نے تین سے چار ڈویژنز کے ساتھ حملہ کیا۔
مغربی پاکستان سے کوئی کمک یا رسد نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ بھارت کے ہوا اور بحری
بیڑے راستے روکے ہوئے تھے۔
2. امریکہ نے پاکستان کی مدد کے لیے ساتواں
بحری بیڑہ بھیجا، لیکن روس نے بھارت کی حمایت میں اپنا بحری بیڑہ تعینات کر دیا۔
اس بحری مقابلے نے امریکی بیڑے کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔
3. پاکستانی فوج کے پاس وسائل ختم ہو گئے اور
انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا۔ 16 دسمبر کو ڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ میں
ہتھیار ڈال دیے گئے اور 93،000 پاکستانی فوجی جنگی قیدی بنا لیے گئے۔
یاد رکھنے کے لیے اہم نکات
1. سقوط ڈھاکہ کسی ایک شخص، ایک فوجی کارروائی
یا ایک سیاسی جماعت کی غلطی کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ ایک اجتماعی ناکامی تھی جس میں
حکمران اشرافیہ، سیاستدان، فوج اور بیوروکریسی سب برابر کے شریک تھے۔
2. جمہوریت کی نفی اور عوامی مینڈیت کو تسلیم
نہ کرنا سب سے بڑا سیاسی سبب تھا۔
3. معاشی استحصال اور ثقافتی جبر نے عوام میں
علیحدگی کی خواہش کو ہوا دی۔
4. بھارت نے موقع پرستی سے کام لیتے ہوئے اپنے
مفادات کے لیے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
5. بین الاقوامی برادری نے پاکستان کے خلاف ہو
کر بھارت کی مدد کی۔
سقوط ڈھاکہ کی تاریخ ہمیں کئی اہم سبق دیتی ہے۔
1. کسی
ملک کی سالمیت کے لیے جمہوریت، رواداری اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام نہایت ضروری
ہے۔
2. تمام صوبوں اور خطوں کے ساتھ معاشی انصاف
ہونا چاہیے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی ملک کے ٹوٹنے سے بچا سکتی ہے۔
3. ثقافتی اور لسانی تنوع کو قومی اکائی کے لیے
خطرہ نہیں بلکہ طاقت سمجھنا چاہیے۔
4. سیاسی قیادت میں قومی یکجہتی کو فوقیت دینے
کی بصیرت ہونی چاہیے، ذاتی اور علاقائی مفادات پر نہیں۔
سقوط ڈھاکہ پاکستان کی
تاریخ کا ایک ایسا المیہ ہے جس سے صرف ماضی کو کوستے رہنے کے بجائے سبق حاصل کرنے
کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی ملک کی طاقت صرف اس کی فوج یا
جغرافیائی حدود میں نہیں ہوتی، بلکہ اس کی طاقت اس کے عوام کے دلوں میں ہوتی ہے۔ جب
عوام خود کو محروم، نظرانداز شدہ اور دوسرے درجے کا شہری سمجھنے لگیں، تو پھر کوئی
فوج، کوئی آئین اور کوئی نظریہ انہیں مِل کے رکھ نہیں سکتا۔ پاکستان کے بچے کھچے
حصے کے لیے یہ تاریخ ایک سبق ہے کہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایسی غلطیوں کو نہ
دہرایا جائے اور ایک مضبوط، متحد اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کی جائے جہاں ہر شہری
کو یکساں حقوق اور مواقع حاصل ہوں۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔