تاریخ کا مطالعہ ہمیں
ماضی کے واقعات، شخصیات اور سلطنتوں کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ لیکن کچھ وہ پہلو
ہوتے ہیں جو تاریخ کی عام کتابوں میں شامل نہیں ہوتے۔ یہ وہ خفیہ یا نظر انداز شدہ
حقائق ہوتے ہیں جو وقت کے دھندے میں چھپ جاتے ہیں یا پھر حکمران طبقے کی جانب سے
عمداً چھپائے جاتے ہیں۔ سلطنتِ مغلیہ، جس نے برصغیر پاک و ہند پر تقریباً تین
صدیوں تک حکومت کی، ایک ایسی عظیم سلطنت تھی جس کے بارے میں ہمیں بہت کچھ پڑھنے
اور جاننے کو ملتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے راز بھی ہیں جو تاریخ کی
کتابوں میں نہیں ملتے۔ آج کا موضوع انہی پوشیدہ پہلوؤں، غیر مروجہ حقائق اور تاریخ
کی کتابوں سے محروم کردہ واقعات پر روشنی ڈالتا ہے۔
سلطنتِ مغلیہ کی بنیاد اور ابتدائی دور کے پوشیدہ پہلو
بابر نے 1526ء میں پانی
پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں مغل حکومت کی بنیاد
رکھی۔ لیکن بابر کی ذاتی زندگی، اس کے جذباتی کرب اور نفسیاتی کشمکش عام تاریخ کی
کتابوں میں نہیں ملتے۔ بابر کا اپنی بیوی ممتاز محل کے لیے غم، اس کی بیماریوں کا
ذکر، اور ہندوستان کے موسم کے بارے میں اس کی نفرت صرف اس کی خود نوشت “بابر نامہ”
میں ملتی ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ ہندوستان کا موسم اس کے لیے ناقابل
برداشت تھا اور وہ ہمیشہ اپنے وطن فرغانہ کی یاد میں گھلا رہتا تھا۔
اس کے علاوہ بابر کی فوج
میں شامل ہونے والے مقامی سپاہیوں کے بارے میں بھی کم ہی بات کی جاتی ہے۔ درحقیقت،
بابر کی فتح میں مقامی راجپوتوں اور افغان سرداروں کا تعاون بھی شامل تھا، لیکن
تاریخ نگاروں نے ان کے کردار کو نظر انداز کر دیا۔ بابر کی فوج میں تقریباً پچاس
فیصد مقامی فوجی شامل تھے، جو بعد میں مغل فوج کا حصہ بن گئے۔
ہمایوں کی جلاوطنی اور اس کے دوران کے واقعات
ہمایوں، جو بابر کا بیٹا
تھا، اپنے دور حکومت میں کچھ عرصہ افغان سردار شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر
جلاوطن ہوا۔ اس دوران وہ ایران چلا گیا اور وہاں صفوی بادشاہ طہماسب اول کی مدد سے
واپسی کی تیاری کی۔ لیکن اس جلاوطنی کے دوران ہمایوں کی ذاتی زندگی کے وہ پہلو جو
تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتے، وہ اس کی روحانی تبدیلی اور داخلی کشمکش ہیں۔
ہمایوں نے ایران میں رہتے
ہوئے تصوف کی طرف رجحان پیدا کیا۔ وہ اکثر خلوت نشینی کرتا تھا اور اپنے وجود کے
مقصد پر غور کرتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو “فقر” کا لقب دیا اور اپنے خطوط میں خود
کو “عبدالله” کہہ کر پکارا۔ یہ روحانی تبدیلی اس کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالی، لیکن
تاریخ نگاروں نے اسے صرف ایک کمزور حکمران کے طور پر پیش کیا۔
اس کے علاوہ، ہمایوں کی
بیوی حمیدہ بانو بیگم کا کردار بھی اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وہ صرف ایک شہزادی
نہیں تھیں بلکہ ایک باصلاحیت سیاستدان اور فوجی مشیر بھی تھیں۔ ہمایوں کی جلاوطنی
کے دوران انہوں نے اپنے بیٹے اکبر کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا اور اسے مستقبل
کا حکمران بنانے کی تیاری کی۔
اکبر کا دور اصلاحات کے پیچھے چھپے حقائق
اکبر کا دور سلطنتِ مغلیہ
کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اس نے مذہبی رواداری، انتظامی اصلاحات اور فنون لطیفہ کی
سرپرستی کی۔ لیکن اس کے پیچھے کچھ ایسے حقائق ہیں جو عام تاریخ کی کتابوں میں شامل
نہیں ہوتے۔
سب سے پہلے تو اکبر کی
“دینِ الٰہی” کا تصور۔ یہ ایک ایسا مذہبی نظام تھا جس میں مختلف مذاہب کے عناصر کو
ملا کر ایک نیا نظام تشکیل دیا گیا تھا۔ لیکن یہ صرف ایک مذہبی تحریک نہیں تھی
بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی بھی تھی۔ اکبر چاہتا تھا کہ ہندوؤں، جینوں، سکھوں اور
دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے ساتھ جوڑے تاکہ اپنی حکومت کو مستحکم بنائے۔ لیکن
یہ تحریک ناکام رہی کیونکہ اس کی بنیاد مذہبی تعصب کی بجائے سیاسی ضرورت پر تھی۔
دوسرے، اکبر کی فوج میں
شامل ہونے والے ہندو سرداروں کے بارے میں بھی کم ہی بات کی جاتی ہے۔ درحقیقت، اکبر
نے ہندو راجپوتوں کو اپنی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔ منصور خان، بھگوان
داس، اورراجہ من سنگھ جیسے ہندو
جرنیلوں نے مغل فوج کی کمان سنبھالی اور بہت سی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ
ایک ایسی حکمت عملی تھی جس کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اتحاد قائم کرنا
تھا۔
تیسرے، اکبر کی ذاتی
زندگی میں اس کی بیویوں کا کردار بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جوداا بائی، جسے عام طور پر
اکبر کی پسندیدہ بیوی سمجھا جاتا ہے، درحقیقت ایک سیاسی شادی کا حصہ تھیں۔ لیکن اس
کے علاوہ، اکبر کی دیگر بیویاں جیسے سلیمہ سلطان بیگم اور سالیما سلطان بیگم بھی
اہم سیاسی اور ثقافتی کردار ادا کرتی تھیں۔ سلیمہ سلطان بیگم نے اکبر کے دور میں
تعلیمی اور ثقافتی اداروں کی سرپرستی کی اور خواتین کی تعلیم کو فروغ دیا۔
جہانگیر کا دور شراب، ادویات اور سیاسی کشمکش
جہانگیر، جو اکبر کا بیٹا
تھا، اپنے دور حکومت میں شراب اور ادویات کے استعمال کے لیے مشہور تھا۔ لیکن اس کے
پیچھے چھپا ہوا حقیقت یہ ہے کہ جہانگیر نفسیاتی طور پر ایک بیمار شخص تھا۔ اس کی
ماں مریم الزمانی کی وفات نے اس پر گہرا اثر ڈالا اور وہ اپنے غم کو شراب اور
ادویات کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتا تھا۔
اس کے علاوہ، جہانگیر کی
بیوی نور جہاں کا کردار بھی اکثر غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ عام طور پر اسے
ایک طاقتور خاتون کے طور پر دکھایا جاتا ہے جس نے جہانگیر کو اپنی مرضی کے مطابق
چلایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نور جہاں ایک باصلاحیت انتظامیہ اور سفارت کار تھیں۔
انہوں نے مغل دربار میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا اور تجارتی پالیسیوں میں
اہم کردار ادا کیا۔ ان کی وجہ سے مغل سلطنت کا تجارتی رابطہ فارس، عرب اور یورپ سے
مضبوط ہوا۔
جہانگیر کے دور میں مغل
فوج کے اندر موجود اختلافات بھی تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتے۔ درحقیقت، جہانگیر
کے دور میں فوجی افسران کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ مسلم
فوجی افسران ہندو افسران کے خلاف تھے اور اس کی وجہ سے فوجی محاذ پر کمزوری پیدا
ہوئی۔
شاہجہاں کا دورتعمیرات کے پیچھے چھپا ہوا استحصال
شاہجہاں کا دور مغل
تعمیرات کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ تاج محل، لال قلعہ، جامع مسجد جیسی عظیم الشان
عمارتیں اسی دور میں تعمیر ہوئیں۔ لیکن ان تعمیرات کے پیچھے چھپا ہوا استحصال عام
تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔
تاج محل کی تعمیر میں
لاکھوں مزدوروں نے کام کیا۔ ان میں سے بہت سے مزدور غربت کی وجہ سے مجبوراً کام
کرنے پر مجبور تھے۔ انہیں بہت کم تنخواہ دی جاتی تھی اور کام کے حالات بہت خراب
تھے۔ کئی مزدور تعمیراتی حادثات میں ہلاک ہو گئے، لیکن ان کے بارے میں کوئی ریکارڈ
نہیں رکھا گیا۔
اس کے علاوہ، شاہجہاں نے
اپنے دور حکومت میں عوامی خزانے سے بہت زیادہ رقم تعمیرات پر خرچ کی۔ اس کی وجہ سے
عوامی خدمات جیسے سڑکیں، کنویں، اسپتالوں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے
نتیجے میں عام عوام کی زندگی کی معیار میں کمی واقع ہوئی۔
شاہجہاں کی بیوی ممتاز
محل کے بارے میں بھی کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ
شاہجہاں نے تاج محل صرف اپنی بیوی کی یاد میں بنوایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاج محل
ایک سیاسی علامت بھی تھا۔ شاہجہاں چاہتا تھا کہ اس کی حکومت کی عظمت کو دنیا بھر
میں ظاہر کرے۔ تاج محل اس کی طاقت اور دولت کی علامت تھا۔
اورنگزیب کا دور مذہبی پالیسیوں کے پیچھے چھپے مقاصد
اورنگزیب، جو شاہجہاں کا
بیٹا تھا، اپنے دور حکومت میں مذہبی سخت گیری کے لیے مشہور ہے۔ اس نے ہندو مندروں
کو توڑا، جزیہ دوبارہ نافذ کیا اور مذہبی اقلیتوں پر پابندیاں عائد کیں۔ لیکن اس
کے پیچھے چھپے ہوئے مقاصد عام تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتے۔
سب سے پہلے، اورنگزیب کی
مذہبی پالیسیاں صرف مذہبی تعصب کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی کا
حصہ تھیں۔ اورنگزیب چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ جوڑے اور اپنی حکومت کو
مستحکم بنائے۔ اس کے لیے اس نے سنی علماء کی حمایت حاصل کی اور ان کی مرضی کے مطابق
پالیسیاں بنائیں۔
دوسرے، اورنگزیب کی فوج
میں شامل ہونے والے ہندو سپاہیوں کے بارے میں بھی کم ہی بات کی جاتی ہے۔ درحقیقت،
اورنگزیب کی فوج میں تقریباً ستر فیصد ہندو سپاہی شامل تھے۔ اس نے ہندو راجپوتوں
کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا اور ان کی مدد سے جنوبی ہندوستان کی فتوحات کیں۔
تیسرے، اورنگزیب کی ذاتی
زندگی میں اس کی بیویوں اور بچوں کا کردار بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس کی بیوی
اور بچے اکثر اس کی مذہبی پالیسیوں سے متفق نہیں تھے۔ اس کا بیٹا اکبر، جو بعد میں
بغاوت کر کے دکن چلا گیا، اس کی مذہبی پالیسیوں کا مخالف تھا۔
سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے پوشیدہ وجوہات
سلطنتِ مغلیہ کا زوال صرف
اورنگزیب کی مذہبی پالیسیوں یا بیرونی حملوں کی وجہ سے نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے کئی
پوشیدہ وجوہات تھیں جو تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتیں۔
سب سے پہلے، مغل حکومت کے
اندر موجود انتظامی بدعنوانی۔ مغل دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران اکثر رشوت
لیتے تھے اور عوامی خزانے کو لوٹتے تھے۔ اس کی وجہ سے حکومتی نظام کمزور ہوتا گیا۔
دوسرے، مغل فوج کی
کمزوری۔ مغل فوج میں جدید ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا اور فوجی تربیت کا
معیار کم ہوتا گیا۔ اس کی وجہ سے مغل فوج بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے میں
ناکام رہی۔
تیسرے، مغل حکمرانوں کے
درمیان خاندانی جھگڑے۔ ہر نئے بادشاہ کے عروج پر پرانے بادشاہ کے بیٹوں کے درمیان
جنگیں ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ سے سلطنت کمزور ہوتی گئی۔
چوتھے، عوامی بغاوتیں۔
مغل حکومت کے خلاف کسانوں، دستکاروں اور دیگر طبقوں کی بغاوتیں بھی سلطنت کے زوال
کی وجہ بنیں۔
نقاطِ توجہ
1. بابر کی ذاتی زندگی اور اس کے جذباتی کرب
تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتے۔
2. ہمایوں کی جلاوطنی کے دوران اس کی روحانی
تبدیلی اور حمیدہ بانو بیگم کا کردار نظر انداز کیا گیا۔
3. اکبر کی “دینِ الٰہی” صرف ایک مذہبی تحریک
نہیں بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی تھی۔
4. جہانگیر نفسیاتی طور پر بیمار تھا اور نور
جہاں ایک باصلاحیت سیاستدان تھیں۔
5. شاہجہاں کی تعمیرات کے پیچھے عوامی استحصال
تھا۔
6. اورنگزیب کی مذہبی پالیسیاں صرف مذہبی تعصب
کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھیں۔
7. مغل فوج میں ہندو سپاہیوں کی بڑی تعداد
شامل تھی۔
8. مغل دربار میں بدعنوانی، فوجی کمزوری اور
خاندانی جھگڑے سلطنت کے زوال کی اہم وجوہات تھے۔
9. عوامی بغاوتیں بھی سلطنت کے زوال میں کردار
ادا کرتی تھیں۔
10.
مغل
بیویوں اور خواتین کا کردار تاریخ میں نظر انداز کیا گیا۔
سلطنتِ مغلیہ کا مطالعہ
صرف جنگوں، فتوحات اور تعمیرات تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے پیچھے چھپے ہوئے
راز، ذاتی کہانیاں، نفسیاتی کشمکش، سیاسی حکمت عملیاں اور عوامی استحصال کے پہلو
بھی سامنے لانے چاہئیں۔ تاریخ کی کتابیں اکثر حکمرانوں کی عظمت کو ظاہر کرنے پر
مرکوز ہوتی ہیں، لیکن حقیقت میں تاریخ کا مطالعہ انسانی کمزوریوں، نفسیاتی الجھنوں
اور سماجی استحصال کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سلطنتِ مغلیہ کے وہ راز جو تاریخ کی
کتابوں میں نہیں ملتے، درحقیقت تاریخ کو مکمل اور متوازن بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
تاریخ صرف واقعات کا
ریکارڈ نہیں ہے بلکہ انسانی تجربات، جذبات اور کشمکش کا مرقع بھی ہے۔ اگر ہم
سلطنتِ مغلیہ کے ان پوشیدہ پہلوؤں کو سمجھیں گے تو ہم تاریخ کو ایک نئے زاویے سے
دیکھ پائیں گے۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔