دنیا تیزی سے تبدیل ہو
رہی ہے۔ جہاں ایک طرف نئی ٹیکنالوجیاں انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لیے آ رہی
ہیں، وہیں دوسری طرف ممالک اپنی معیشت، تعلیم، صحت اور دفاعی نظام کو جدید خطوط پر
استوار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس دوڑ میں جو قومیں پیچھے رہ جاتی ہیں،
انہیں مستقبل میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سوال
انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا وہ ٹیکنالوجی کی عالمی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا؟
آج ہم اس موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے، جس میں پاکستان کی موجودہ صورتحال،
چیلنجز، مواقع، اور مستقبل کے لیے ضروری اقدامات شامل ہوں گے۔
پاکستان کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں موجودہ صورتحال
پاکستان میں ٹیکنالوجی کا
شعبہ گزشتہ دو دہائیوں میں خاصا ترقی کر چکا ہے۔ موبائل فون کی فروغ، انٹرنیٹ کی
رسائی میں اضافہ، فری لانسنگ کے ذریعے بیرون ملک آمدنی، اور مقامی سطح پر سافٹ
ویئر ڈویلپمنٹ کے منصوبوں نے ملک کو عالمی ٹیک مارکیٹ میں ایک مخصوص مقام دلایا
ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے شہروں میں ٹیک اسٹارٹ اپس کی
تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کچھ اسٹارٹ اپس تو ایسے ہیں جنہوں نے بین الاقوامی سرمایہ
کاروں کی توجہ حاصل کی ہے اور کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ حاصل کی ہے۔
تاہم، اس تمام ترقی کے
باوجود پاکستان کا عالمی ٹیکنالوجی انڈیکس میں مقام اب بھی نہایت کمزور ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان
ٹیکنالوجی کے استعمال اور ایجاد کے لحاظ سے دنیا کے آخری درجے کے ممالک میں شامل
ہے۔ ہمارے پاس تحقیق و ترقی کے لیے مختص بجٹ بہت کم ہے، جبکہ
یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو جدید ترین سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس کے
علاوہ، ٹیکنالوجی کے شعبے میں کیریئر بنانے والے نوجوانوں کو ملک میں مناسب مواقع
نہیں ملتے، جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کے اسباب
پاکستان کے ٹیکنالوجی کے
شعبے میں پیچھے رہنے کے متعدد اسباب ہیں۔ یہ اسباب صرف معاشی نوعیت کے نہیں بلکہ
تعلیمی، سماجی اور سیاسی نوعیت کے بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم وجوہات درج ذیل ہیں۔
تعلیمی نظام کی کمزوری
پاکستان کا تعلیمی نظام
قدیم اور غیر موثر ہے۔ اسکولوں اور کالجز میں ٹیکنالوجی کی بنیادی تعلیم کا فقدان
ہے۔ طلباء کو عملی مہارت کی بجائے نظری تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً
جب یہ طلباء یونیورسٹیوں میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے پاس ٹیکنالوجی کے بارے میں
بنیادی معلومات تک نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ، ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعلیم حاصل
کرنے والے طلباء کو بھی جدید ترین سہولیات اور لیبارٹریز تک رسائی نہیں ہوتی، جس
کی وجہ سے وہ بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے۔
تحقیق و ترقی کے لیے وسائل کی کمی
ٹیکنالوجی کی دنیا میں
تحقیق و ترقی کا کردار انتہائی اہم ہے۔ جو ممالک تحقیق پر زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں،
وہی دنیا کی ترقی یافتہ قومیں ہیں۔ پاکستان میں تحقیق و ترقی پر خرچ کی جانے والی
رقم جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب
تین سے پانچ فیصد تک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے سائنسدان اور انجینئرز نئی
ٹیکنالوجیاں ایجاد نہیں کر پاتے، بلکہ دوسروں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی کا استعمال
کرتے ہیں۔
سرمایہ کاری کی کمی
ٹیکنالوجی کے شعبے میں
ترقی کے لیے سرمایہ کاری نہایت ضروری ہے۔ پاکستان میں مقامی سرمایہ کار ٹیک اسٹارٹ
اپس میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ شعبہ خطرے سے
خالی نہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی،
اور قانونی نظام کی کمزوری کی وجہ سے سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔ نتیجتاً ٹیک
اسٹارٹ اپس کو فنڈنگ حاصل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ اپنے منصوبوں کو آگے نہیں
بڑھا پاتے۔
بازار کی محدود حیثیت
پاکستان میں ٹیکنالوجی کی
مصنوعات اور خدمات کے لیے بازار محدود ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی
کی مصنوعات خریدنے کی معاشی استطاعت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ، ٹیکنالوجی کے استعمال
کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ جیسے بجلی، انٹرنیٹ، اور ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام بھی
کمزور ہیں۔ جب تک یہ بنیادی ڈھانچہ بہتر نہیں ہوگا، تب تک ٹیکنالوجی کی مصنوعات کا
وسیع پیمانے پر استعمال ممکن نہیں ہو سکتا۔
برین ڈرین
پاکستان میں ٹیکنالوجی کے
شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والے بہترین دماغ بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان کی یہ
برین ڈرین ملک کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ ان نوجوانوں کو بیرون ملک بہتر مواقع،
اعلیٰ تنخواہیں، اور جدید ترین تحقیقی ماحول ملتا ہے، جبکہ پاکستان میں انہیں اپنی
صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع نہیں ملتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں
ٹیکنالوجی کے شعبے میں قیادت کرنے والے افراد کی کمی ہو جاتی ہے۔
ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے مواقع
اگرچہ پاکستان کو متعدد
چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن اس کے پاس مواقع بھی موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ
ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ ان مواقع میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
نوجوان آبادی
پاکستان کی آبادی کا ایک
بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان تیزی سے سیکھ سکتے ہیں، نئی ٹیکنالوجیاں
اپنا سکتے ہیں، اور جدت طرازی کے ذریعے نئے حل پیش کر سکتے ہیں۔ اگر ان نوجوانوں
کو صحیح تربیت، مواقع، اور حوصلہ افزائی فراہم کی جائے تو وہ ملک کو ٹیکنالوجی کے
شعبے میں ایک نئی بلندی تک لے جا سکتے ہیں۔
فری لانسنگ کا بڑھتا ہوا رجحان
پاکستان میں فری لانسنگ
کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہزاروں نوجوان مختلف پلیٹ فارمز جیسے اپ ورک،
فائیور، اور فری لانسر ڈاٹ کام کے ذریعے بین الاقوامی کلائنٹس کے لیے کام کر رہے
ہیں۔ اس سے نہ صرف انفرادی سطح پر آمدنی ہو رہی ہے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی فائدہ
پہنچ رہا ہے۔ اگر حکومت اس شعبے کو مزید فروغ دے تو یہ پاکستان کی ٹیکنالوجی
برآمدات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
مقامی مسائل کے لیے مقامی حل
پاکستان میں بہت سے ایسے
مسائل ہیں جن کا تعلق مقامی حالات سے ہے، جیسے کہ زراعت، صحت، تعلیم، اور پینے کے
پانی کی فراہمی۔ ان مسائل کے لیے مقامی ٹیک اسٹارٹ اپس نے کچھ کامیاب حل پیش کیے
ہیں۔ اگر ان اسٹارٹ اپس کو مدد ملے تو وہ نہ صرف مقامی سطح پر کامیاب ہو سکتے ہیں
بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔
عالمی تعاون کے مواقع
دنیا بھر کے ممالک اور
بین الاقوامی ادارے پاکستان کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون فراہم کرنے کے لیے
تیار ہیں۔ چین، جنوبی کوریا، ملائیشیا، اور ترکی جیسے ممالک نے پاکستان کے ساتھ
ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کے معاہدے کیے ہیں۔ اگر پاکستان ان مواقع کو بروئے کار
لائے تو وہ تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔
مستقبل کے لیے ضروری اقدامات
اگر پاکستان ٹیکنالوجی کی
دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا تو اسے کچھ اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ اقدامات
صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ تعلیمی اداروں، نجی شعبے، اور عام شہریوں کی بھی
ذمہ داری ہے۔
تعلیمی نظام میں اصلاحات
سب سے پہلے پاکستان کو
اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اسکولوں میں ٹیکنالوجی کی
بنیادی تعلیم لازمی ہونی چاہیے۔ طلباء کو عملی مہارت سکھانے پر زیادہ زور دیا جانا
چاہیے۔ یونیورسٹیوں کو جدید ترین سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں، اور تحقیق و ترقی
کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جانے چاہئیں۔
تحقیق و ترقی پر خرچ میں اضافہ
حکومت کو تحقیق و ترقی پر
خرچ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم تین فیصد تحقیق و ترقی
کے لیے مختص کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، نجی شعبے کو بھی تحقیقی منصوبوں میں حصہ
لینے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ٹیک اسٹارٹ اپس کی حمایت
حکومت کو ٹیک اسٹارٹ اپس
کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس کے لیے خصوصی فنڈز قائم کیے جانے چاہئیں، جن سے اسٹارٹ
اپس کو فنڈنگ فراہم کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، ٹیک اسٹارٹ اپس کے لیے قرضوں پر
سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ، اور قانونی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
بنیادی ڈھانچے کی تعمیر
ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے
بنیادی ڈھانچہ نہایت ضروری ہے۔ حکومت کو بجلی، انٹرنیٹ، اور ڈیجیٹل ادائیگی کے
نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی
فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔
برین ڈرین کو روکنا
برین ڈرین کو روکنے کے
لیے ملک میں کیریئر کے مواقع بڑھانے ہوں گے۔ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے
کار لانے کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، بیرون ملک مقیم
پاکستانی ماہرین کو ملک واپس لانے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے جانے چاہئیں۔
عالمی سطح پر تعاون
حکومت کو عالمی سطح پر
تعاون بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ تحقیقی منصوبے شروع
کیے جانے چاہئیں۔ بین الاقوامی کانفرنسز اور میلے منعقد کیے جانے چاہئیں، جہاں
پاکستانی ٹیک کمپنیاں اپنی مصنوعات کا مظاہرہ کر سکیں۔
نوجوانوں کی حوصلہ افزائی
آخر میں، نوجوانوں کو
ٹیکنالوجی کے شعبے میں کیریئر بنانے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس کے لیے
اسکولوں اور کالجز میں کیریئر کونسلنگ کے سیشن منعقد کیے جانے چاہئیں۔ ٹیک مقابلے
اور ہیکا تھانز کا انعقاد کیا جانا چاہیے، جہاں نوجوان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر
سکیں۔
پاکستان کا مستقبل ٹیکنالوجی میں
پاکستان کے پاس ٹیکنالوجی
کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے تمام وسائل موجود ہیں۔ اس کی نوجوان آبادی، تخلیقی
صلاحیتیں، اور جدت طرازی کی صلاحیت اسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر لانے کے
لیے کافی ہیں۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، تعلیمی ادارے، نجی شعبہ، اور
عام شہری مل کر کام کریں۔ اگر ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا، اپنے مواقع کو
بروئے کار لایا، اور مستقبل کے لیے درست فیصلے کیے تو پاکستان ٹیکنالوجی کی دوڑ
میں نہ صرف پیچھے نہیں رہے گا بلکہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں اپنا مقام بنا
سکے گا۔
یاد رکھیں
1. پاکستان میں ٹیکنالوجی کا شعبہ گزشتہ برسوں
میں ترقی کر چکا ہے لیکن عالمی معیار کے مقابلے میں اب بھی پیچھے ہے۔
2. تعلیمی نظام کی کمزوری، تحقیق و ترقی پر کم
خرچ، سرمایہ کاری کی کمی، اور برین ڈرین ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کی اہم
وجوہات ہیں۔
3. نوجوان آبادی، فری لانسنگ کا بڑھتا رجحان،
اور مقامی مسائل کے لیے مقامی حل پاکستان کے لیے مواقع ہیں۔
4. تعلیمی اصلاحات، تحقیق و ترقی پر خرچ میں
اضافہ، ٹیک اسٹارٹ اپس کی حمایت، اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر مستقبل کے لیے ضروری
اقدامات ہیں۔
5. برین ڈرین کو روکنے اور نوجوانوں کی حوصلہ
افزائی کے لیے خصوصی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔
6. پاکستان کے پاس ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے
تمام وسائل موجود ہیں، بس درکار ہے محنت، عزم، اور درست پالیسیاں۔
اگر ہم نے آج سے ہی درست
اقدامات کیے تو کل ہمارا ملک ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک اہم کھلاڑی بن سکتا ہے۔
ہمیں اپنے نوجوانوں پر بھروسہ کرنا ہوگا، انہیں مواقع فراہم کرنے ہوں گے، اور ان
کی صلاحیتوں کو نکھارنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہنا ہماری ناکامی نہیں
بلکہ ہماری ذمہ داریوں سے غفلت ہوگی۔ لیکن اگر ہم نے ابھی سے کام شروع کر دیا تو
مستقبل ہمارا ہوگا۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔