سیلاب زدہ پاکستان اورحکومتی حکمت عملیوں کا جائزہ

0





پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو پچھلے اٹھہتر سالوں سے قدرتی آفات  کے نام سے بری طرح متاثر ہوتا رہا ہے، اور سیلاب ان میں سے ایک بڑی آفت ہے جو ہمیں ہر دو یا آڑھائی سال بعد ہمیں اپنا جلوہ دکھاتا ہےاور ہم خوشی مناتے ہیں کیونکہ امداد کے نام پر جو کچھ ہمیں دوسرے ممالک سے ملتا ہے وہ ہمارے کاروبار کی ترقی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یوں یہ سیلاب غریبوں کے لئے آفت اور امیروں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے۔ 2025 میں پاکستان کو ایک بار پھر شدید سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان سیلابوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، جس میں جانی نقصان، املاک کا نقصان، زرعی اراضی کی تباہی، اور انفراسٹرکچر کی بربادی شامل تھی۔ آج  ہم 2025 کے سیلابوں کے اثرات، حکومتی اقدامات، ان اقدامات کی کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔

 2025 کے سیلابوں کا پس منظر

پاکستان میں مون سون کے موسم میں بارشیں معمول کی بات ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان بارشوں کی شدت اور بے قاعدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2025 میں بھی معمول سے زیادہ شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس نے دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح کو خطرناک حد تک بڑھا دیا۔ دریائے سندھ، دریائے چناب، دریائے راوی، اور دریائے سوات میں پانی کا بہاؤ بے قابو ہو گیا، جس کے نتیجے میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے کئی علاقے زیر آب آ گئے۔

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں

پنجاب، جو پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا اور زرعی لحاظ سے اہم صوبہ ہے، 2025 کے سیلابوں سے بری طرح متاثر ہوا۔ لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے شہروں کے مضافاتی علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ ہزاروں گھر تباہ ہو گئے، اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ سیلابی پانی نے کھڑی فصلوں کو بھی تباہ کر دیا، جس سے کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ سڑکیں، پل اور مواصلاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوئے، جس سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آئیں۔ پنجاب میں جانی نقصان بھی ہوا۔ کئی افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے، اور کچھ بچے بھی پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے گئے، لیکن پانی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ہر جگہ تک رسائی ممکن نہیں تھی۔

خیبرپختونخواہ میں سیلاب کی تباہ کاریاں

خیبرپختونخواہ، جو پہاڑی اور دشوار گزار علاقہ ہے، 2025 کے سیلابوں سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا۔ سوات، دیر، چترال، اور پشاور کے اضلاع میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی۔ دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی کے باعث بہت سے پل بہہ گئے اور سڑکیں تباہ ہو گئیں۔ اس سے دور دراز علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا، اور امدادی سامان کی ترسیل مشکل ہو گئی۔ خیبرپختونخواہ میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی پیش آئے، جس سے کئی گاؤں مٹی کے تودوں تلے دب گئے۔ سیلابی ریلوں نے گھروں، سکولوں، اور صحت کے مراکز کو شدید نقصان پہنچایا۔ سیاحتی مقامات بھی متاثر ہوئے، جس سے صوبے کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بہت سے خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، اور ان کی زندگیاں درہم برہم ہو گئیں۔

حکومتی اقدامات

سیلابوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے۔ یہ اقدامات تین اہم شعبوں میں کیے گئے: فوری امداد، بحالی، اور طویل مدتی منصوبہ بندی۔

فوری امداد اور ریسکیو آپریشنز

سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کو بچانے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے پاکستان آرمی، سول ڈیفنس، اور این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) نے مشترکہ ریسکیو آپریشنز کا آغاز کیا۔ ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کا استعمال کیا گیا تاکہ ان علاقوں تک رسائی حاصل کی جا سکے جہاں زمینی راستہ منقطع تھا۔ متاثرین کو خوراک، پینے کا صاف پانی، ادویات، اور خیمے فراہم کیے گئے۔ عارضی کیمپ قائم کیے گئے جہاں بے گھر افراد کو پناہ دی گئی اور انہیں طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے بھی امداد کی اپیل کی، جس پر کئی ممالک اور عالمی تنظیموں نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔

بحالی اور تعمیر نو

ابتدائی امدادی کارروائیوں کے بعد، حکومت نے بحالی اور تعمیر نو کے منصوبوں کا آغاز کیا۔ تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو کے لیے مالی امداد فراہم کی گئی، اور کسانوں کو فصلوں کے نقصان کا معاوضہ دیا گیا۔ سڑکوں، پلوں، اور مواصلاتی نظام کی مرمت کا کام تیزی سے شروع کیا گیا تاکہ متاثرہ علاقوں کا رابطہ دوبارہ بحال ہو سکے۔ حکومت نے صحت کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی، کیونکہ سیلاب کے بعد بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ موبائل میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے اور ویکسینیشن مہم چلائی گئی۔

 

طویل مدتی منصوبہ بندی

سیلابوں کے مستقل حل کے لیے حکومت نے طویل مدتی منصوبہ بندی پر کوئی کام سنجیدگی سے شروع  نہیں کیا۔  اگر ایک حکومت سوچنے لگتی ہے تو دوسری کام رکوا دیتی ہے۔ اور یوں اٹھہتر سالوں میں کھیل مذاق چلتا آرہا ہے۔ پانی آتا ہے تباہی مچا کہ چلاجاتا ہے اور ہم اس کو ضائع کردیتے ہیں۔ ملک سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے اور ہمارے اشرافیہ کشکول لے کر کبھی چائنہ تو کبھی قطر تو کبھی جاپان جاتے ہیں ، سیلاب بھی کتنا سمجھ دار ہے اشرافیہ کی ملوں ، فیکڑیوں اور جائیدادوں کو کچھ نقصان نہیں دیتا ہے ۔

صرف غریبوں کا ستیا ناس کرنے آتا ہے۔ ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر و مرمت، دریاؤں کے کنارے حفاظتی پشتے بنانا، اور جنگلات کا فروغ  دینے کے لئے جو فنڈز رکھے جاتے ہیں وہ اپنی ضرورتوں کے پیش نظر استعمال ہوتے ہیں تھوڑا سا بھی ان پر استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ ان فنڈز سے مزید اشرافیہ کے لئے گاڑیاں منگوائی جاتی ہیں تاکہ وہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر سکیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ہماری حکومت بدمست ہاتھی کی طرح ماحولیاتی پالیسیوں پر نظرثانی کرتی ہے اور ٹک ٹاک بنوا کر زور شور کا نعرہ لگاتے اور چلے جاتے ہیں ۔ کچھ حکومتی نمائندے بریانی کی بوٹیوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

 

حکومتی اقدامات کی کارکردگی

حکومتی اقدامات کی کارکردگی سراپا تنقید  ہے کیونکہ حکومتی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ محض ٹک ٹاک بنوانے کے لئے اپنے ہی لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے انہی کے ساتھ کلپ بنوائے جاتے ہیں اور ان کے جاتے ہی سارا کچھ گول کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آٹے کا تھیلا دے کر تصویر بنوائی جاتی ہے اور تصاویر لے کر واپس تھیلا لے کر گاڑی میں رکھ کر سارا عملا واپس چلا جاتا ہے، یہ ساری سرکس مخص ایک ٹک ٹاک کے لئے لگائی جاتی ہے۔ اور تو اور راشن کا تھیلا دیتے وقت یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ آپ کس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

 

یہ ڈرامہ ہمیشہ سے چلتا ہوا آرہا ہے کہ  سیلاب کی پیشگی اطلاع اور اس سے نمٹنے کے لیے تیاریاں  درکارتھیں چونکہ فنڈز ہم اپنے ذاتی خواہشات کی تکمیل میں اُڑا دیتے ہیں ۔ اگرچہ محکمہ موسمیات نے بارشوں کی پیش گوئی کی تھی، لیکن اس کی شدت کا اندازہ لگانے میں مشکلات پیش آئیں کیونکہ یہ سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ حالات کیا ہونے جارہے ہیں ہمارے ملک کا ہر شہر آئینے کی طرح واضح ہے کہ حالات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ حفاظتی پشتے اور ڈیم غریبوں کی بستیوں والی جگہوں پر کمزور ثابت ہوئے، جس کے نتیجے میں پانی آبادی میں داخل ہو گیا۔جبکہ ملوں، فیکٹریوں اور باغات کو بچانے کے لئے مضبوط ثابت ہوئے تو پھر یہ  قدرتی آفت کہاں سے ہوئی ۔

بدعنوانی اور شفافیت کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ رہی۔ سعوی عرب سے پہنچنے والی امداد میں سولر پلیٹس بھی شامل بھی جو حقداروں تک کبھی پہنچی ہی نہیں ۔متاثرین تک پہنچنے والی امداد ہمیشہ ہی  بدعنوانی کی نذر ہو جاتی ہے، اور حقیقی حقدار اس سے محروم رہ گئے۔

جب حکومت من چاہی نہ ہو تو حالات اس سے بھی بدتر  ہوتے جائیں گے۔لوگوں کے دلوں سے نکلی بددعائیں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔  انشاءاللہ

ان اٹھہتر سالوں سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہم نے کیا سیکھا اور کیا کرنا چاہیے

1.   ناقص انفراسٹرکچر کی خامی: ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ہمارے ڈیمز، بیراجز اور حفاظتی پشتے اکثر سیلاب کی شدید صورتحال کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ کئی جگہوں پر پرانے اور غیر معیاری انفراسٹرکچر کی وجہ سے نقصان بڑھ جاتا ہے۔

2.   ارلی وارننگ سسٹم کی اہمیت: سیلاب کی پیشگی اطلاع کا ایک مؤثر اور جدید نظام انتہائی ضروری ہے۔ بروقت اطلاع نہ ہونے سے جانی و مالی نقصان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا موقع نہیں ملتا۔

3.   قدرتی آبی گزرگاہوں کی بحالی: بہت سے علاقوں میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات نے قدرتی آبی گزرگاہوں اور نالوں کو بند کر دیا ہے، جس سے پانی کو راستہ نہیں ملتا اور وہ آبادی میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہم نے سیکھا کہ انہیں بحال کرنا ضروری ہے۔

4.    شہری منصوبہ بندی میں نقصانات: شہروں اوردیہاتوں کی منصوبہ بندی میں سیلاب کے خطرے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہم نے سیکھا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرات پر پابندی اور محفوظ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

5.   جنگلات کی کٹائی کے اثرات: جنگلات کی بے تحاشا کٹائی نے مٹی کے کٹاؤ کو بڑھا دیا ہے اور زمین کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔ یہ سیلابوں کی شدت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

6.   ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں بہتری کی گنجائش: ابتدائی امدادی کارروائیوں میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔ وسائل کی کمی، کوآرڈینیشن کا فقدان اور دور دراز علاقوں تک رسائی کا مسئلہ ہمیشہ درپیش رہا ہے۔

7.   صحت کے مسائل کا چیلنج: سیلاب کے بعد پھیلنے والی بیماریوں جیسے ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ طبی سہولیات کی بروقت فراہمی اور وبائی امراض کی روک تھام سیکھا ہے۔

8.   مالی امداد کا غیر مؤثر استعمال: سیلاب متاثرین کے لیے جمع ہونے والی مالی امداد کے استعمال میں شفافیت کا فقدان اور بدعنوانی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ یہ سیکھا کہ احتساب اور شفافیت ضروری ہے۔

9.   پانی کے ذخائر کی کمی: ملک میں پانی کے ذخائر (ڈیمز) کی کمی سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہے۔ یہ نہ صرف سیلاب کا باعث بنتا ہے بلکہ پانی کی قلت کا بھی ایک سبب ہے۔

10.                 عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات: ہم نے سیکھا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کی شدت اور بے قاعدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے سیلاب زیادہ تباہ کن ہو گئے ہیں۔ اس کے لیے طویل مدتی حکمت عملی ضروری ہے۔

11.                 مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانا: سیلاب سے نمٹنے میں مقامی کمیونٹیز کی شمولیت اور انہیں تربیت دینا انتہائی اہم ہے۔ وہ سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور ان کا ردعمل بہت قیمتی ہوتا ہے۔

12.                 تعمیر نو میں پائیدار حل: سیلاب سے تباہ شدہ علاقوں کی دوبارہ تعمیر میں ایسے پائیدار اور ماحول دوست حل اپنانے کی ضرورت ہے جو مستقبل کے سیلابوں کا مقابلہ کر سکیں۔

13.                 زراعت کو پہنچنے والے نقصانات: سیلاب کی وجہ سے زرعی اراضی اور کھڑی فصلوں کو ہونے والا نقصان ملکی معیشت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ کسانوں کی مدد اور زرعی انشورنس جیسے اقدامات ضروری ہیں۔

14.                 سیاسی عزم اور مستقل پالیسیاں: سیلاب سے نمٹنے کے لیے مضبوط سیاسی عزم اور طویل المدتی، مستقل پالیسیاں ناگزیر ہیں۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پالیسیوں کا بدلنا نقصان دہ ہوتا ہے۔

15.                 معاشرتی ہمدردی اور باہمی تعاون: مشکل کی گھڑی میں پاکستانی قوم نے ہمیشہ غیر معمولی ہمدردی اور باہمی تعاون کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ایک مثبت پہلو ہے جو ہر سیلاب کے بعد نمایاں ہوتا ہے اور قوم کو جوڑے رکھتا ہے۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !