پاکستان کا موسمیاتی سفرتباہی سے پائیداری تک

0



 

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں، ملک کو غیر معمولی گرمی کی لہروں، شدید بارشوں، سیلابوں اور خشک سالی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف ملک کی معیشت پر منفی اثر ڈال رہی ہیں بلکہ انسانی زندگیوں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے حالیہ چیلنجز، ان کے اسباب، اور ممکنہ حل پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔

 

موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات

پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ملک کی جغرافیائی پوزیشن اور کمزور بنیادی ڈھانچہ ہے۔ پاکستان کا شمالی علاقہ گلیشیئرز کا گھر ہے جو تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے دریائی نظام میں پانی کا بہاؤ غیر مستحکم ہو رہا ہے اور سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب، جنوبی اور مغربی علاقے خشک سالی اور صحرائی طوفانوں کا شکار ہیں جو زراعت اور پانی کی دستیابی کو متاثر کر رہے ہیں۔

 

شدید گرمی کی لہریں


پاکستان کو حالیہ برسوں میں غیر معمولی گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں جہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہ گرمی کی لہریں انسانی صحت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہیں، خاص طور پر مزدوروں، کسانوں، اور بزرگ افراد کے لیے۔ ان لہروں سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے، پانی کی قلت میں اضافہ ہوتا ہے، اور بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے، جس سے لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سنگین ہو جاتا ہے۔ شہروں میں ہیٹ اسٹروک کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اور دیہی علاقوں میں مویشیوں کی ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ شہری علاقوں میں اسفالٹ اور کنکریٹ کی سطحیں حرارت کو جذب کرتی ہیں، جسے "اربن ہیٹ آئی لینڈ" اثر کہتے ہیں، جو گرمی کی شدت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

 

سیلاب اور شدید بارشیں


پاکستان کو ہر  دو سے اڑھائی سال بعد مون سون کے موسم میں شدید بارشوں اور سیلابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2022 کے سیلاب کے بعد2025 جو آج کل پہلے شدید بارشوں اور پھر شدید ترین سیلاب سے دوچار ہے جس نے پورے ملک کو متاثر کیا، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا، اور کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ یہ سیلاب نہ صرف کھیتوں اور فصلوں کو تباہ کرتے ہیں بلکہ گھروں، سڑکوں، پلوں، اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو بھی بہا لے جاتے ہیں۔اصل تکالیفیں تو سیلاب کے بعد شروع ہوتی ہیں ابھی تو لوگ صرف اپنی جان بچانے کے لئےاپنی مدد آپ کے تحت  ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں   اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں بیماریوں کا پھیلاؤ بھی بڑھ جاتا ہے، جیسے کہ ملیریا، ڈینگی، اور ہیضہ۔ پینے کے صاف پانی کی قلت اور نکاسی آب کے ناقص نظام بھی ان بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں، جہاں لوگ براہ راست زراعت پر انحصار کرتے ہیں، سیلاب ان کی روزی روٹی کا ذریعہ چھین لیتے ہیں، جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں 50 فیصد سے بھی زائد لوگ غربت کی لپیٹ میں آچکے ہیں کیونکہ اس سیلابی صورتحال سے نپٹنے کا کوئی حل پاکستان کے پاس موجود نہیں ہے۔ تمام فصلیں تباہ ہوچکی ہیں بالخصوص پنجاب پوری طرح تباہ ہوا ہے۔سیلاب سے بچ جانے والے افراد مہنگائی کے طوفان سے ضرور مر جائیں گے۔

 

خشک سالی اور پانی کی قلت

پاکستان کے کچھ علاقے، خاص طور پر بلوچستان اور تھر، طویل عرصے سے خشک سالی کا شکار ہیں۔ بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح گر گئی ہے، جس سے زراعت اور مویشی پالنے والے افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پانی کی قلت نہ صرف زرعی پیداوار کو کم کرتی ہے بلکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو بھی مشکل بنا دیتی ہے، جس سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تھر جیسے علاقوں میں جہاں لوگ بنیادی طور پر بارش کے پانی اور کنوؤں پر انحصار کرتے ہیں، خشک سالی کا مطلب قحط اور نقل مکانی ہے۔ عالمی موسمیاتی تبدیلی کے باعث دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ بھی غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے، جس سے ملک کی زرعی معیشت پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔

 

ماحولیاتی آلودگی اور فضائی معیار


پاکستان کے بڑے شہروں، خاص طور پر لاہور، کراچی، اور فیصل آباد، میں فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ فیکٹریوں، گاڑیوں، اور فصلوں کی باقیات جلانے سے نکلنے والا دھواں فضا کو آلودہ کرتا ہے، جس سے سانس کی بیماریاں، دل کے امراض، اور کینسر جیسے موذی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سردیوں میں سموگ کی صورتحال بدترین ہو جاتی ہے، جس سے بینائی متاثر ہوتی ہے اور ٹریفک حادثات بڑھ جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہوا میں معلق ذرات (PM2.5) کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے، جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

 

زراعت پر اثرات

پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث زراعت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گرمی کی لہریں، خشک سالی، سیلاب، اور غیر متوقع بارشیں فصلوں کی پیداوار کو متاثر کرتی ہیں۔ فصلوں کی کٹائی کے وقت غیر متوقع بارشیں نقصان کا باعث بنتی ہیں، اور گرمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی آتی ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے فصلوں کو پانی نہیں مل پاتا، اور زمینی پانی کی سطح میں کمی سے زرعی زمینوں کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے۔ کاشتکاروں کو نئی فصلوں کا انتخاب کرنے یا روایتی طریقوں میں تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے جو کہ ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

 

موسمیاتی تبدیلی کے اسباب

موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے، لیکن اس کے اسباب کو سمجھنا اور ان پر قابو پانا ضروری ہے۔


گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج


صنعتی سرگرمیاں، گاڑیوں کا دھواں، اور بجلی پیدا کرنے کے لیے جیواشم ایندھن (کوئلہ، تیل، گیس) کا استعمال گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا بڑا سبب ہے۔ یہ گیسیں زمین کے ماحول میں حرارت کو قید کر لیتی ہیں، جس سے عالمی درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ پاکستان میں توانائی کی زیادہ تر پیداوار جیواشم ایندھن پر منحصر ہے، اور صنعتوں میں ماحولیاتی معیارات کی عدم پیروی بھی اس مسئلے کو بڑھا رہی ہے۔

جنگلات کا کٹاؤ


جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے یہ قدرتی میکانزم کمزور پڑ گیا ہے۔ نئے جنگلات لگانے کے بجائے، existing جنگلات کو تعمیراتی مقاصد یا رہائشی کالونیوں کے لیے کاٹا جا رہا ہے، جس سے ماحول میں کاربن کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

پانی کا غیر محتاط استعمال


پاکستان میں پانی کا غیر محتاط استعمال، خاص طور پر زراعت میں، پانی کی قلت کا ایک بڑا سبب ہے۔ پرانے اور غیر موثر آبپاشی کے نظام، اور پانی کے ضیاع کی روک تھام کے لیے اقدامات کی کمی، پانی کی دستیابی کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں، جہاں پانی کی دستیابی غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے، پانی کا دانشمندانہ استعمال ضروری ہے۔

فوسل فیولز پر انحصار


پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے بڑی حد تک فوسل فیولز پر انحصار کرتا ہے۔ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس اور تیل پر مبنی گاڑیوں سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کو تیز کرتا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جیسے شمسی اور ہوا کی توانائی، کا استعمال بہت کم ہے۔

ممکنہ حل اور حکمت عملی

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔


قابل تجدید توانائی کا فروغ


فوسل فیولز پر انحصار کم کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا ضروری ہے۔ شمسی توانائی، ہوا کی توانائی، اور ہائیڈرو پاور منصوبوں میں سرمایہ کاری کر کے بجلی کی پیداوار کو ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں سرمایہ کاروں کو ترغیبات فراہم کرنی چاہیئں۔ اس سے نہ صرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی آئے گی بلکہ توانائی کی لاگت بھی کم ہو سکتی ہے۔

 

شجر کاری مہم


جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور نئے درخت لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری مہمات شروع کی جانی چاہیئں۔ "بلین ٹری سونامی" جیسے منصوبوں کو مزید مؤثر طریقے سے جاری رکھنا چاہیے، اور لوگوں کو درخت لگانے کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ درخت نہ صرف ماحول کو صاف رکھتے ہیں بلکہ سیلاب اور زمینی کٹاؤ کو روکنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

 

پانی کے وسائل کا مؤثر انتظام


پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے پانی کے وسائل کا مؤثر انتظام ضروری ہے۔ جدید آبپاشی کے طریقے، جیسے ڈرپ اریگیشن، کو فروغ دینا چاہیے، اور پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کے لیے پالیسیاں بنانی چاہیئں۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو پانی کے بچت کے طریقوں سے آگاہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

 

آفتوں سے نمٹنے کی تیاری


سیلاب اور گرمی کی لہروں جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاری ضروری ہے۔ ابتدائی انتباہی نظام کو بہتر بنانا چاہیے، اور لوگوں کو آفات سے نمٹنے کی تربیت دینی چاہیے۔ محفوظ پناہ گاہوں اور امدادی سامان کا انتظام بھی ضروری ہے تاکہ ہنگامی صورتحال میں متاثرین کی مدد کی جا سکے۔

 

موسمیاتی تبدیلی کے موافق زراعت


زراعت کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے موافق زرعی طریقوں کو اپنایا جا سکتا ہے۔ ایسی فصلوں کی کاشت کی جائے جو کم پانی میں بھی اچھی پیداوار دے سکیں، اور خشک سالی و گرمی کی شدت کو برداشت کر سکیں۔ کاشتکاروں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی اور آبپاشی کے طریقوں سے آگاہ کیا جائے۔

 

ماحولیاتی تعلیم اور آگاہی


عوام میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور ان سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تبدیلی کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے، اور میڈیا کے ذریعے آگاہی مہمات چلانی چاہیئں۔ جب لوگ مسئلے کی شدت کو سمجھیں گے تو وہ حل کا حصہ بنیں گے۔

 

بین الاقوامی تعاون


موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔ پاکستان کو عالمی فورمز پر اپنے کیس کو مضبوطی سے پیش کرنا چاہیے اور ترقی یافتہ ممالک سے مالی اور تکنیکی مدد حاصل کرنی چاہیے۔ موسمیاتی فنڈز تک رسائی حاصل کرنا اور مشترکہ منصوبوں میں حصہ لینا پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

 

شہری منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچہ


شہروں میں گرین سپیسز کو فروغ دینا، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا، اور توانائی کی بچت والی عمارتوں کی تعمیر کو یقینی بنانا شہری ماحول کو بہتر بنا سکتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے نکاسی آب کے نظام کو اپ گریڈ کرنا اور پانی کی نکاسی کے لیے نئے منصوبے شروع کرنا ضروری ہے۔ "گرین انفراسٹرکچر" پر توجہ دینا چاہیے، جس میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانا اور پانی کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنا شامل ہے۔

 

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے ایک سنگین اور بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف قدرتی ماحول پر پڑ رہے ہیں بلکہ انسانی زندگی، معیشت، اور معاشرتی ڈھانچے کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت، نجی شعبے، اور عام افراد کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔ قابل تجدید توانائی کا فروغ، شجر کاری، پانی کا مؤثر انتظام، اور ماحولیاتی تعلیم و آگاہی اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی اقدامات ہیں۔ اگر ہم نے ابھی عمل نہ کیا تو آنے والی نسلوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ پاکستان کو ایک پائیدار اور موسمیاتی تبدیلی کے موافق مستقبل کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ اپنے لوگوں اور قدرتی وسائل کو محفوظ رکھ سکے۔

  

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !