صحرا کی وسیع و عریض ریگستانوں
میں ایک ایسا جانور پایا جاتا ہے جو انتہائی سخت حالات میں بھی زندہ رہنے کی غیر
معمولی صلاحیت رکھتا ہے یہ جانور اونٹ ہے جسے صحرا کا جہاز بھی کہا جاتا ہے اونٹ کی
یہ خاصیت صدیوں سے انسانی توجہ کا مرکز رہی ہے لیکن جدید سائنس نے جب اس پر تحقیق
کی تو اس کے سامنے ایسے انکشافات ہوئے جنہوں نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا
اونٹ صرف پانی کے بغیر زندہ رہنے والا جانور نہیں ہے بلکہ اس کے جسم میں ایسی
متعدد حیرت انگیز صلاحیتیں موجود ہیں جو اسے کرہ ارض کے انتہائی سخت ترین ماحول میں
زندہ رہنے کے قابل بناتی ہیں
یہ آرٹیکل اونٹ کی انہیں
حیرت انگیز صلاحیتوں پر روشنی ڈالے گا اور بتائے گا کہ کس طرح اس کا جسم انتہائی
درجہ حرارت پانی کی شدید قلت اور خوراک کی کمی جیسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے یکتا
ہے
پانی کے بغیر زندہ رہنے کی غیر معمولی صلاحیت
اونٹ کی سب سے مشہور صلاحیت
بغیر پانی کے طویل عرصے تک زندہ رہنا ہے ایک عام خیال ہے کہ اونٹ اپنے کوہان میں
پانی ذخیرہ کرتا ہے لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے درحقیقت اونٹ کے کوہان میں
چربی جمع ہوتی ہے نہ کہ پانی جب اونٹ کو خوراک نہ ملے تو یہی چربی اس کے لیے توانائی
کا ذریعہ بنتی ہے اس عمل کے دوران چربی کے تحلیل ہونے سے میٹابولک پانی بھی پیدا
ہوتا ہے جو اس کے جسم میں پانی کی مقدار برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے
اونٹ کا جسم پانی کے ضیاع
کو روکنے میں ماہر ہے اس کے پیشاب کی مقدار انتہائی گاڑھی ہوتی ہے اور اس میں یوریا
کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جو پانی کے تحفظ میں مدد دیتی ہے اس کے علاوہ اونٹ کے
گردے خون سے یوریا کو الگ کرکے اسے دوبارہ استعمال میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں
جس سے پروٹین کی پیداوار برقرار رہتی ہے اس کی آنتیں بھی پانی کے دوبارہ جذب ہونے
کا انتہائی مؤثر نظام رکھتی ہیں جس کی وجہ سے اس کے فضلے میں پانی کی مقدار نہ
ہونے کے برابر ہوتی ہے
اونٹ کا ناک کا نظام بھی
حیرت انگیز ہے اس کے نتھنے اتنے گہرے ہیں کہ وہ سانس کے ذریعے نکلنے والی نمی کو
دوبارہ جذب کر لیتے ہیں اس طرح سانس کے ذریعے ہونے والا پانی کا ضیاع بہت کم ہو
جاتا ہے یہی نہیں اونٹ ایک ہی بار میں تقریبا ایک سو بیس لیٹر تک پانی پی سکتا ہے
جو اس کے پورے جسم میں تیزی سے گردش کرتا ہے اور اسے فوری طور پر ہائیڈریٹ کر دیتا
ہے یہ صلاحیت کسی اور جانور میں نہیں پائی جاتی
شدید گرمی اور درجہ حرارت میں زندہ رہنا
صحرا میں درجہ حرارت دن
کے وقت انتہائی بلند ہو جاتا ہے اور رات کو انتہائی کم ہو جاتا ہے اونٹ کا جسم ان
دونوں انتہائی حالات کو برداشت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اونٹ کا جسمانی درجہ
حرارت عام جانوروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع پیمانے پر تبدیلی کو برداشت کر سکتا ہے
عام جانوروں کا جسمانی درجہ حرارت اگر چند ڈگری بھی بڑھ جائے تو وہ ہیٹ اسٹروک کا
شکار ہو سکتے ہیں لیکن اونٹ کا جسمانی درجہ حرارت چھتیس ڈگری سے لے کر بالیس ڈگری
سینٹی گریڈ تک اوپر نیچے ہو سکتا ہے اس لچکدار درجہ حرارت کی وجہ سے اونٹ کو پسینہ
کم آتا ہے اور اس طرح وہ پانی بچاتا ہے
اونٹ کی جلد کی ساخت بھی
انتہائی موٹی ہوتی ہے جو صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر بیٹھنے سے اسے محفوظ رکھتی ہے
اس کے علاوہ اس کے جسم پر بالوں کی ایک موٹی تہہ ہوتی ہے جو اسے دن کی تپش سے بچاتی
ہے اور رات کے وقت سردی سے محفوظ رکھتی ہے یہ بال سورج کی روشنی کو منعکس کرتے ہیں
جس سے اونٹ کے جسم کا درجہ حرارت کم رہتا ہے
اونٹ کی لمبی ٹانگیں بھی
اسے زمین سے دور رکھتی ہیں کیونکہ صحرا میں زمین کا درجہ حرارت ہوا کے درجہ حرارت
سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اونٹ کے پیروں کے تلوے بھی خاصے چوڑے ہوتے ہیں جو اسے ریت میں
دھنسنے سے بچاتے ہیں اور چلنے میں آسانی پیدا کرتے ہیں
خوراک کی کمی کو برداشت کرنا
صحرا میں خوراک کے ذرائع
انتہائی محدود ہوتے ہیں اونٹ ایسی جگہوں پر بھی زندہ رہ سکتا ہے جہاں عام جانور
بھوک سے مر جائیں اونٹ کے کوہان میں موجود چربی کا ذخیرہ اسے خوراک نہ ملنے کی
صورت میں ہفتوں تک زندہ رکھ سکتا ہے ایک صحت مند اونٹ کے کوہان میں اتنی چربی جمع ہوتی
ہے کہ وہ اسے استعمال کرتے ہوئے کئی ہفتے تک بغیر کھانا کھائے گزارہ کر سکتا ہے جب
خوراک دستیاب ہوتی ہے تو اونٹ انتہائی سخت اور کانٹے دار پودے بھی کھا سکتا ہے جنہیں
دوسرے جانور چھوتے تک نہیں ہیں
اس کے موٹے ہونٹ اور سخت
مسوڑے اسے کانٹے دار پودوں کو چبانے میں مدد دیتے ہیں اس کی آنتیں بھی ایسی ہیں جو
سخت سے سخت نباتات کو ہضم کر سکتی ہیں اونٹ اپنی خوراک سے زیادہ سے زیادہ غذائیت
حاصل کرنے کا ماہر ہے اس کا ہاضمہ نظام خوراک کو آہستہ آہستہ ہضم کرتا ہے تاکہ اس
میں موجود تمام غذائی اجزا کو جذب کیا جا سکے
ریت کے طوفان سے بچاؤ کے طریقے
صحرا میں ریت کے طوفان ایک
عام بات ہے ان طوفانوں میں ہوا کے ساتھ اڑتی ہوئی ریت جانوروں کے لیے انتہائی
خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لیکن اونٹ نے ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حیرت انگیز
طریقے تیار کیے ہیں اونٹ کی آنکھوں پر دو قطاریں لمبی لمبی پلکیں ہوتی ہیں جو آنکھوں
میں ریت جانے سے روکتی ہیں یہ پلکیں خود کار طریقے سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں اور
آنکھوں کو صاف کرتی رہتی ہیں
اس کے علاوہ اونٹ اپنے
نتھنوں کو بھی مکمل طور پر بند کر سکتا ہے تاکہ ریت اندر نہ جا سکے جب ریت کا
طوفان آتا ہے تو اونٹ اپنی لمبی ٹانگوں پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی گردن زمین پر رکھ
لیتا ہے اس طرح وہ طوفان کے دوران ہوا کے دباؤ کو کم کرتا ہے اور محفوظ رہتا ہے
زہریلے پودوں کو ہضم کرنے کی صلاحیت
اونٹ کی ایک اور حیرت انگیز
صلاحیت زہریلے پودوں کو کھا کر بھی زندہ رہنا ہے صحرا میں پائے جانے والے بہت سے
پودے زہریلے ہوتے ہیں جنہیں دوسرے جانور استعمال نہیں کر سکتے لیکن اونٹ کا جگر ان
زہریلے مادوں کو neutralize کرنے
کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے اس کا جگر بڑا اور طاقتور ہوتا ہے جو زہر کے اثرات
کو ختم کر دیتا ہے
اس کے علاوہ اونٹ کے جسم
میں موجود خاص قسم کے enzymes بھی
زہریلے مادوں کو توڑنے میں مدد دیتے ہیں یہ صلاحیت اونٹ کے لیے صحرا میں خوراک کے
وسیع تر ذرائع تک رسائی ممکن بناتی ہے
طویل فاصلے طے کرنے کی صلاحیت
اونٹ ایک ایسا جانور ہے
جو بھاری بھرکم سامان لاد کر بھی دنوں تک مسلسل سفر کر سکتا ہے اس کی طاقت اور
برداشت کی صلاحیت حیرت انگیز ہے اونٹ ایک گھنٹے میں پانچ سے چھ کلومیٹر کی رفتار
سے چل سکتا ہے اور ایک دن میں تقریبا چالیس سے پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتا ہے
یہ اپنے جسم کے وزن کے برابر وزن لاد کر بھی آسانی سے چل سکتا ہے
اونٹ کے پیروں کی ساخت
اسے لمبے سفر کے لیے موزوں بناتی ہے اس کے پیروں کے تلوے نرم اور لچکدار ہوتے ہیں
جو چلتے وقت پھیل جاتے ہیں اور اسے ریت میں دھنسنے نہیں دیتے اس کے گھٹنے اور جوڑ
بھی خاص طرح کے ہوتے ہیں جو اسے لمبے فاصلے تک چلنے میں مدد دیتے ہیں
مدافعتی نظام کی طاقت
اونٹ کا مدافعتی نظام بھی
انتہائی طاقتور ہوتا ہے جو اسے مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے سائنسدانوں نے دریافت
کیا ہے کہ اونٹ کے خون میں موجود antibodies انتہائی
چھوٹے اور مضبوط ہوتے ہیں جو وائرس اور بیکٹیریا سے مؤثر طریقے سے لڑ سکتے ہیں یہی
وجہ ہے کہ جدید ادویات میں اونٹ کے antibodies کو
استعمال کیا جا رہا ہے خاص طور پر کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کے علاج میں ان antibodies سے نئی دوائیں تیار کی جا
رہی ہیں
اونٹ کے antibodies کی ایک اور خاصیت یہ ہے
کہ وہ زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کر سکتے ہیں جبکہ عام جانوروں کے antibodies گرمی سے خراب ہو جاتے ہیں
یہ خاصیت اونٹ کو صحرا کی گرمی میں بھی بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتی ہے
حمل کی طویل مدت
اونٹنی کا حمل تقریبا تیرہ
ماہ تک کا ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر دودھ پلانے والے جانوروں سے طویل ہے اس طویل حمل
کی مدت کی وجہ سے پیدا ہونے والا بچہ اونٹ پیدائش کے وقت ہی کافی بڑا اور مضبوط
ہوتا ہے اور پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے یہ بچہ
اپنی ماں کا دودھ پیتا ہے اور جلد ہی صحرا کی سخت زندگی کے لیے تیار ہو جاتا ہے
بچہ اونٹ اپنی پیدائش کے
بعد سے ہی سخت حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ لیتا ہے اور وہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ
چلنا شروع کر دیتا ہے یہ بچہ اونٹ جلد ہی اونٹنی کے دودھ کے علاوہ دیگر خوراک بھی
کھانا شروع کر دیتا ہے
دودھ کی غیر معمولی غذائیت
اونٹنی کے دودھ میں عام
گائے یا بکری کے دودھ کے مقابلے میں زیادہ غذائیت ہوتی ہے اس میں وٹامن سی آئرن
اور دیگر معدنیات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جبکہ چکنائی کی مقدار کم ہوتی ہے اونٹنی
کا دودھ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں انسولین جیسا
ایک پروٹین پایا جاتا ہے
صحرا میں رہنے والے لوگ
صدیوں سے اونٹنی کے دودھ کو غذا اور دوا دونوں کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں جدید
تحقیق نے بھی اس دودھ کے بہت سے طبی فوائد دریافت کیے ہیں
سرمائی صلاحیتیں
اگرچہ اونٹ گرم صحراؤں کے
لیے مشہور ہے لیکن یہ انتہائی سرد موسم کو بھی برداشت کر سکتا ہے وسطی ایشیا کے
پہاڑی علاقوں میں پایا جانے والا بیٹرین اونٹ منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک کے
درجہ حرارت میں زندہ رہ سکتا ہے اس کی موٹی کھال اور لمبے بال اسے سردی سے بچاتے ہیں
اس کے علاوہ اس کا جسم سردیوں میں چربی جمع کر لیتا ہے جو اسے گرم رکھتی ہے
سائنس اور تحقیق کے میدان میں اونٹ
سائنسدان اونٹ کی انہیں حیرت
انگیز صلاحیتوں کا مطالعہ کر رہے ہیں تاکہ ان سے انسانوں کے لیے فائدہ اٹھایا جا
سکے مثال کے طور پر اونٹ کے antibodies سے
نئی ادویات تیار کی جا رہی ہیں اونٹ کے جگر کے
enzymes سے زہر کے علاج کے طریقے دریافت کیے جا رہے
ہیں اونٹ کے پانی کے تحفظ کے نظام کو سمجھ کر ایسے آلات تیار کیے جا سکتے ہیں جو
پانی کی قلت کے علاقوں میں کام آ سکیں
اونٹ کی آنکھوں کی ساخت
سے متاثر ہو کر سائنسدانوں نے مصنوعی آنکھیں تیار کی ہیں جو ریت اور دھول سے محفوظ
رہتی ہیں اسی طرح اونٹ کے پیروں کی ساخت سے متاثر ہو کر ایسے روبوٹ تیار کیے جا
رہے ہیں جو ریتیلے علاقوں میں آسانی سے چل سکیں
ثقافتی اور معاشی اہمیت
اونٹ کی حیرت انگیز صلاحیتوں
نے اسے صحرائی معاشروں کا ایک اہم حصہ بنا دیا ہے صدیوں سے اونٹ ان علاقوں میں نقل
و حمل کا اہم ذریعہ رہا ہے اس کے علاوہ اونٹ سے دودھ گوشت اور کھال حاصل کی جاتی
ہے اونٹ کی کھال سے جوتے اور دیگر استعمال کی چیزیں بنائی جاتی ہیں
بہت سے صحرائی ممالک میں
اونٹ دولت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اونٹوں کی تجارت معیشت کا اہم حصہ ہے اونٹوں
کی دوڑ جیسے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جو مقامی ثقافت کا حصہ ہیں
ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں اونٹ کی اہمیت
ماحولیاتی تبدیلیوں کے
باعث دنیا کے بہت سے علاقوں میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور خشک سالی میں اضافہ ہو
رہا ہے ایسے میں اونٹ جیسے جانوروں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے جو انتہائی سخت
حالات میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور انسانوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں
اونٹ ایسے علاقوں میں بھی
دودھ اور گوشت فراہم کر سکتا ہے جہاں دیگر مویشی پالنا مشکل ہو سائنسدان ماحولیاتی
تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اونٹ جیسے جانوروں کے جینیاتی مطالعہ پر توجہ
دے رہے ہیں
اونٹ قدرت کی ایک حیرت
انگیز تخلیق ہے جسے انتہائی سخت حالات میں زندہ رہنے کے لیے خاص صلاحیتوں سے نوازا
گیا ہے اس کا جسم ایک مکمل اور مربوط نظام کی طرح کام کرتا ہے جو پانی کی قلت شدید
گرمی اور خوراک کی کمی جیسے مسائل کا حل پیش کرتا ہے جدید سائنس ابھی تک اونٹ کی
تمام صلاحیتوں کے رازوں سے پردہ نہیں اٹھا پائی ہے اور اس پر تحقیق جاری ہے
اونٹ نہ صرف صحرائی زندگی
کے لیے ایک نعمت ہے بلکہ اس کی صلاحیتیں انسانوں کے لیے بھی بہت سے فوائد رکھتی ہیں
یہ جانور ہمیں قدرت کے حکمتوں سے آگاہ کرتا ہے اور سکھاتا ہے کہ کس طرح مشکل حالات
میں بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اونٹ کی حفاظت اور اس پر تحقیق کو جاری رکھنا ضروری
ہے تاکہ ہم اس کی صلاحیتوں سے مکمل فائدہ اٹھا سکیں اور آنے والی نسلوں کے لیے اسے
محفوظ بنا سکیں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔