google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس دنیا سےرخصت ہو جانا ہمیں کیا درس دیتا ہے؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

بدھ، 3 جون، 2020

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس دنیا سےرخصت ہو جانا ہمیں کیا درس دیتا ہے؟

صحابہ کرام ﷡کا اس دنیا سےرخصت ہو جانا ہمیں کیا درس دیتا ہے؟

 

اللہ کے حبیب حضرت محمد ﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس زمین پر مقدس ہستیاںصرف صحابہ کرام ﷡کی جماعت ہے- جن کو نہ صرف آپ ﷺ کی قربت نصیب ہوئی بلکہ دین کو صحیح طریقے سے سیکھنے، سمجھنے اور سمجھ کر عمل کرنے کا ٹھیک ٹھیک موقع ملا۔

قرآن میں جگہ جگہ صحابہ  کی عظمت وقار کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ انبیاء کرام اور رسولوں کے بعد سب سے معزز صحابہ کرام کی جماعت ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے۔



 آپ ﷺنے ارشاد فرمایا " میرے اصحاب کو بُرا نہ کہو اگر تم میں سے کوئی ایک شخص احد پہاڑ جتنا سونا خیرات کردے، پھر بھی وہ ان کے دئیے ہوئے ایک کلو یا نصف کلو کے برابر نہیں ہوگا"

اس حدیث سے شان ِ صحابہ کی وضاحت بالکل ویسے   ہی ہے جیسے اس میں حرف بہ حرف کہا گیا ہے اور انہوں نے ایسا کرکے دکھایا۔ آج لوگ طرح طرح باتیں کرتے ہیں، گا لیاں دیتے ہیں،  نہ جانے کس بات کا بغض رکھتے ہیں اپنے سینوں میں صحابہ کرام کے بارے میں۔

 اس روئے زمین پر انبیاء کرام کے بعد کوئی عمل کرکے دکھلانے والا نہیں جیسا عمل انہوں نے کر کے دکھایا اس لئے کہا گیا ہے کہ چاہے تم احد پہاڑ جتنا صدقہ خیرات ہی کیوں نہ کر دو ان کے مرتبے اور عظمت و وقار تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایک اور روایت میں فرمایا  :

ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺنے آسمان کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: ستارے آسمان کی امان ہیں اور جب ستارے چلے جائیں گے تو آسمان پر وہ چیزیں آجائیں گی جن سے آسمان کو ڈرایا گیا ہے اور میرے اصحاب میری امت کے امان ہیں- جب میرا وصال ہوگا تو میرے اصحاب کے پاس وہ چیزیں آجائیں گی، جن سے ان کو ڈرایا گیا ہے"

دوسرے مقام پر کچھ یوں ارشاد فرمایا: میرے اصحاب کے متعلق اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد طنز کا نشانہ نہ بناؤ- جس نے ان سے محبت رکھی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا انہوں نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی، اس نے بے شک مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے بے شک اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، عنقریب اللہ اس کو پکڑے گا‘‘

گویا اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اطاعت صحابہ  در حقیقت اطاعت رسولﷺ  ہے اور اطاعت رسول اطاعت خداوندی ہے۔ قرب قیامت کی اس نشانی میں اللہ کے نبی ﷺ نے خود ہی وضاحت کر دی کے میرے صحابہ کے بعد کوئی سمجھانے والا نہیں ہوگا در حقیقت صحابہ  کرام کے ذریعے جو دین تابعین ، تبع تابعین  اور بزرگوں تک پہنچا وہ صحابہ ہی کے مرہون منت ہے۔

 علماء کرام  فرماتے ہیں’’یہ ہرگز جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پرکوئی  غلطی منسوب کی جائے- کیونکہ صحابہ کی اس جماعت نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد صر ف اور صرف اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا تھی-

صحابہ کرام  ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلاف میں اپنے منہ سے کوئی بات  کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر عظمت و وقار سے  کریں جسے کے یہ مستحق ہیں۔  آپ ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ان  سب کو معاف کر رکھا ہے اور اللہ ان سے راضی ہے‘‘-

اللہ کے ان نیک بندوں کو نہ تو دنیا کی کوئی حرص تھی  اور نہ ہی مال و دولت سے کوئی لگاؤ بلکہ وہ تو رات کو کمایا ہوا مال صبح تک اور صبح کو کمایا ہوا مال شام تک خرچ کر دیا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں انفاق فی سبیل اللہ کی کئی بار مثالیں دی گئی ہیں۔

 اللہ کے یہ پیارے اور نیک لوگ سراپا محبت ہیں انکی کون کون سی مثالیں دو ں اور کون کون سے واقعات قلم بند کروں کیونکہ میرے پاس   تو الفاظ ہی نہیں ہیں  کہ جن سے ان کی شان میں تعریف کر سکوں۔ مہاجرین اور انصار کی جو مثال پیش کی گئی دنیا میں کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی   یہی لوگ سچے لوگ تھے ۔ دین عزیز تھا  لہذا جان کا نذرانہ پیش کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔

نبی کریمﷺ کی ذات گرامی کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت کے افضل ترین لوگ ہیں۔ ایک مقام پر آپ  ﷺ نے فرمایا" آسمان کے ستارے آسمان کے لئے امن و سلامتی  ( کی ضمانت) ہیں۔ جب ستارے ختم ہوجائیں گے تو وہ  (قیامت) آجائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور میں اپنے صحابہ کے لئے امن و سلامتی ہوں ۔

 جب میں چلا جاؤں گا تو صحابہ پر وہ حالت آجائے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اور میرے صحابہ امت کے لئے امن وسلامتی کی ضمانت ہیں۔ جب صحابہ چلے جائیں گے تو امت کو وہ (اختلاف وانتشار) پیش آ جائے گا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دنیا سے چلے جانے کو قیامت کی دو نشانیوں کے ساتھ ملاکر بیان فرمایا۔ ایک نبی کریم ﷺ کی وفات  اور دوسری ستاروں کا جھڑ جانا اور شہابیوں کا گرنا۔

گویا  ایک ایک کرکے اس دنیا نیک لوگ رخصت ہو جائیں گے اور پیچھے گنہگار اور گمراہ لوگ رہ جائیں گے جن پر اللہ تعالیٰ قیامت برپا کریں گے۔ آج اگر حالات دیکھیں تو مایوس کن ہیں ، قیامت کی ان نشانیوں کو ذرا سا غور کریں تو یقین کیجئے اتنی تیزی سے دن گزر رہے ہیں۔ لو گ دین سے دور غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ جو مرتا ہے اس کے لئے تو قیامت شروع ہو جاتی ہے لیکن باقی لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسے اسی کو ہی مرنا تھا ہمیں نہیں۔

اللہ پاک ہم سب کی مغفرت فرمائے ہمیں صحابہ جیسی محبت ، صحابہ جیسی دین کی خدمت اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین سم آمین

 مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائیٹ وزٹ کریں

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو