google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 قبلہ اول (بیت المقدس) کی فتح اور اس کی حقیقت - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 5 جون، 2020

قبلہ اول (بیت المقدس) کی فتح اور اس کی حقیقت

قبلہ اول (بیت المقدس) کی فتح اور اس کی حقیقت




مسلمانوں کا قبلہ اول  بیت المقدس ہے جبکہ یورپ کے لوگ اس کو یروشلم کے نام سے پکارتے آرہے ہیں جبکہ عربی زبان میں اس کا نام القدس  (یعنی پاک )ہے۔ زیادہ تر مصنف اپنی کتب میں لفظ بیت المقدس ہی استعمال کرتے آرہے ہیں۔

 اس سے مراد وہ مقدس (مبارک ) گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے انسان پاک ہو جاتا ہے۔ روم کے عیسائیوں نے جب پہلی صدی  عیسوی قبل مسیح  میں یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے بیت المقدس کو ’’ایلیا‘‘ کا نام سے منسوب کیا چونکہ قبلہ اول  پہاڑیوں پر آباد ہے۔ انہی  پہاڑیوں  میں سے ایک پہاڑی جس کا نام کوہ صہیون ہے اس پر مسجد اقصیٰ قائم ہے۔ یہودیوں کی تحریک صہیونیت بھی اسی پہاڑی سے منسوب ہے۔

تاریخی لحاظ سے   حضرت ابراہیمؑ        اور حضرت لوطؑ نے عراق سے قبلہ اول  کی طرف ہجرت کی تھی ۔ آپﷺ بھی  مکہ سے یہاں پہنچے اور پھر یہیں سے سفرمعراج کیلئے تشریف لے گئے۔

 مسجد اقصیٰ کی بنیاد حضرت یعقوبؑ نے ڈالی  اور پھر بعدمیں حضرت سلیمانؑ کے حکم سے اس مسجد اور شہر کی تعمیرکی گئی۔  یہودی قبلہ اول (بیت المقدس) کو  ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کہہ کر پکارتے اور منسوب کرتے ہیں۔لگ بھگ کوئی  پانچ سو چھیاسی  قبل مسیح میں عراق کے شاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو مسمار کردیا۔

 بخت نصر کے بعد فارس کے بادشاہ نے فتح بابل کے بعد نبی اسرائیلیوں کو فلسطین جانے کی اجازت دے دی۔ بیت المقدس ایک بار پھر سے آباد اور تعمیر کیا گیا۔ ستر عیسوی میں روم کے عیسائیوں کے ہاتھوں  قبلہ اول دوسری بار مسمار ہوا ۔اور ایک بار پھر یہودیوں کو فلسطین سے جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جب روم کے عیسائیوں نے عیسائیت قبول کی تو قبلہ اول میں چرچ کی تعمیرات کی گئی۔

جب آپ  ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت قبلہ اول  پر سلطنت ِ روم پرعیسائیوں کا قبضہ تھا۔ سلطنتِ روم اس وقت بہت طاقتور اور با اختیار حکومت تھی۔ انھی حالات میں اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں کے ہاتھوں بیت المقدس کے فتح ہونے کی خوشخبری سنائی۔

 اور اسے قیامت کی  چھوٹی نشانیوں میں شمار کیا ، جیسا کہ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا  چھ نشانیاں قیامت سے پہلے شمار کر لو اور ان میں سے ایک نشانی آپ نے قبلہ اول  (بیت المقدس)  کی فتح  کو قرار دیا۔

حضرت عمر بن خطاب  ﷛ کے دور میں بغیر لڑائی کئے بیت المقد س فتح ہوا۔جب خلیفہ وقت حضرت عمر بن خطاب  ﷛  نے حضرت عمرو بن عاص ﷜ کو یروشلم بھیجا  تو وہاں کے عیسائیوں  اور یہودیوں نےبرملاکہا  کہ ہماری مقدس کتابوں میں دی گئی ہدایات  کے مطابق  بیت المقدس کو فتح کرنے والے کا حلیہ آپ سے نہیں ملتا،

آپ ہرگز اسے فتح نہیں کر سکتے،  حضرت عمرو بن عاص ﷜ نے خلیفہ وقت حضرت عمر بن خطاب  ﷛ کو خط میں  تمام احوال  لکھ بھیجی اور پھر حضرت عمر بن خطاب  ﷛ کی قبلہ اول  پہنچتے ہی  چابیاں آ پ ﷛ کے حوالہ کی گئیں

 کیونکہ  آ پ ﷛  کا حلیہ مبارک عیسائیوں اور یہودیوں کی مقدس کتب میں دی گئی ہدایات کے عین مطابق تھا۔ آ پ ﷛  نے  اس سر زمین پر ایک مسجد بنائی اور کفر سے قبلہ اول کو پاک فرمایا۔

اسی طرح  سفر معراج کو جاتے ہوئے  پہلے آپ ﷺ بیت المقدس پہنچے اس وقت  بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ اول تھا۔ حضرت عمربن خطاب ﷜ کے دورِ خلافت میں رومی عیسائیوں سے ایک میثاق کے تحت (قبلہ اول ) بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔

 اور یوں خلیفہ وقت عبدالمالک کے دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر عمل میں لائی گئی،اور اس طرح جب مسلمانوں کی یورپی صلیبوں کے ساتھ  پہلی صلیبی جنگ لڑی گئی تو انہوں نے 70،000 مسلمانوں کو شہید کرکے ایک بار پھر قبلہ اول (بیت المقدس ) پر قبضہ کر لیا۔

 جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول (بیت المقدس) کو عیسائیوں کےچنگل سے آزاد کرایا۔ ان کا  سب سے عظیم  کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے عیسا ئیوں سے مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ نہیں لیاتھا۔

 

 




 امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس کی مشترکہ سازشی منصوبہ بندی  سےایک بار پھر 1948 میں فلسطین کی سرزمین پر  یہودیوں کی آمد شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھے حصے پر قابض ہوگئے۔

 اور پھر عرب اور اسر ائیل کے مابین 1967 میں جنگ لڑی گئی اور یوں قبلہ اول ( بیت المقدس ) پر اسرائیلیوں نے مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔وہ سرزمین جس پر کبھی اسلام کا بول بالاتھا  ایک بار پھر سے بے بس دکھائی دینے لگا۔ مسلمانوں کا وہ جوش کفر کی اس جنگ میں کہیں ماند پڑنے لگا ،

عرب مسلمانوں نے لگ بھگ 761 سال تک قبلہ اول کی حفاظت اور دیکھ بھال میں گزار دئیے۔جس قوم نے کبھی ان ظالموں کو اس سر زمین کی طرف بڑھنے نہیں دیا تھا  آج ان کے جوش اتنے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔

 کہ وہ کسی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کرنے لگے ہیں کہ کب وہ آئے اور قبلہ اول  پھر سے آزاد کروائے۔یہود ونصارا کی مشترکہ سازشوں کی وجہ سے مسلمانوں پر مسلسل مظالم توڑے جارہے ہیں۔

 لیکن عالم اسلام کے سربراہان ایسے چپ بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں جیسے ان کی رگوں میں خون ہی نہیں چل رہا یا بے حسی کا  وہ عالم ہے جیسے  یہ مسئلہ ان کا ہے ہی نہیں۔

ارشارد ربانی ہے ’’اور تم سے ہرگز راضی نہیں ہونگے یہود و نصاری‘ یہاں تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کر لیں (یعنی ان جیسے نہ بن جائیں)"

حال ہی میں صدر ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ  کو بیت المقدس منتقل کرنے کے لئے ہدایات جاری کیں ہیں جس پر مشرق وسطی کے ممالک کے علاوہ روس اور چائنہ نے خطرے کی گھنٹی اور آگ کے دریا سے تعبیر کیا ہے۔

یہودی لابی اپنے مشن کے مطابق اپنا کام پورا کرنے میں سرگرم ہے چاہے وہ دولت کے ڈھیر لگا کر  کیا جائے یا کرونا جیسے وائرس کے پھیلاؤ سے کیا جائے اور یا پھر زور بازو سے کرایا جائے۔

کیونکہ مسلمانوں میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں لہذا وہ ہر ایک کو الگ الگ اور مختلف طریقے کاروں سے کمزور اور بے بس کرتے جا رہے ہیں۔ اور مسلمانوں کی ذلالت اور تباہی کی نشانی یہ ہے ۔

کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر یہودونصارا سے دوستیاں قائم کر لیں اور نتیجہ یہ ہے کہ آج کہیں بھی سکون میسر نہیں ہے اور نہ ہی کہیں پر مسلمان سیف ہے۔

حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جس جرات  سے آیا صوفیا چرچ کو فتح کر کے دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا مظاہرہ کیا ہےقابل ستائش ہےاور  اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان یا تو جاگ رہا ہے یاجاگنے کی تیاری کر رہا ہے  اور یہ پیغام ہے ان تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کو  کہ اٹھو، آگے بڑھو، اور اپنا حق چھین لو۔

 اوآئی سی کا اجلاس طلب کرکے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپیغام دیا ہے  اس کانفرنس کے ذریعے باقی اسلام ممالک کے سربراہان نے امریکہ کو متنبہ کیا ہے اور عالم اسلام کے لئے  پیدا ہونے والا جذبہ واقعی قابل ستائش ہے۔

 اسی پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستان  کی طرف سے دیا جانے والا پیغام  قبلہ اول  کے ساتھ کشمیر کے مسلمانوں پر جبر اور تشددکے بارے میں مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ  نے امریکی سفارتخانے  کی بیت المقدس منتقلی کو بھاری اکثریت سے رد کر دیا ہے  اور یوں یہ مسئلہ  وہیں رک گیا ہے۔

اللہ کے نبی ﷺ کا یہ پیغام سچ ہو کر رہنا ہے جو انھوں نے فرمایا : " اور ایک بار پھر اللہ کے حکم سے یہ ایک مومن جماعت کے ہاتھوں(بیت المقدس)  فتح ہوگا حتیٰ کہ درخت  اور پتھر بھی بول کر کہیں گے: "اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ آؤ اسے جلدی سے قتل کر ڈالو ۔

 مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائیٹ وزٹ کریں

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو