کون سادرخت مسلمانوں کے حق میں نہیں بولے گا؟
دوستو! غرقد درخت
کے بارے میں تو شاید آپ نے سُنا ہو گایہ ایک خاردار جھاڑی کی صورت میں ہوتا ہے اس
کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے مثلا شجر ِیہود، شجرغرقد، اہل یہود کا محافظ یا
پاسبان درخت، شجر ِ برگد، اور گونگا درخت کے نام سر فہرست ہیں۔ انگلش زبان میں اس
کو لائیسیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قرب قیامت کے بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے
کہ مسلمان جب یہودیوں سے جنگ کریں گے تو ان کی مدد کے لئے درخت اور پتھر بھی کلام
کرنے لگے گے۔ یہ کب ہو گا ، کیسے ہوگا اس وقت کا تعین تو اللہ رب العزت کی ذات
اقدس ہی بہتر جانتی ہے۔ تاہم ہمیں جو نشانیاں ذکرفرمائی گئیں ہیں وہ یہ ہے کہ آخری
زمانے میں ایک عظیم معرکہ برپا ہوگا اور وہ اس قدر شدید ہوگا اس معرکے میں
مسلمانوں کو اللہ فتح نصیب فرمائیں گے اس
موقع پر درخت اور پتھر بول بول کر مسلمانوں سے کہیں گے۔ اے مسلمان ! اے اللہ کے
بندے ! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے۔ جلدی سے آؤ اور اسے قتل کرڈالو۔
یعنی اس جنگ میں درخت اور پتھر بھی مسلمانوں سے محبت اور
ہمدردی کا اظہار اور ان کی مدد کریں گے۔ بنیادی طورپر یہ اللہ رب العزت کی طرف سے
مسلمانوں کے لئے مدد ہوگی۔ جیسا کہ ایک روایت میں آپ ﷺ نے ذکر فرمایا ہے کہ
"یہودی تم سے جنگ کریں گے مگر تم ان پر غلبہ پا لوگے، یہاں تک کہ پتھر بھی
بول کر کہے گا: اے مسلم ! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے آؤ اور اسے قتل کر
ڈالو"۔
جہاں تک درختوں اور پتھروں کا اس طریقے سے بات کرنا علامات
قیامت میں سے ہوگا مگر ایک درخت ایسا ہوگا جو مسلمانوں کے حق میں نہیں بولے گا۔ یہ
"غرقد" کا درخت ہے جو یہودیوں کا ہمدرد ہے۔ جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ
فرماتے ہیں" قیامت اس وقت تک ہرگز قائم نہ ہوگی جب تک مسلمانوں کی یہودیوں سے
جنگ نہ ہو جائے، مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے۔ یہاں تک کہ ایک یہودی کسی پتھر یا
درخت کے پیچھے چھپ جائے گا لیکن وہ درخت یا پھر وہ پتھرکہے گا: اے مسلم! اے اللہ
کے بندے ! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے، آؤ اسے قتل کر ڈالو
مگر"غرقد" کا درخت نہیں بولے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا دوست ہے۔"
درختوں اور پتھروں کا بات کرنا حقیقی ہوگا، اللہ رب العزت
جمادات کو قوت گویائی عطا کرنے پر قادر ہے۔ جمادات کا اس طرح بات کرنا علامات قیامت میں سے ہوگا۔ ایک
مقام پر آپ ﷺ نے کچھ یوں ارشاد فرمایا "تم مشرکین سے لڑائی کرو گے، حتی کہ تم
میں سے بچ جانے والے دریائے اردن پر دجال اور اس کے لشکر سے لڑیں گے۔ تم دریا کی
مشرقی جانب ہوگے اور وہ مغربی جانب ہوں گے"۔
صحابی رسول فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ اس دن دریائے
اردن کہاں واقع ہوگا؟ بنیادی طور پر یہ دریا فلسطین اور اردن کو ایک دوسرے سے جدا
کرتا ہے۔
اہل یہود اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں جو
باتیں بتائی گئی ہیں وہ سب سچ ہیں۔ اس لیے وہ تحقیقات کرکے اپنے لئے ترقی کی راہیں
ہموار کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہمیں آپس میں لڑوانے اور فرقہ پرستی جیسے مرض میں
مبتلاکرکے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ یہودی جانتے ہیں کہ غرقد کا درخت ان کے لئے پاسبان
ہے اس لئے اقوام متحدہ نے 1981 میں دس لاکھ غرقد کے پودے اردن کو دئیے تھے۔ اور
ساتھ ہی یہ اعلان کیا تھا کہ ان پودوں کو تورنے یا اکھیڑنے پر قید کی سزا سنائی
جائے گی۔ اہل یہود اس درخت کو بطور مورچے کے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اہل یہود غرقد کی کاشت کو اپنے لئے نعمت سے کم نہیں سمجھتے۔وہ
یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو آپ ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی ہے وہ ہر حال میں پوری ہونی
ہے۔اس لئے وہ تیاری کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اہل یہود قرآن و حدیث پر عمل کرکے ہماری کمزوریوں سے فائدہ
اٹھا رہے ہیں ہمیں دین سے دور کرتے چلے جا رہے ہیں آج ہماری نسل نو میں فحاشی ،
بدعنوانی جیسی غلاظت بھر کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔