قرب قیامت لوگوں کے پاس دولت کی کثرت کیوں ہو جائے گی؟
دوستو! اسلامی تاریخ کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے ابتدائی سال اللہ کے نبی
ﷺ کی رفاقت میں بھی اور بعد میں بھی اس حال میں بسر کیے کہ ان کی زندگی بہت تنگ
دستی اور سخت فقرو فاقہ کی تھی ۔ یہاں تک
کہ ایک کے بعد دوسرا مہینہ بھی گزر جاتا اور اللہ کے رسول ﷺ کے گھر چولہے میں آگ
نہ جلتی۔ ان کا گزر اوقات محض دو چیزوں پانی اور کھجور پر ہوتا تھا۔
آپ ﷺ اپنے پیارے ساتھیوں سے فرمایا کرتے تھے کہ
عنقریب حالات بدل جائیں گے اور قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ دولت کی ریل پیل
ہو جائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ مال متاع کی اس قدر کثرت ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی
زکوٰۃلے کر ایک مہینے تک پھرتا رہے گا مگر اسے کوئی مستحق نہیں ملے گا، اس لئے کہ
لوگ اس سے بہت مستغنی ہوں گے۔
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا " قیامت
اس وقت تک ہرگز قائم نہ ہوگی جب تک کہ تم میں مال
کی کثرت نہ ہوجائے گی۔ مال کی ریل پیل اس قدر ہو جائے گی کہ مال والے کو یہ
پریشانی لاحق ہوگی کہ اس کا صدقہ کون قبول کرے گا؟ وہ ایک شخص کو اپنا مال پیش کرے
گا مگر وہ شخص کہے گا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔"
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے کچھ یوں ارشاد
فرمایا" لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب ایک شخص اپنے صدق کا سونا لے
کر گھومے گا کہ کوئی لینے والا حاجت مند مل جائے مگر اسے کوئی ایسا شخص نہیں ملے
گا جو یہ مال لینے کو تیار ہو۔
اہل علم کے مطابق بعض کا یہ خیال ہے کہ یہ علامت
صحابہ کرام کے زمانے میں واقع ہوچکی ہے جب انھیں بڑی بڑی فتوحات حاصل ہوئیں اور
فارس وروم کی غنیمتیں ان کے پاس آئی تھیں۔ اس کے بعد پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے
دورِ حکومت میں مال کی اس قدر فراوانی ہوگئی کہ ایک شخص اپنا صدقہ پیش کرتا مگر
کوئی ایسا شخص اسے نہ ملتا جو اس سے یہ مال قبول کر لیتا۔ یہاں تک کہ ایک شخص کسی
کو بظاہر محتاج سمجھ کر اس کو مال پیش کرتا مگر وہ کہتا مجھے اس مال کی کوئی حاجت
نہیں۔
اور بعض مکتبہ فکر کا یہ خیال کہ یہ علامت آخری
زمانے میں واقع ہوگی اور آپ ﷺ کا اشارہ درحقیقت ظہور مہدی کے زمانے کی طرف ہے۔ اس
دور میں مہدی لوگوں میں جھولیاں بھر بھر کر گنے بغیر مال تقسیم کریں گے، اس لئے کہ
مال کی کثرت اور فراوانی ہوگی ۔ زمین برکات و معدنیات اگلے گی یہاں تک کہ اس کے
پیٹ سے سونے اور چاندی کے ذخائر برآمد ہوں گے۔
ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ"
میری امت کے آخری زمانے میں ایک ایسا خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو دونوں ہاتھ بھر بھر
کر مال عطا کرے گا اور اسے گنے گا نہیں۔ صحابی رسول ﷺ نے عرض کی آپ کا کیا خیال
ہے؟ وہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز تو نہیں؟ انھوں نے کہا: نہیں۔"
اگر ان روایات کا بخوبی مطالعہ کریں اور معاشرے
میں جائزہ لیں تو ہمیں ہر شخص اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے سرگرم دکھائی دیتا ہے
۔ دولت کا حصول ہر جائزوناجائز ذرائع کا استعمال ،زیادتی ، ڈکیتی، قتل وغارت، اور
ناجانے کتنے گھناؤنے اور مکروہ ارادے دکھائی دیتے ہیں۔
اس دولت کی خاطر انسان کا خون سفید ہو چکا ہے،
اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، رشتے ناطے، دوست احباب سب بے نام ہو کر رہ گئے
ہیں۔ حتی کہ دین سے اس قدر دوری ہوگئی ہے کہ گویا زنا، شراب ، رقص وسرود کی محفلوں
، میں بے دریغ دولت ضائع کی جاتی ہے جبکہ حق دار کو حق دینے سے ہم کتراتے ہیں۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں لوگوں کے پاس بے شمار
دولت ہے جب کہ عوام بوندبوند کو ترس رہی ہے۔ سسک سسک کر زندگی گزارنے والے اپنی
نگاہیں آسمان پر گاڑے ہوئے ہیں کہ شاید کہیں سے کوئی مدد آجائے اور وہ اپنی جائز
خواہشات کی تکمیل کر سکیں ۔
دولت ایک فتنہ ہے یہ اللہ رب العزت کی طرف سے ایک
آزمائش ہے لوگ اس آزمائش پر کتنا کھرا اترتے ہیں یہ اللہ کی ذات اقدس بہتر جانتی
ہے کیوں کہ دلوں کے حال اللہ پاک ہی جانتے ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔