google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 قیامت کے نزدیک لوگوں کے درمیان اجنبیت کیوں ڈال دی جائے گی؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 13 نومبر، 2023

قیامت کے نزدیک لوگوں کے درمیان اجنبیت کیوں ڈال دی جائے گی؟

قیامت  کے نزدیک لوگوں کے درمیان اجنبیت کیوں ڈال دی جائے گی؟

دوستو!  کافی عرصہ سے میں قیامت کی نشانیوں پر مسلسل آرٹیکل لکھتا آ رہا ہوں  ، جوں جوں وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ہی کوئی نہ کوئی نشانی ظاہر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس نشانی کی نوعیت ابھی ابتدائی مرحلہ پر ہو۔ لیکن علامات دکھائی دے رہے ہیں جیسے آپ ﷺ نے امت کی اصلاح فرمائی ۔

کچھ عرصہ قبل میں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا  کہ صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرنے کے کیا نقصانات ہیں؟اس آرٹیکل میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ کس طرح لوگ صرف اپنے جاننے والوں سے کلام کریں گے اجنبی لوگوں سے سلام تک نہیں لیا جائے گا۔ آج اسی سے ملتا جلتا ایک ٹاپک لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔



اگر آ پ سابقہ ٹاپک کو پڑھیں اور اس کے بعد اس کو پڑھیں تو آپ اپنے اردگر نظر ثانی کر سکتے ہیں کہ کیا یہ نشانی ظاہر ہوئی ہے یا نہیں ، اگر ہوئی ہے تو اس میں کس قدر شدت ہے۔

ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جب فتنوں ، مصیبتوں ، تنگیوں، یا کٹھن حالات کی کثرت ہو جاتی ہے تو  لوگوں کے باہمی تعلقات میں کمزوری، دکھاوا، منہ موڑ لینا، سخت دل  ہو جانا، لاتعلقی اختیار کر لینا ایک واجبی سی بات ہے۔

احساسات کھوکھلے ہو جاتے ہیں، رشتے بے بنیاد ، بے جان سے ہوتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی تنگیاں ان لوگوں پر آئیں ہیں یقینا وہ انہی  کے لئے تھیں یا پھر یہ لوگ اسی لائق تھے۔

اس لئے اللہ نے ان کو اس مصیبت میں ڈالا ہے شکر ہے ہم تو بچ گئے۔ یہ نافرمانی ، تکبر  اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ انہی وسوسوں کے پیش نظر ہمارے دل سخت ہوگئے ہیں ، جن میں کوئی احساسات باقی نہیں ہیں۔

اس وجہ سے ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے جارہے ہیں  کیونکہ دل تو مردہ ہوتے جارہے ہیں۔ آج ہم اپنے اردگر د نظر دوڑائیں تو ایسی چلتی پھرتی مثالیں دکھائی دیں گی۔

آہستہ آہستہ ہم رشتہ داروں سے قطع تعلقی کرتے چلے جارہے ہیں۔یہاں تک کہ نوبت اجنبیت تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ دینی تعلیمات سے بالکل دور ہیں ہماری آج کل کی نسل ۔ہم اس طرح تیار ہی نہیں کر پا رہے اپنی اولادوں کو جس کی معاشرے میں سخت ضرورت ہے۔

ہماری آج کی نسل انفرادی سوچ کی مالک ہے ، اسے صرف اپنا پتہ ہے اردگر د کے لوگ  کیا سوچتے ہیں کیا کہتے ہیں اس کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے اپنے والدین کی شکل بھی دو دو دن بعد دکھاتے ہیں ۔ کیونکہ دنیا کے سارے کام اسی ایک شخص کو ہوتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں لوگ صرف دینوی مصلحت ہی کی خاطر ایک دوسرے سے واقفیت رکھتے ہیں۔

ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ سے قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا"قیامت کب واقع ہوگی، اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے اور وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا ، البتہ میں تمھیں اس کی علامات اور اس سے قبل پیش آمدہ حالات کی خبر دے سکتا ہوں۔

قیامت سے پہلے فتنہ اور ھرج ہوگا، صحابہ نے عرض کیا: فتنہ تو ہم جانتے ہیں یہ ھر ج کیا چیز ہے؟ فرمایا" یہ حبشی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں۔ قتل و خونزیزی، قیامت کے قریب لوگوں کے درمیان اجنبیت ڈال دی جائے گی۔ کوئی کم ہی کسی کو جانتا ہوگا۔"

یہ حدیث لوگوں کے آج کے حالات و واقعات کے مطابق ہے۔ آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے رشتہ داروں تک کو نہیں جانتی ۔ نوبت یہا ں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک شخص اپنے ہی بعض عزیزوں سے گھر سے باہر پبلک پارکوں وغیرہ میں ملتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ یہ لوگ اس کے رشتہ دار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل زیادہ تر تعلقات شخصی اور ذاتی فوائد کی بنا پر استوار کیے جاتے ہیں۔

دینوی مصلحتوں پر مبنی یہ کمزور تعلقات جس تیزی سے قائم ہوتے ہیں اسی تیزی سے اختام پذیر بھی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایمان بااللہ اور اخوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ شخصی مصلحت کی بنا پر قائم ہوتے ہیں۔ بلکہ آدمی اپنی دینوی مصلحت کو دیکھتا ہے

کہ اگر ان تعلقات کے قائم کرنے سے وہ مصلحت پوری ہوتی ہوتو وہ ان تعلقات کو قائم رکھتا ہے ورنہ بہت جلد ان کو توڑ دیتا ہے۔

  

  

3 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو