google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 زبان کا ناجائز استعمال کرکے مال کمانے والوں کے لئےکیا حکم فرمایا گیا؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 13 جون، 2020

زبان کا ناجائز استعمال کرکے مال کمانے والوں کے لئےکیا حکم فرمایا گیا؟

زبان کا ناجائز استعمال کرکے مال کمانے والوں کے لئےکیا حکم فرمایا گیا؟


محترم قارئین کرام! ایک وقت تھا جب ہندوستان میں انگریز سرکار انھی لوگوں کو ملازمت کی آفر کیا کرتی تھی جن کو انگریزی بولنی ، پڑھنی یا لکھنی آتی ہو وہ انگریزوں کے منظور نذر ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ ان سے ان کی زبان میں ہی بات کرتے تھے۔کئی سال گزر چکے ہیں انگریز چلے گئے لیکن ہمارے معاشرے میں آج بھی یہ وائرس موجود ہے آج پاکستان میں بھی انھی لوگوں کو ملازمت کی آفر  زیادہ کی جاتی ہے کہ جن کو انگریزی میں بات کرنی  آتی ہو، ان کے لئے اچھے مراعات آفر کیے جاتے ہیں ، گویا انگریزی بولنے  سے انسان کی قابلیت کے معیار کا جانچا جاتا ہے جس کو انگریزی نہیں بولنی آتی  لوگوں کی نظر میں وہ بیکار شخص ہے۔میں  انگلش بولنے کے ہرگز خلاف نہیں ہوں وہ ایک اچھی لینگوئج ہے  لیکن اس کو محض قابلیت کا پیمانہ بنانا یہ غلط ہے۔





اسی غلط فہمی کی بدولت نہ تو ہم اپنی زبان کی شناخت کرپائے اور نہ انگریزی کو ٹھیک سے رائج کرپائے، ان دونوں زبانوں کی کشمکش میں ہم عربی زبان سے ہی دور ہو کر رہ گئے۔ ہمارے سکولوں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہاں عربی صرف  نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے  اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہماری آنے والی نسل دین اسلام  کی پیروی تو دور کی بات ہے اصل مقصد سے ہی دور ہوگئی اور بھٹک گئی ہے۔ اس کی گمراہی میں زیادہ ہاتھ دین کے سمجھانے والوں   کی طرف سے ہوا اور باقی ہم نے اپنے ہاتھوں سے ہلاکت کمانا شروع کردی ۔ نتیجہ آج ہر گھر میں وہ فتنے پہنچ گئے ہیں جن سے ہمیں منع  کیا گیا تھا۔

آپ ﷺ نے قرب قیامت کی بہت ساری  نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بتائی گئی ہے کہ "انسان  اپنی زبان کا استعمال کر کے خوب مال کمائے گا اور چرب زبان میں بات کرکے اترائے گا۔ اگرانسان جائز طریقوں سے دنیا کا مال کمائے یا شرعی طورطریقوں سے دنیا حاصل کرے تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔ آدمی بیان وکلام اور دلیل کے ذریعے سے روزی کمائے یہ بھی شرعی طریقہ ہی ہے۔ جس طرح کہ وکلاء حضرات جو حق بات کہنے سے نہیں ڈرتے اور راست بار رہتے ہیں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہتے ہیں ، اور نیوز رپورٹرز، ٹرینر ز، دین کو سمجھانے والے ،کوچ، اساتذہ ، سیلز آفیسرز، وغیرہ  ان حضرات کی روزی کا زیادہ اعتمادچرب ، شائستہ ، نرم گفتگو پر ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ سب اپنی زبان کا غلط استعمال کرتے ہیں مثلا جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جو کہ آج ہمارے معاشرے میں عام ہے،  تو ایسے مال  کو اکٹھا کرنے کی وعید بتائی گئی ہے۔جھوٹ اور حرام کاری سے کمایا ہوا مال ہمارے کسی کام نہیں آنے والا۔اگر  انسان چرب زبانی ،شائستہ گفتگو کے ذریعے دنیا کمائے، یا پھر کسی غیر مستحق شخص کی جھوٹی اور  ناجائز تعریف یا خوشامد کرے، یا اپنے لین دین میں جھوٹی قسمیں کھا کر اشیاء فروخت کرے  یا  پھر بے ایمانی  اور غلط بیانی کرکے مال اکٹھا کرے، اسی طرح دیگر زبان کے  جتنے بھی ناجائز استعما لات  کے طریقے ہیں وہ  سب ممنوع وناجائز ہیں۔

عمر بن سعد کو اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص ﷛ سے کوئی کام تھا۔ وہ والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لیکن اپنا مقصد بیان کرنے سے پہلے انھوں نے فصاحت وبلاغت سے لبریزکچھ ایسی خوشنما گفتگوکی جس طرح کہ لوگ اپنی مقصد برآری کے لیے کیا کرتے ہیں" سیدنا سعدبن ابی وقاص ﷛ نے قبل ازیں ان سے ایسی شاندار گفتگو کبھی نہ سنی تھی۔ بیٹا جب اپنی کہہ چکا تو حضرت  سعد ﷛ گویا ہوئے: جی بیٹا ! تم نے اپنی بات مکمل کرلی؟ اس نے کہا: جی ہاں، مجھے جو عرض کرناتھی ، کر چکا ہوں۔ حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب سے میں نے تمھاری یہ گفتگو سنی ہے تم اپنے مقصد سے زیادہ دور ہوگئے ہو۔ اور میں تم سے اس قدر متنفر پہلے کبھی نہ تھا جس قدر آج ہوا ہوں۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:"قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ایک ایسی قوم ظاہر نہ ہو جائے جو اپنی زبانوں سے اس طرح کھائے گی جس طرح گائے زمین سے کھاتی ہے"۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"قرب قیامت برے لوگ بلند کر دئیے جائیں گے۔ اچھے لوگ پست کر دئیے جائیں گے۔ گفتگو کی  کثرت ہو جائے گی۔ جبکہ عمل روک دیا جائے گا، یعنی عمل نہیں ہو گا اور لوگوں کو "مُثَنَّا ۃ" پڑھائی جائے گی اور کوئی اسے برا نہیں سمجھے گا۔ پوچھا گیا: یہ مثناہ " کیا چیز ہے؟ فرمایا: جو کچھ اللہ کی کتاب کے سوا لکھا جائے"۔

آج اگر ہم اپنے اردگر د کے حالات پر نظر ڈالیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا  ہے کہ باقاعدہ انسٹیٹیوٹ موجود ہیں جو آپ کو سکلز مہیا کرتے ہیں  کہ آپ نے کلام کس طرح کرنا ہے، گاہک کو کس طرح گھیرنا ہے، اور چیز کس طرح بیچنی ہے، غلط بیانی کس طرح کرنی ہے لوگوں کو چیٹ کس طرح کرنا ہے، دوسری طرف دیکھیں تو ہماری آنے والی نسلوں کو جو نصاب پڑھایا جا رہاہے وہ بھی سب دنیا کمانے کے طریقوں پر مشتمل ہے آپ جو بھی  سبق اٹھا کر دیکھیں تو دنیا داری ہی نظر آتی ہے  اور لگتا ہے کہ یہ جو الفاظ پڑھائے جاتے ہیں سب کے سب کھوکھلے اور بناوٹی ہیں کیونکہ ان کا اصل حقیقت سے دور دور تک  کوئی تعلق نہیں، پڑھایا کچھ جارہا ہے عملا کچھ ہو رہا ہے، اس لیے ہمارے معاشرے میں بگاڑ اور انتشار زیادہ پھیل رہا ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طورطریقوں میں ہم نے ملاوٹ شروع کردی  اور نتیجہ یہ کہ ہم اصلی اور حقیقی مقصد سے دور ہوکر بھٹک گئے ہیں۔

اللہ رب العزت سے استدعا ہےکہ جب تک زندہ رکھے دین پر زندہ رکھے اور جب موت دے تو ایمان کی حالت میں موت دے۔۔۔ آمین

2 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو