google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 1400 سال قبل استعمال ہونے والی اسلامی تدریسی حکمت عملیاں کونسی ہیں؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 17 جولائی، 2020

1400 سال قبل استعمال ہونے والی اسلامی تدریسی حکمت عملیاں کونسی ہیں؟

1400 سال قبل استعمال ہونے والی اسلامی تدریسی حکمت عملیاں کونسی ہیں؟

 

اسلامی تعلیم و تربیت کا نظام ایک ایسے دور میں قائم ہوا جب دنیا میں علم اور تعلیم کے محدود ذرائع موجود تھے۔ حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر جو حکمت عملی اور طریقے تدریس کے لیے اپنائے گئے، وہ نہ صرف اس وقت کے لیے مفید تھے بلکہ آج بھی علم کے فروغ اور طلبہ کی تربیت میں کارآمد سمجھے جاتے ہیں۔

 


نبی کریم ﷺ نے بہترین تدریسی حکمت عملیاں اپنائیں جن کی بنیاد قرآن کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی سنت پر تھی۔ اس مضمون میں ہم 1400 سال قبل استعمال ہونے والی اسلامی تدریسی حکمت عملیوں کا جائزہ لیں گے، اور اس بات کا مطالعہ کریں گے کہ کس طرح ان طریقوں نے علم کو عام کیا اور مسلمانوں کو ایک بہترین تعلیمی نظام فراہم کیا۔

 

 1. انفرادی تعلیم (Personalized Learning)

 

نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ فرد کی صلاحیت اور اس کی ضرورت کے مطابق تعلیم دی۔ ہر شخص کا ذہنی، علمی، اور فکری درجے کا خیال رکھا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ ہر شخص کے سوالات اور اس کی ضرورت کے مطابق جواب دیتے تھے اور اس کی راہنمائی فرماتے تھے۔

 

ایک موقع پر حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر مقرر کرتے وقت نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم فیصلے کیسے کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا: "میں قرآن کے مطابق فیصلہ کروں گا، اگر قرآن میں نہ ملا تو سنت رسول ﷺ کی روشنی میں اور اگر سنت میں نہ ملا تو میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔" نبی کریم ﷺ نے ان کے اس طرزِ عمل کی تحسین فرمائی ۔

 

یہ تعلیماتی حکمت عملی بتاتی ہے کہ طلبہ کی انفرادی صلاحیتوں اور ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سکھانے کا طریقہ اپنایا جاتا تھا۔

 

 2. مرحلہ وار تعلیم (Gradual Learning)

 

قرآن مجید کے نزول کا عمل 23 سال پر محیط تھا، جو اس بات کا غماز ہے کہ اسلام میں تعلیم کو مرحلہ وار دیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا "اور ہم نے اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا تاکہ تم اسے لوگوں کو وقفے وقفے سے سناؤ اور ہم نے اسے تدریجاً نازل کیا ہے۔" اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کا مرحلہ وار ہونا ضروری ہے تاکہ طلبہ اسے بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔

 

نبی کریم ﷺ نے بھی صحابہ کو تعلیم دیتے وقت مرحلہ وار طریقہ اختیار کیا۔ آپ ﷺ نے دین کی بنیادی تعلیمات جیسے توحید، نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی تعلیمات کو پہلے بیان کیا اور پھر آہستہ آہستہ مزید تفصیلات اور مسائل سکھائے۔

 

 3. سوال و جواب کا طریقہ (Interactive Learning)

 

نبی کریم ﷺ کا ایک اور مؤثر تدریسی طریقہ سوال و جواب کا تھا۔ صحابہ کرام سوالات پوچھتے تھے، اور آپ ﷺ ان کے سوالات کے جواب میں مفصل اور وضاحت کے ساتھ تعلیم دیتے تھے۔ یہ ایک مؤثر طریقہ ہے جس سے طلبہ کی فکری صلاحیت بڑھتی ہے اور انہیں اپنی بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

 

حضرت جبرائیل علیہ السلام کا نبی کریم ﷺ سے دین کے بارے میں سوال پوچھنے والا واقعہ ایک مشہور مثال ہے۔ حضرت جبرائیلؑ نے آپ ﷺ سے اسلام، ایمان، احسان اور قیامت کے بارے میں سوالات کیے، اور نبی کریم ﷺ نے ان کے جوابات دیے ۔یہ طریقہ کار آج بھی تعلیمی اداروں میں مؤثر سمجھا جاتا ہے، جہاں استاد طلبہ کے سوالات کا جواب دے کر ان کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔

 

 4. عملی تعلیم (Learning by Doing)

 

نبی کریم ﷺ نے تعلیم کا عملی طریقہ اپنایا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو صرف زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ انہیں عملی طور پر سکھایا کہ کس طرح نماز ادا کی جائے، روزہ رکھا جائے، اور دیگر عبادات کی جائیں۔

حضرت مالک بن حویرثؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "نماز ایسے پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے" یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف زبانی تعلیم دی بلکہ عملی طور پر بھی عبادات کی تربیت دی۔ اس طریقہ کار سے طلبہ کی عملی تربیت ہوتی ہے اور وہ بہتر طور پر علم کو سمجھتے ہیں۔

 

 5. قصص و کہانیوں کے ذریعے تعلیم (Teaching through Stories)

 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء اور اقوام کے قصے بیان کیے ہیں تاکہ ان سے عبرت اور سبق حاصل کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے"ہم آپ کو بہترین قصہ سناتے ہیں اس قرآن کے ذریعے جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے۔" کہانیوں کے ذریعے تعلیم دینے کا طریقہ ایک بہت مؤثر حکمت عملی ہے کیونکہ یہ طلبہ کی توجہ کو جلب کرتا ہے اور ان کے ذہن میں موجود مسائل کو آسانی سے حل کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ بھی اکثر اپنے صحابہ کو انبیاء کے قصے سناتے اور ان سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتے۔

 

 6. مثالوں کے ذریعے تعلیم (Teaching through Parables)

 

نبی کریم ﷺ اور قرآن مجید میں تعلیم دینے کے لیے اکثر مثالوں کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ لوگ بہتر انداز میں مفاہیم کو سمجھ سکیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر مثالیں بیان کی ہیں تاکہ انسان کی ذہنی سطح کو سمجھا سکے۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اللہ مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سوچیں۔" نبی کریم ﷺ بھی مثالوں کے ذریعے تعلیم دیتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: "مؤمن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہے" (صحیح بخاری: 66)۔ اس طرح کے تمثیلی انداز سے طلبہ کو مفاہیم اور اصولوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

 

 7. اجتماعی تعلیم (Collaborative Learning)

 

نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو اجتماعی طور پر تعلیم دینے کا طریقہ بھی اپنایا۔ آپ ﷺ کے صحابہ اکثر حلقے میں بیٹھ کر آپ ﷺ کی باتوں کو سنتے اور پھر آپس میں اس پر گفتگو کرتے تھے۔ یہ اجتماعی تعلیم کا بہترین طریقہ تھا جس سے صحابہ کرام نے دین کی بنیادی تعلیمات کو بہتر طور پر سیکھا۔

 

اجتماعی تعلیم کا یہ طریقہ قرآن میں بھی موجود ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے تعلیم کو مشترکہ طور پر سیکھنے اور سکھانے کی تلقین کی ہے:"اور آپس میں نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔"

 

 8. ترغیب و ترہیب کا طریقہ (Encouragement and Warning)

 

نبی کریم ﷺ نے تعلیم دیتے وقت ہمیشہ ترغیب اور ترہیب (خوش خبری اور وارننگ) کا طریقہ اپنایا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو اعمال صالحہ کی طرف ترغیب دی اور انہیں انعامات کی خوش خبری دی، اور ساتھ ہی غلطیوں اور گناہوں پر تنبیہ بھی کی۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور ہم نے آپ کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔"ترغیب و ترہیب کا یہ طریقہ تعلیم میں اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اس سے طلبہ کو اچھے اعمال کی ترغیب ملتی ہے اور برے اعمال سے دور رہنے کی وارننگ ملتی ہے۔

 

 9. استقامت اور محنت پر زور (Emphasis on Perseverance and Hard Work)

 

نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ محنت اور استقامت پر زور دیا اور یہ تعلیم دی کہ علم حاصل کرنے کے لیے محنت اور مستقل مزاجی ضروری ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں "نبی ﷺ کو جو بھی عمل پسند تھا وہ وہی ہوتا تھا جو مستقل طور پر کیا جائے، اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔" یہ تعلیم اس بات پر زور دیتی ہے کہ استاد اور طالب علم دونوں کو مستقل محنت اور استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ علم کے حصول میں کامیابی حاصل ہو۔

 

 

1400 سال قبل نبی کریم ﷺ کی استعمال کردہ تدریسی حکمت عملیاں آج بھی ہمارے لیے بہترین رہنما ہیں۔ ان حکمت عملیوں میں انفرادی تعلیم، عملی تربیت، سوال و جواب، قصے اور مثالیں، اور اجتماعی تعلیم جیسے اہم اصول شامل ہیں۔ یہ تدریسی طریقے نہ صرف اس وقت کے لیے مفید تھے بلکہ آج بھی تعلیمی نظام میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو