آج کا استاد پریشان کیوں؟
آج
کے دور میں، استاد کا کردار محض علم دینے تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ معاشرتی، ذہنی
اور نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ جدید دور کے تعلیمی نظام میں تبدیلیوں،
سماجی دباؤ، معاشرتی توقعات، اور ذاتی مسائل کی بنا پر اساتذہ کی مشکلات میں اضافہ
ہو چکا ہے۔ حالیہ دور میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آج کا استاد پریشان کیوں
ہے؟ اور کیا قرآن و سنت میں ایسی کوئی رہنمائی موجود ہے جو اساتذہ کی اس پریشانی
کا ازالہ کر سکے؟
اس
مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ استاد کی پریشانیوں کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اور قرآن
و سنت کی روشنی میں ان کا کیا حل ہو سکتا ہے۔
1. تعلیمی
نظام میں پیچیدگیاں اور دباؤ
آج
کا تعلیمی نظام پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور سخت ہو چکا ہے۔ اساتذہ کو نہ صرف نصاب
مکمل کروانے کا دباؤ ہوتا ہے بلکہ طلبہ کی اخلاقی تربیت اور امتحانی نتائج کی بہتری
کے لیے بھی اضافی ذمہ داریاں عائد کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، بڑھتے ہوئے مقابلے
اور معیار کو برقرار رکھنے کی جدوجہد نے اساتذہ کو دباؤ کا شکار بنا دیا ہے۔
اللہ
تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: "اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔" یہ آیت ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی
ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر آزمائش میں نہیں ڈالتا۔
اساتذہ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان پر جو ذمہ داریاں ہیں، وہ ان کی طاقت
کے مطابق ہیں، اور انہیں اپنی کوششوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
2. طلبہ
کے رویے اور غیر سنجیدگی
آج
کے دور میں طلبہ کا تعلیمی رویہ بھی ایک بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر اساتذہ کو ذہنی
دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طلبہ کا غیر سنجیدہ رویہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں
مگن رہنا، اور تعلیم سے عدم دلچسپی نے استاد کی ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔
استاد کو نہ صرف علم دینا ہوتا ہے بلکہ طلبہ کو اس علم کے حصول کی طرف مائل کرنا
بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے: "اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤ
جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔" یہ آیت اس
بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ تعلیم دینا اور طلبہ کی اصلاح کرنا ایک اہم ذمہ داری
ہے۔ اساتذہ کو اس چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے صبر اور حکمت سے کام لینا چاہیے اور
اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
3. معاشی
مسائل اور کم تنخواہیں
اساتذہ
کی پریشانی کا ایک اور اہم سبب معاشی مسائل ہیں۔ بہت سے ممالک میں اساتذہ کی
تنخواہیں ناکافی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا
سامنا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، معاشرتی طور پر استاد کا مقام بھی پہلے کے
مقابلے میں کم ہو چکا ہے، جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا "تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہترین ہو، اور
میں اپنے اہل و عیال کے لیے بہترین ہوں۔"
یہ حدیث ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ استاد کو اپنے معاشی مسائل کا سامنا
کرتے ہوئے بھی اپنے فرائض کو انجام دینا چاہیے، اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل
رکھنا چاہیے۔
4. خاندانی
مسائل اور ذاتی زندگی کے تقاضے
آج
کا استاد صرف تعلیمی ذمہ داریاں ہی نہیں نبھاتا بلکہ اسے اپنی ذاتی زندگی کے مسائل
کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ خاندانی مسائل، بچوں کی تربیت، اور گھریلو دباؤ نے اساتذہ کی
پریشانیوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ کام کے بعد بھی انہیں ذہنی سکون حاصل نہیں ہوتا،
جس کی وجہ سے ان کی تدریسی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
قرآن
مجید میں اللہ تعالیٰ نے صبر اور استقامت کی اہمیت کو بیان کیا ہے "اور صبر
کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"
یہ آیت اساتذہ کو اس بات کی نصیحت کرتی ہے کہ انہیں اپنے ذاتی مسائل پر قابو پانے
کے لیے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
5. تعلیمی
اداروں میں دباؤ اور پروفیشنلزم
اساتذہ
کو اکثر تعلیمی اداروں میں انتظامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں پروفیشنلزم
کے نام پر کئی بار غیر ضروری کاموں میں الجھایا جاتا ہے، جیسے اضافی امتحانات، میٹنگز،
اور فالتو کام۔ یہ دباؤ اساتذہ کی اصل تدریسی ذمہ داریوں کو متاثر کرتا ہے اور انہیں
ذہنی دباؤ کا شکار بناتا ہے۔
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں
سوال ہوگا۔" اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
استاد کی اصل ذمہ داری اس کے طلبہ ہیں، اور وہ ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے
جوابدہ ہیں۔ اساتذہ کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو ترجیح دینی چاہیے اور غیر ضروری
دباؤ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
6. اساتذہ
کے معاشرتی مقام کی کمی
پہلے
کے دور میں استاد کو ایک بلند مقام دیا جاتا تھا، مگر آج کے دور میں معاشرے میں
اساتذہ کا وہی مقام نہیں رہا۔ اساتذہ کی عزت و تکریم میں کمی اور معاشرتی توقعات کی
زیادتی نے انہیں مایوس کر دیا ہے۔ والدین اور معاشرہ اکثر اساتذہ سے زیادہ توقعات
رکھتا ہے، مگر ان کی قدر کم کرتا ہے۔
قرآن
مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور تم میں سے جس کو علم دیا گیا ہے، اس کے درجات بلند کیے جائیں
گے۔"یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ
کے نزدیک علم والے افراد کا مقام بلند ہے، اور معاشرے کو بھی اساتذہ کی قدر اور
عزت کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں۔
7. روحانی
و اخلاقی دباؤ
اسلام
میں تعلیم دینے والے استاد کا ایک روحانی اور اخلاقی مقام ہوتا ہے، اور آج کے دور
میں اساتذہ کو اس روحانی دباؤ کا بھی سامنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو بہترین
اسلامی اخلاق و کردار سکھائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، خود بھی ان اصولوں پر عمل پیرا
رہنا ایک چیلنج ہوتا ہے، خاص طور پر جب معاشرہ تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہو۔
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا "تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔"
یہ حدیث اساتذہ کو ان کی روحانی اور اخلاقی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ استاد
کو صرف علم دینا ہی نہیں بلکہ طلبہ کے کردار کو سنوارنے میں بھی اپنا کردار ادا
کرنا ہوتا ہے۔
8. تکنالوجی
کا دباؤ اور نئی مہارتوں کا فقدان
جدید
دور میں تکنالوجی کا فروغ ایک اور وجہ ہے جس کی بنا پر اساتذہ کو ذہنی دباؤ کا
سامنا ہے۔ انہیں نئی تکنیکی مہارتیں سیکھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے
طلبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم دے سکیں۔ اساتذہ کو انٹرنیٹ، کمپیوٹر، اور دیگر
جدید وسائل کے استعمال کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ تعلیمی نظام کا حصہ بن سکیں۔
اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے "اور اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کرو۔"یہ
آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ علم ایک نعمت ہے اور اس کے حصول کے لیے ہر
ممکن کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ جدید علوم اور تکنالوجی ہی کیوں نہ ہوں۔
آج
کے استاد کی پریشانیوں کی بنیادی وجوہات میں تعلیمی دباؤ، طلبہ کا غیر سنجیدہ رویہ،
کم تنخواہیں، خاندانی مسائل، اور معاشرتی توقعات شامل ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں
دیکھا جائے تو ان مسائل کا حل صبر، تقویٰ، توکل اور اپنی ذمہ داریوں کو اخلاص کے
ساتھ انجام دینے میں مضمر ہے۔ اسلام میں استاد کا مقام بلند ہے، اور معاشرے کو
اساتذہ کی قدر کرنی چاہیے تاکہ وہ بہتر انداز میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
اساتذہ
کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انجام دیں اور دنیاوی مسائل کا مقابلہ صبر اور حکمت سے کریں۔
مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔