اگر ہم سچی گواہی کوچھپائیں گے تو معاشرے میں کیا ہوگا؟
محترم قارئین کرام! حقائق کو چھپانے کو ظلم سے
تعبیر کیا گیا ہے، سچی گواہی صرف عدالتوں میں قاضی ، جج یا پنچائت کے
سرپنج کے سامنے بولنے کا نام نہیں بلکہ اس کا لغوی معنی تو بہت وسیع ہے اسےہم کسی
ایک کارنر میں بند نہیں کر سکتے۔ مسلمان کا وصف تو سچائی ہے سچ بولنے سے ہی
اس کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ جھوٹ تو کافر کی پہچان ہے مسلمان کی تعلیمات
میں سچ کی گنجائش تو ہےپر جھوٹ کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔
اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے
اپنی امت کی اصلاح ، اور ان سے بچنے اور آخرت کی تیاری کے لئے بہت
ساری نشانیاں بتلائی ہیں ان بہت ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ کہ
قرب قیامت میں معاشرہ میں سچی گواہی کو چھپا
یا جائے گا، گویا حق بات کو جانتے بوجھتے چھپایا جائے گا چاہے کسی بے
گناہ انسان کا گلہ ہی کیوں نہ کٹ جائے۔
ارشاد ربانی
ہے "جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور
ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجود یہ کہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے
ہیں ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے”
میری نظر میں حقائق کو دو
طریقوں سے چھپایا جاتا ہے ایک طریقہ دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اور دوسرا طریقہ
دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو کر۔ پہلے ہم دوسرے طریقے کی بات کرتے ہیں مثلا
سورج، چاند، ستارے، پھل ، پھول، حیوانات، نباتات، بحروبر ، بادلوں کا آنا جانا،
رات اور دن کا آنا جانا یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی دل سے انکار کر دینا
اور اس پر جھوٹے اور عقلی دلائل دینے کی کوشش کرنا ، حق جانتے ہوئے بھی باطل کا
لبادہ اوڑھنا وغیرہ جیسے دنیا کے دوسرے مذاہب عالم میں ہوتا آ رہا ہے ،
چلو! وہ تو کفر کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ناسمجھ ہے، اللہ ایسے
لوگوں کو ہدایت دے۔۔ آمین
اب بات کرتے ہیں پہلے طریقے
کی جو شخص دائرہ اسلام میں داخل ہو ، کلمہ پڑھا، نمازیں ادا کیں، اللہ
کی ذات پر ایمان لایا اور آپ ﷺ کے فرامین کو اپناتے ہوئے بھی حقائق کو
چھپایا،چار ٹکوں کے لئے ایمان کا سودا کیا اور ناحق قتل کی گواہی دی، سچ کو
چھپاتے ہوئے کسی کی زمین ، مکان، دکان، گاڑی اور دیگر مال واسباب پر قبضہ کر لیا،
راتوں رات حقائق چھپا کرتجاویزتبدیل، کاغذات نامزدگی تبدیل، گواہان تبدیل، خریدے
گئے جھوٹے گواہان، اصلی چیز کو چھپا کر جعلی چیز دینا، غرض یہ
کہ دنیا کی حرص اور لالچ نے اندھا کر دیا ہم سب کو انصاف دینے والے بھی ، لینے
والے بھی اور انصاف کے رکھوالے بھی سب کے سب اس بدترین گناہ میں ملوث ہوتے ہیں۔
اور یہی مکروہ دھندہ چلتا آرہا ہے ہمارے معاشرے میں سالوں سے اور وقت کے
ساتھ ساتھ اس میں مزید جدت آتی جارہی ہے۔ بجائے کم ہونے کے مسلسل تیزی سے اضافہ
ہوتا جا رہاہے۔
یہ بات صرف یہاں تک ہی ممکن
نہیں ہے بلکہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے جس معاشرے میں جھوٹ کو عام کیا جارہا
ہو اور حقائق کو چھپایا جارہا ہو اس معاشرے سے خیر کی امید کیسے ممکن ہے،
مثلا ہمارے میڈیا کو ہی دیکھ لیں، قلم چلانے والے چند ٹکوں کی خاطر رپورٹس
میں ردوبدل کر دیتے ہیں، اخبارات میں وہی کچھ لکھا جاتا ہے جس قلم میں سیاہی
کی بجائے ڈالر، ریال ، پاؤنڈ ڈالے جاتے ہوںوہ سچائی کب اگلے گا، معاشرے میں
بددیانتی کی ایسی فضا پھیلتی جارہی ہے کہ کس کس کا گلہ کٹ رہا ہے کسی کو کسی سے
کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو سوچتا ہو ں کہ سچ کی گردن ہم نے اتنی
زور سے دبائی ہوئی ہے لیکن سچ ایسا ڈھیٹ ہے کہ مرتا ہی نہیں ورنہ ہم نے کوئی کسر
نہیں اٹھا رکھی اس کو اپنے ہاتھوں سے مارنے کی۔
اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو
اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اگر
وہ ظالم ہو تو اس کو ظلم سے باز رکھے اور مظلوم ہو تو اس کا حق جہاں تک ممکن ہو
اسے واپس دلانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سچی گواہی چھپانے کو حرام قرار دیا
ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ " اور
(سچی) گواہی کو نہ چھپاؤ، جو اسے چھپائے گا وہ گنہگار دل والا ہوگا۔"
تمام مسلمان ایک فرد کی طرح ہیں اگر
اس کی آنکھوںمیں تکلیف ہوجائے تو
وہ خودپورا تکلیف میں مبتلاء ہوجاتا ہے اور اگر اس کا سر تکلیف میں مبتلاء ہوتا ہے
تووہ خودپورا تکلیف میں مبتلاء ہوجاتا ہے۔
مومنوں
کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر اس کے ایک حصہ کوتکلیف پہنچتی ہے تو اس کے تمام
اعضاء بے چین ہو اُٹھتے ہیں
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں
ہے کہ جو شخص کسی بھائی کو ذرہ سا بھی نقصان پہنچاتا ہے وہ کبھی بھی سکون
میں نہیں رہتا، اگر وہ مسلمان ہے اور اس کے دل میں ایمان کی رمق باقی ہے تو وہ
اضطرابی، اضطراری، پریشانی، رنج ، تکلیف،دکھ کا شکار رہتا ہے غرض یہ کہ وہ کسی بھی
کروٹ سکون میں نہیں رہتا چاہے وہ خوشی کا لبادہ اپنے چہرے پر سجائے رکھے درحقیقیت
وہ اندر سے شرمندہ ضرور ہوتا ہے۔کیسے لوگ ہیں ہم سب کچھ واضح ہونے کے باوجود بھی
ہم اپنے مسلمان بھائی کو نوچنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اللہ اور اسکے
رسول ﷺ کے فرمان وہ ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں ان سے منہ موڑ کر حقائق کی
آنکھوں پر پٹی باندھ کر پھر بھی یہ سب کر لیتے ہیں ، کہیں ہم نعوذ باللہ ان
آیات اور احادیث کو جھٹلاکر خود کو دھوکا تو نہیں دے رہے۔
آخری زمانے میں لوگ ایک
دوسرے کا حق ماریں گے اور جو حقیقت حال کا علم رکھتے ہوں گے وہ خاموش رہیں گے۔ اور
طاقت کے باوجود سچی گواہی دینے سے گریز کریں گے۔وہ اپنے ذاتی مفادات کو گواہی دینے
پر مقدم رکھیں گے اور یہ صورت حال علامات قیامت میں سے ہے، جیسا کہ حدیث سابق میں
نبی ﷺ نے قیامت سے پہلے کی علامات میں سچی گواہی کے چھپانے کو بھی ذکر فرمایا ہے۔
‘‘ اور ایک حدیث شریف میں ہے
کہ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کیا
وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا
"۔
قرآن کریم میں ارشاد
ہوا : ’’ ایسے گواہ جن کو پسند کرو‘‘ اور ظاہر ہے کہ ایک مسلمان، ایسوں ہی کو گواہ
بنانا اور اس کی گواہی کو قبول کرنا پسند کرے گا جو اُس کے نزدیک متقی، عادل اور
قابل اعتبار ہوں اور جن کے صالح ہونے پر اُسے اعتماد ہو، اور جو عاقل، بالغ، آزاد
اور دین دار ہوں۔
اسلام نے مسلمان عورتوں
کو بھی یہ حق دیا اور عورت کی گواہی کو مشروط قابل قبول مانا۔ شریعتِ مطہرہ کے
مطابق جب مدعی گواہوں کو طلب کرے تو انہیں گواہی چھپانا جائز نہیں۔ مدعی کے طلب
کرنے پر گواہی دینا لازم ہے بلکہ اگر گواہ کو اندیشہ ہو کہ اگر میں نے گواہی نہ دی
تو صاحبِ حق کا حق تلف ہوجائے گا یعنی اُسے معلوم ہی نہیں ہے کہ فلاں شخص
معاملے کو جانتا ہے تو اُسے گواہی کے لیے کیسے طلب کرے گا۔ اس صورت میں بغیر طلب بھی گواہی
دینا لازم ہے۔
“اللہ پاک ہم سب کو جھوٹ سے رکنے اور ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق عطا
فرمائے۔۔آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔